Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 17
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَاٰتِيَنَّهُمْ : میں ضرور ان تک آؤں گا مِّنْ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَ : اور مِنْ خَلْفِهِمْ : پیچھے سے ان کے وَ : اور عَنْ : سے اَيْمَانِهِمْ : ان کے دائیں وَ : اور عَنْ : سے شَمَآئِلِهِمْ : ان کے بائیں وَلَا تَجِدُ : اور تو نہ پائے گا اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر شٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے دائیں سے اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا (اور ان کی راہ ماروں گا) اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا
ثم لاتینہم من بین ایدیہم ومن خلفہم وعن ایمانہم وعن شمائلہم پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے سامنے سے بھی اور پیچھے سے بھی اور ان کے دائیں اور بائیں جانب سے بھی۔ دشمن کے آنے اور حملہ کرنے کی جہات چار ہی ہیں بطور تشبیہ ان ہی چہار جہات کا ذکر کیا۔ مطلب یہ ہے کہ جس طریقہ سے گمراہ کرنا اور بہکانا ممکن ہوگا میں بہکاؤں گا۔ اسی لئے جہت فوق و تحت کا ذکر نہیں کیا (کیونکہ دشمن کا حملہ عموماً مذکورہ چار جہات سے ہی ہوتا ہے) بعض علماء نے کہا کہ جہت فوق کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ اوپر سے رحمت آتی ہے اور جہت تحت کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ نیچے سے آنا باعث توحش ہے۔ آگے پیچھے کے ساتھ لفظ منذکر کیا جو ابتداء غایت کے لئے ہے اور ایمان و شمائل کے ساتھ لفظ عنذکر کیا کیونکہ عنکا معنی ہے تجاوز کرنا یعنی دائیں بائیں ہٹنا۔ بغوی نے علی ؓ بن طلحہ کی روایت سے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ من بین ایدیہم سے مراد ہے من قبل الاخرۃ یعنی آخرت کے معاملہ میں ان کو شک میں ڈال دوں گا اور من خلفہم سے مراد ہے من دنیاہم یعنی دنیا کی رغبت دلاؤں گا اور عن ایمانہم سے مراد ہے امر دین یعنی امر دین کو مشتبہ بنا دوں گا اور عن شمائلہم سے مراد ہیں گناہ یعنی گناہوں کی طرف راغب کر دوں گا عطیہ کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کا تفسیری قول اس طرح آیا ہے من بین ایدیہم دنیا کی طرف سے یعنی دنیا کو ان کے دلوں میں رچا دوں گا۔ من خلفہم آخرت کی طرف سے یعنی ان سے کہوں گا کہ نہ جنت ہے نہ دوزخ نہ کبھی حشر ہوگا۔ عن ایمانہم نیکیوں کی طرف سے عن شمائلہم۔ بدیون کی طرف سے قتادہ کا قول بھی یہی ہے کہ اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اے انسان ابلیس ہر طرف سے تیرے پاس پہنچا مگر اوپر سے نہیں پہنچا کیونکہ اس میں یہ سکت نہیں کہ اللہ کی رحمت اور تیرے درمیان حائل ہو سکے۔ کذا ذکر السیوطی قول ابن عباس ؓ ۔ مجاہد نے من بین ایدیہم وعن ایمانہم کی تشریح میں کہا یعنی ادھر سے آؤں گا جدھر وہ دیکھتے ہوں گے اور من خلفہم و عن شمائلہم کی تشریح میں کہا یعنی اس طرف سے آؤں گا جہاں وہ نہیں دیکھتے ہوں گے۔ ابن جریح نے مجاہد کے قول کی تشریح میں کہا دیکھتے ہوں اور نہیں دیکھتے ہوں گے یعنی دانستہ خطا کرتے ہوں گے یا نادانستہ۔ ولا تجداکثرہم شکرین اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار یعنی مؤمن نہیں پائے گا۔ ابلیس نے یہ بات اپنے ظن کے اعتبار سے کہی تھی (اس کو علم غیب نہ تھا) کیونکہ دوسری آیت میں آیا ہے۔ (ولقد صدق علیہم ابلیس ظنہ فاتبعوہ الا فریقا) (اس آیت میں صراحت ہے کہ ابلیس نے اپنے ظن کو انسانوں کے متعلق صحیح پایا چناچہ ایک خاص گروہ کو چھوڑ کر اکثر نے شیطان کی پیروی کی)
Top