Ahkam-ul-Quran - Al-A'raaf : 17
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَاٰتِيَنَّهُمْ : میں ضرور ان تک آؤں گا مِّنْ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَ : اور مِنْ خَلْفِهِمْ : پیچھے سے ان کے وَ : اور عَنْ : سے اَيْمَانِهِمْ : ان کے دائیں وَ : اور عَنْ : سے شَمَآئِلِهِمْ : ان کے بائیں وَلَا تَجِدُ : اور تو نہ پائے گا اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر شٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا۔ (اور ان کی راہ ماروں گا) تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہیں پائیگا۔
ابلیس کے وار انسان پر قول باری ہے ثم لا تینھم من بین ایدیھم ومن خلفھم وعن ایمانھم وعن شمائلھم پھر ان کے آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا) حضرت ابن عباس، ابراہیم، قتادہ، الحکم اور سدی سے منقول ہے کہ من بین ایدیھم ومن خلفھم) سے مراد ہے ” ان کی دنیا اور آخرت کی طرف سے، ان کی نیکیوں اور بدیوں کی جہت ہے “ مجاہد کا قول ہے۔” ان کی نظروں کے سامنے ہو کر اور ان کی نظروں سے چھپ کر “ ایک قول ہے ” ہر اس جہت سے جس میں انہیں اپنے پھندے میں پھانسنا ممکن ہوگا “۔ شیطان نے انسانوں کے خلاف اپنی فتنہ سا مانیوں کے لئے ایک جہت کا ذکر نہیں کیا یعنی ” ومن فوقھم “ (اور ان کے اوپر سے) نہیں کہا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ انسانوں پر اللہ کی رحمت اوپر سے نازل ہوتی ہے اس لئے اس جہت کو شیطان سے آزاد رکھا گیا۔ اسی طرح ومن تحت ارجلھم (اور ان کے قدموں کے نیچے سے) نہیں کہا اس لئے اگر اس کے حقیقی معنی مراد لئے جائیں تو اس جہت سے کوئی کارروائی ناممکن اور ممتنع ہوتی ہے۔ قول باری ہے ولاتقرباھذہ الشجرۃ فتکونا من الظالمین۔ مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جائو گے) اللہ تعالیٰ نے درخت سے دونوں کے قرب کو مقرون کردیا۔ البتہ یہ بات معلوم ہے کہ اس میں یاد کی شرط لگائی تھی اور جان بوجھ کر اس کا علم رکھتے ہوئے کھانے کی شرط عائد کی تھی۔ اس لئے کہ نسیان اور خطا کی بنا پر کسی کام کے کرلینے میں جس پر کوئی دلیل قاطمع موجود نہ ہو، مواخذہ نہیں ہوتا۔ ان دونوں کا درخت سے کھا لینا معصیت کبیرہ نہیں تھی بلکہ دو وجوہ سے معصیت صغیرہ تھی۔ ایک تو یہ کہ دونوں اس معصیت کی وعید کو بھول گئے تھے اور یہ خیال کر بیٹھے تھے کہ یہ نہی استجباب پر مبنی ہے ایجاب پر مبنی نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فنسی ولم نجدلہ عزماً ۔ سو ان سے بھول ہوگئی اور ہم نے ان میں پختگی نہیں پائی) دوسری وجہ یہ ہے کہ انہیں ایک متعین درخت کا اشارہ دیا گیا تھا اور انہوں نے اس سے عین درخت مراد سمجھی تھی جبکہ جنس درخت مرا د تھی جس طرح حضور ﷺ نے سونا اور ریشم ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا تھا ھذان مھلکا امتی۔ یہ دونوں چیزی میری امت کے لئے مہلک ہیں) آپ ﷺ نے جنس سونا اور جنس ریشم مراد لی تھی، صرف وہی سونا اور ریشم مراد نہیں تھے جنہیں آپ نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔
Top