Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 17
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَاٰتِيَنَّهُمْ : میں ضرور ان تک آؤں گا مِّنْ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَ : اور مِنْ خَلْفِهِمْ : پیچھے سے ان کے وَ : اور عَنْ : سے اَيْمَانِهِمْ : ان کے دائیں وَ : اور عَنْ : سے شَمَآئِلِهِمْ : ان کے بائیں وَلَا تَجِدُ : اور تو نہ پائے گا اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر شٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
اِن انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے اِن کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائےگا۔“12
سورة الْاَعْرَاف 12 یہ وہ چیلنج تھا جو ابلیس نے خدا کو دیا۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ مہلت جو آپ نے مجھے قیامت تک کے لیے دی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر میں یہ ثابت کرنے کے لیے پورا زور صرف کر دوں گا کہ انسان اس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو آپ نے میرے مقابلہ میں اسے عطا کی ہے۔ میں آپ کو دکھا دوں گا کہ یہ کیسے ناشکرا، کیسا نمک حرام اور کیسا احسان فراموش ہے۔ یہ مہلت جو شیطان نے مانگی اور خدا نے اسے عطا فرمادی، اس سے مراد محض وقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کام کا موقع دینا بھی ہے جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ یعنی اس کا مطالبہ یہ تھا کہ مجھے انسان کو بہکانے اور اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے، اور یہ موقع اللہ تعالیٰ نے اسے دے دیا۔ چناچہ سورة بنی اسرائیل آیات 61۔ 65 میں اس کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دے دیا کہ آدم اور اس کی اولاد کو راہ راست سے ہٹا دینے کے لیے جو چالیں وہ چلتا چاہتا ہے، چلے۔ ان چال بازیوں سے اسے روکا نہیں جائے گا بلکہ وہ سب راہیں کھلی رہیں گی جن سے وہ انسان کو فتنہ میں ڈالنا چاہے گا۔ لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی کہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِم سُلْطَانٌ، یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار نہ ہوگا۔ تو صرف اس بات کا مجاز ہوگا کہ ان کو غلط فہمیوں میں ڈالے، جھوٹی امیدیں دلائے، بدی اور گمراہی کو ان کے سامنے خوش نما بنا کر پیش کرے، لذتوں اور فائدوں کے سبز باغ دکھا کر ان کو غلط راستوں کی طرف دعوت دے۔ مگر یہ طاقت تجھے نہیں دی جائے گی کہ انہیں ہاتھ پکڑ کر زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جائے اور اگر وہ خود راہ راست پر چلنا چاہیں تو انہیں نہ چلنے دے۔ یہی بات سورة ابراہیم آیت 22 میں فرمائی ہے کہ قیامت میں عدالت الہٰی سے فیصلہ صادر ہوجانے کے بعد شیطان اپنے پیرو انسانوں سے کہے گا وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّن سُلْطَانٍ اِلَّآاَنْ دَعَوْتَکُمْ فَاسْتَجِبْتُم لِی فَلَا تَلُوْ مُوْنِی وَلُوْمُوْٓااَنْفُسَکُمْ ، یعنی میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں کہ میں نے اپنی پیروی پر تمہیں مجبور کیا ہو، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنی راہ پر بلایا اور تم نے میری دعوت قبول کرلی۔ لہذٰا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ اور جو شیطان نے خدا پر الزام عائد کیا ہے کہ تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اپنی معصیّت کی ذمہ داری خدا پر ڈالتا ہے۔ اس کو شکایت ہے کہ آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دے کر تو نے مجھے فتنے میں ڈالا اور میرے نفس کے تکبر کو ٹھیس لگا کر مجھے اس حالت میں مبتلا کردیا کہ میں نے تیری نافرمانی کی۔ گویا اس احمق کی خواہش یہ تھی کہ اس کے نفس کی چوری پکڑی نہ جاتی بلکہ جس پندار غلط اور جس سرکشی کو اس نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا اس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا جاتا۔ یہ ایک کھلی ہوئی سفیہانہ بات تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سرے سے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔
Top