Ahkam-ul-Quran - Al-A'raaf : 3
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
اِتَّبِعُوْا : پیروی کرو تم مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف (تم پر) مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَا تَتَّبِعُوْا : اور پیچھے نہ لگو مِنْ : سے دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اَوْلِيَآءَ : رفیق (جمع) قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت قبول کرتے ہو
(لوگو ! ) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور رفیقوں کی کی پیروی نہ کرو۔ (اور) تم (کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔
پیروی قرآن قول باری ہے اتبعواماانزل الیکم من ربکم۔ لوگوں جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو) اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندوں کے تمام تصرفات کا دائرہ اللہ کے حکم کی مراد تک محدود ہو یعنی اس کے حکم کی جو مراد ہو اس کے بندے اس کے مطابق عمل کریں۔ یہ اہتمام یعنی اقتداء کی نظیر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکم کی مراد کی اتباع اور اس پر عمل میں اس کی اس طرح اقتداء کی جائے کہ وہ اس کے دائرہ تدبیر سے خارج نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیا مباح پر عمل کرنے والا اللہ کے حکم کا متبع ہوتا ہے ؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا شخص اس وقت اللہ کے حکم کا متبع ہوتا ہے جب وہ اللہ کے حکم کی اتباع کا بایں معنی ارادہ کرے کہ وہ اس فعل کی اباحت کا اعتقاد بھی رکھتا ہو اگرچہ اس فعل کو بروئے کار لانا اس سے مطلوب نہیں ہوتا لیکن جو شخص واجب کو ادا کرتا ہے تو وہ وجوہ کی بنا پر وہ اتباع اور پیروی کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ اول یہ کہ وہ اس کے وجوب کا اعتقاد رکھتا ہے۔ دوم یہ کہ وہ اس فعل کو اس طرح بروئے کار لاتا ہے جس طرح اسے حکم دیا جاتا ہے۔ جب اعتقاد کرنے کے لحاظ سے فعل مباح فعل واجب کے مماثل ہوگیا کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے اندر ایک چیز کی اباحت یا ایجاب کے لحاظ سے جو ترتیب اور نظام ہو اس کا اعتقاد کرنا ضروری ہوتا ہے تو قول باری اتبعواما انزل الیکم) کا مباح اور واجب دونوں پر مشتمل ہونا درست ہوگیا۔ درج بالا قول باری ہر احلت میں قرآن کی اتباع کے وجوب کی دلیل ہے۔ خبر واحد بمقابلہ قرآن نیز یہ کہ خبر آحاد کے ذریعے قرآن کے احکام کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے کہ قرآن کی اتباع کا حکم نص تنزیل کے ذریعے ثابت ہوگیا جبکہ خبر واحد کو قبول کرلینے کا حکم نص تنزیل کے ذریعے ثابت نہیں ہوا اس لئے پہلے حکم کا ترک درست نہیں ہوگا اس لئے کہ قرآن کی اتباع کا لزوم ایسے طریقے سے ثابت ہوگیا جو علم کا موجب ہے جبکہ خبر واحد عمل کا موجب ہے اس لئے قرآن کے حکم کو چھوڑنا درست نہیں ہوگا اور خبر واحد کے ذریعے قرآن کے حکم کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔ یہ بات ہمارے اصحاب کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اخبار آحاد کی صورت میں خلاف قرآن کوئی بات نقل کرے گا اس کا قول قبول نہیں ہوگا۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ماجاء کم منی ناعرضوہ علی کتاب اللہ فما وافق کتاب اللہ فھوعنی وما خالف کتاب اللہ فلیس عنی۔ میری طرف سے روایت کے ذریعے جو بات تم تک پہنچے اسے کتاب اللہ پر پیش کرو یعنی کتاب اللہ کی روشنی میں اسے جانچو، اس کے بعد جو بات کتاب اللہ کے مطابق ہو اسے تو میری طرف سے سمجھ لو اور جو کتاب اللہ کے خلاف ہوا سے میری بات نہ سمجھو) ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ باتیں ہیں جو اخبار آحاد کی صورت میں حضور ﷺ سے منقول ہوئی ہیں۔ خبر متواتر ناسخ قرآن ہوسکتی ہے لیکن اگر کوئی بات خبر متواتر کے ذریعے حضور ﷺ سے منقول ہو تو اس کی بنا پر قرآن کے حکم کی تخصیص بلکہ نسخ بھی درست ہے ارشاد باری ہے مااتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا۔ رسول جو حکم تمہیں دیں اسے قبول کرلو اور جس بات سے تمہیں روکیں اس سے رک جائو) اس لئے جس حکم کے بارے میں ہمیں یہ یقین ہو کہ یہ حضور ﷺ کا فرمان ہے تو ایجاب حکم کے لحاظ سے اس کی حیثیت قرآن کے حکم کی طرح ہوتی ہے اس لئے اس کے ذریعے قرآن کے حکم کی تخصیص بلکہ اس کا نسخ بھی جائز ہوتا ہے۔
Top