Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 17
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَاٰتِيَنَّهُمْ : میں ضرور ان تک آؤں گا مِّنْ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَ : اور مِنْ خَلْفِهِمْ : پیچھے سے ان کے وَ : اور عَنْ : سے اَيْمَانِهِمْ : ان کے دائیں وَ : اور عَنْ : سے شَمَآئِلِهِمْ : ان کے بائیں وَلَا تَجِدُ : اور تو نہ پائے گا اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر شٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
پھر ضرور آؤں گا ان کے پاس ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی داہنی جانب سے اور ان کی بائیں جانب سے، اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے۔
(1) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ثم لاتیتھم من بینی ایدیہم “ یعنی اس کو شک میں ڈال دوں گا ان کی آخرت کے بارے میں ” ومن خلفہم “ یعنی ان کو رغبت دلاؤں گا ان کی دنیا میں۔ ” وعن ایمانہم “ یعنی میں اس کو شبہ میں ڈال دوں گا ان کے دین کے کام میں ” وعن شمائلہم “ یعنی میں پسندیدہ بنا دو گا ان کے گناہوں کو اور میں آسان کر دوں گا ان پر باطل کو لفظ آیت ” ولا تجد اکثرھم شکرین “ یعنی تو ان میں سے اکثر کو موحد نہیں پائے گا۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ثم لاتیتھم من بین ایدیہم “ یعنی میں اس کو دنیا کی جانب سے ” ومن خلفہم “ آخرت کی جانب سے ” وعن ایمانھم “ ان کی نیکیوں کی جانب سے ” وعن شمائلہم “ ان کے برائیوں کی جانب سے۔ (3) امام ابن شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ثم لاتینھم من بین ایدیہم ومن خلفھم “ یعنی (شیطان نے) ان سے کہا۔ نہ آخرت میں اٹھنا ہے نہ جنت ہے نہ دوزخ ہے اور پیچھے کی جانب سے انہیں دنیا کے کام کی طرف متوجہ کیا تو اس (دنیا) کو ان کے لئے (شیطان نے) خوبصورت بنا دیا۔ اور اس نے اس (دنیا) کی طرف ان کو بلایا ” وعن ایمانھم “ یعنی ان کی نیکیوں کی جانب سے آؤں گا اور ان کو نیکی کے معاملہ میں سست کر دوں گا۔ ” وعن شمائلہم “ یعنی ان کے لئے برائیوں کو اور گناہوں کو خوبصورت بنا دوں گا اور اس کی طرف ان کو بلاؤں گا اور اس کے ساتھ ان کو حکم دے گا۔ اے آدم کے بیٹے آئے گا تیرے پاس تیرے آگے سے وہ تیرے پاس اوپر کی جانب سے نہیں آئے گا۔ وہ اس بات کی طاقت نہیں رکھے گا کہ وہ تیرے اور اللہ کی رحمت کے درمیان ہوجائے۔ (4) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور لالکائی نے السنۃ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ (شیطان) ” من فوقھم “ نہیں کہہ سکا یہ جانتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اوپر ہیں اور دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ رحمت نازل ہوتی ہے ان کے اوپر ہے۔ شیطان اللہ کی رحمت کے درمیان حائل نہیں ہوسکتا (5) امام ابو الشیخ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اے ابن آدم وہ ہر طرف سے تیرے پاس آئے گا سوائے اس کے کہ وہ اس بات کی طاقت نہیں رکھے گا کہ وہ تیرے اور اللہ کی رحمت کے درمیان حائل ہوجائے بلاشبہ صرف رحمت نازل ہوئی ہے تیرے اوپر سے۔ (6) امام ابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ابلیس نے کہا میں ضرور آؤں گا ان کے آگے سے ان کے پیچھے سے ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس پر رحمت نازل کروں گا ان کے اوپر سے۔ (7) امام ابو الشیخ نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ثم لاتینھم من بین ایدیھم “ یعنی حق کے راستے میں ” ومن خلفھم “ یعنی باطل کے راستے سے ” وعن ایمانہم “ یعنی آخرت کی جانب سے اور ” وعن شمائلہم “ یعنی دنیا کی جانب سے۔ (8) امام احمد، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ صبح کو اور شام کو یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اللہم احفظنی من بین یدی ومن خلفی وعن یمینی وعن شمالی ومن فوقی واعوذ بعظمتک ان اغتال من تحتی۔ اے اللہ ! میری حفاظت فرما میرے آگے سے میرے پیچھے سے میرے دائیں سے میرے بائیں سے اور میرے اوپر سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے تیری عظمت کی سبب کہ میں اپنے نیچے کی جانب سے بہک جاؤں۔
Top