Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 17
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَاٰتِيَنَّهُمْ : میں ضرور ان تک آؤں گا مِّنْ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَ : اور مِنْ خَلْفِهِمْ : پیچھے سے ان کے وَ : اور عَنْ : سے اَيْمَانِهِمْ : ان کے دائیں وَ : اور عَنْ : سے شَمَآئِلِهِمْ : ان کے بائیں وَلَا تَجِدُ : اور تو نہ پائے گا اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر شٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
پھر میں پوری قوت سے ان پر حملے کروں گا، ان کے آگے سے بھی، اور انکے پیچھے سے بھی، ان کی دائیں جانب سے بھی، اور انکی بائیں طرف سے بھی، اور تو ان میں سے اکثر شکر گزار نہ پائے گا،
20 شیطان کا اکثریت کو گمراہ کرنے کا دعویٰ و چیلنج : سو شیطان نے دعویٰ اور چیلنج کیا کہ تو ان کی اکثریت کو شکر گزار نہیں پائیگا۔ اور اس نے ایسا کر دکھایا کہ اولاد آدم کی اکثریت کفر و شرک کی غلاظتوں میں ملوث ہو کر شیطان کی پیرو بن گئی، جیسا کہ قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے { وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ ، فَاتَّبَعُوْہُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ } (سبا :20) ۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ایمان و یقین کی قوت ہی انسان کو ابلیس کے وار سے بچا سکتی ہے اور شیطان کے اس اعلان و چیلنج کا صاف اور سیدھا مطلب یہی ہے کہ تو ان کی اکثریت کو موحد نہیں پائیگا۔ اس لئے کہ توحید کی اصل حقیقت یہی ہے کہ بندہ ہر نعمت کو اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ اور اس کا فضل و احسان سمجھے اور اسی کا شکر گزار بن کر رہے۔ اور اگر وہ اس کو غیر اللہ کی طرف منسوب کر دے تو یہی شرک ہوگا۔ سو مشرک آدمی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بن ہی نہیں سکتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top