Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 17
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَاٰتِيَنَّهُمْ : میں ضرور ان تک آؤں گا مِّنْ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَ : اور مِنْ خَلْفِهِمْ : پیچھے سے ان کے وَ : اور عَنْ : سے اَيْمَانِهِمْ : ان کے دائیں وَ : اور عَنْ : سے شَمَآئِلِهِمْ : ان کے بائیں وَلَا تَجِدُ : اور تو نہ پائے گا اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر شٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا۔ (اور ان کی راہ ماروں گا) تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہیں پائیگا۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کے زمانہ میں شیطان نے اللہ تعالیٰ سے یہ ایک ظنی بات کہی تھی کہ ہر طرح سے میں بنی آدم کو بہکاؤں گا جب اس نے اپنا گمان سچا کر دکھایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت کے زمانہ میں اس کے ظن کی تصدیق آیت (لقد صدق علیہم ابلیس ظنہ (34: 2) سے فرمائی علی بن ابی طلحہ کی صحیح روایت میں امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے شاکرین کی تفسیر موحدین فرمائی ہے جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اگرچہ انسان کو انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور پیدا کرنے کے بعد انسان کو نجات عقبے کے راستہ پر لانے کے لئے آسمانی کتابیں نازل فرمائی ‘ رسول بھیجے مگر شیطان کے بہکاوے میں آن کر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو بھول گئے کوئی بتوں کو اللہ کی عبادت میں شریک کرتا ہے کوئی ستاروں کو غرض صحیح طریق سے اللہ کی عبادت کرنے والے بہت کم لوگ سر زمین پر نظر آتے ہیں مسند امام احمد اور نسائی وغیرہ کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی صحیح حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے ایک خط کھینچ کر اس کو نجات کا راستہ فرمایا ہے اور اس خطبہ کے دائیں بائیں بہت خط کھینچ کر یہ فرمایا ہے کہ ان سب راستوں میں طرح طرح کے شیطانی بہکاوے ہیں یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ نجات کا راستہ ایک ہے اور اس پر چلنے والا بھی ایک ہی گروہ ہے شیطانی راستے بھی بہت سے ہیں اور ان پر چلنے والے بھی بہت سے گروہ ہیں یہی مطلب ولا تجد اکثر ھم شاکرین کا ہے :
Top