Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 17
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَاٰتِيَنَّهُمْ : میں ضرور ان تک آؤں گا مِّنْ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَ : اور مِنْ خَلْفِهِمْ : پیچھے سے ان کے وَ : اور عَنْ : سے اَيْمَانِهِمْ : ان کے دائیں وَ : اور عَنْ : سے شَمَآئِلِهِمْ : ان کے بائیں وَلَا تَجِدُ : اور تو نہ پائے گا اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر شٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
پھر ان کو ان کے سامنے سے بھی آلوں گا اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کے داہنے سے بھی اور ان کے بائیں سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے،20 ۔
20 ۔ (اس لیے ان اکثر کو میں اپنی راہ پر لگالوں گا) (آیت) ” ثم لاتینھم من بین ایدیھم ومن خلفھم وعن ایمانھم وعن شمآئلھم “۔ یعنی ان پر ہر طرف سے حملہ کروں گا، انہیں ہر سمت سے گھیرلوں گا، کوشش کا کوئی دقیقہ ان کے گمراہ کرنے میں اٹھا نہ رکھوں گا، باقی ان چاروں فقروں کی الگ الگ تفسرین بھی مختلف مفسرین وحکماء اسلام سے منقول ہیں۔ (آیت) ” من بین ایدیھم “۔ سے مراد دنیا لی گئی ہے اور (آیت) ” من خلفھم “ سے دین گویا ابلیس یہ کہہ رہا ہے کہ میں ان پر دنیا کی راہ سے بھی حملہ کروں گا اور دین کے راستے سے بھی، حکماء اسلام نے اول الذکر سے مراد انسان کی قوت خیالی لی ہے۔ اور آخر الذکر سے قوت وہمی۔ (آیت) ” عن ایمانھم “۔ سے مراد نیکی سے روکنا اور (آیت) ” عن شمآئلھم “۔ سے مراد بدی پر جرأت دلانا لیا گیا ہے۔ گویا ابلیس یہ اعلان کررہا ہے کہ میں انہیں نیکیوں سے روکوں گا بھی اور بدی پر آمادہ بھی کروں گا۔ حکماء اسلام نے پہلے فقرہ سے مراد قوت شہوی لی ہے اور دوسرے سے قوت غضبی۔ امام رازی (رح) نے تفسیر کبیر میں اس قسم کے اقوال کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔ (آیت) ” ولا تجد اکثرھم شکرین “۔ سے ایک نکتہ یہ ذہن میں آتا ہے کہ محض کشف اگر مقبولیت کی دلیل ہوتا تو شیطان کے مقبول ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنے کشف سے قیامت تک کے لیے یہ نقشہ کھینچ دیا۔
Top