Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 3
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
اِتَّبِعُوْا : پیروی کرو تم مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف (تم پر) مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَا تَتَّبِعُوْا : اور پیچھے نہ لگو مِنْ : سے دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اَوْلِيَآءَ : رفیق (جمع) قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت قبول کرتے ہو
لوگو ! جو چیز تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے ماسوا سرپرستوں کی پیروی نہ کرو بہت کم تم لوگ یاد دہانی حاصل کرتے ہو۔
ارشاد فرمایا : اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ ۔ (الاعراف : 3) (لوگو ! جو چیز تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے ماسوا سرپرستوں کی پیروی نہ کرو بہت کم تم لوگ یاد دہانی حاصل کرتے ہو) مشرکینِ قریش کو عذاب کی دھمکی اس آیت کریمہ میں بعض اہل علم کا خیال ہے کہ خطاب مسلمانوں سے ہے لیکن سیاق کلام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خطاب مسلمانوں سے نہیں بلکہ قریش مکہ سے ہے آنحضرت ﷺ کو تسلی دینے کے بعد براہ راست پروردگار قریش مکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرما ہے ہیں کہ تم نے اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے اب تک جو کچھ کیا وہ تمہارے نامہ عمل کو سیاہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اب تم پر عذاب کا کوڑا برسنا شروع ہوجائے لیکن آخری وارننگ کے طور پر تمہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ جو کچھ تمہاری طرف نازل کیا جا رہا ہے اس کی پیروی کرو ‘ اسی میں تمہاری زندگی اور بقا ہے اور جن کو تم نے اللہ کے شریک بنا رکھا ہے ان کی پیروی مت کرو یہ خیالی اولیاء اور اصنام تمہارے کسی کام نہیں آسکتے۔ وہ نہیں جانتے تمہاری زندگی کی ضروریات کیا ہیں۔ وہ جس طرح تمہیں پیدا کرنے پر قادر نہیں اسی طرح تمہیں رزق بھی نہیں دے سکتے تمہاری زندگی کے الجھے ہوئے مسائل میں ان کے پاس تمہارے لیے کوئی حل نہیں وہ خیالی اور مصنوعی قوتیں ہیں وہ تمہیں زندگی میں کیا رہنمائی دے سکتی ہیں۔ رہنمائی تو وہ دے سکتا ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور جس نے تمہاری فطرت تخلیق فرمائی ہے جو تمہاری انفرادی اور اجتماعی ضرورتوں کو جانتا ہے جس کا علم بےپناہ ہے اور جس کی حکمت بےحد وسیع ہے جو تمہارے احساسات اور انفعالات کے ایک ایک گوشے سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تمہارے احساسات سے لے کر تمہارے اعمال تک ہر چیز کی تعمیر کس چیز سے ممکن ہے اس لیے اگر چاہتے ہو کہ تمہارے گھر تمہیں آسودگی دیں اور تمہارا معاشرہ انسانوں کا معاشرہ بن جائے اور تمہارے سماج میں ہمدردی اور غمگساری کے پھول کھلیں اور تمہاری اجتماعیت مضبوط بنیادوں پر اٹھے اور اس کا در و بست مضبوط آداب کے ساتھ باندھا جائے۔ تمہارے حکمران فی الواقع تمہارے لیے چرواہے ثابت ہوں اور تمہارا ایک ایک فرد ایک دوسرے کے لیے توانائی کا باعث ہو تو پھر اللہ کے رسول پر ایمان لائو اور ان مصنوعی اولیاء سے اپنا تعلق توڑو اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو۔ اس کے بعد باانداز حسرت و افسوس فرمایا ہے قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ کہ تم ایسے بدنصیب لوگ ہو کہ تم پر آسمان سے رحمت کی صورت ہدایت اتر رہی ہے۔ ایک ایسا پیغام تم پر نازل کیا جا رہا ہے جس کی ایک ایک بات تمہارے لیے زندگی بخش ہے۔ تمہاری طرف ایک ایسا رسول بھیجا گیا ہے جس کی دیانت و امانت اور پاکیزہ زندگی کے تم خود گواہ ہو اور ایک ایسی کتاب تم پر اتاری جارہی ہے جس کا ایک ایک بول اپنے اندر معجزانہ شان رکھتا ہے اور جس کی فصاحت و بلاغت نے تمہارے بڑے بڑے فصحاء کی زبانیں بند کردی ہیں اور جس کا ہر لفظ تاثیر میں ڈوبا ہو ادلوں میں اترتا جا رہا ہے اس کے باوجود تم اگر ایمان نہیں لائے تو اس کے سوا کیا کہا جائے کہ تم نہایت بدنصیب لوگ ہو کہ ایسی یاددہانی اور ایسی نصیحت بھی تم پر اثر انداز نہیں ہو رہی اور کس قدر کم ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس نصیحت سے اثر قبول کیا ہے ورنہ تمہاری اکثریت تو ایسے پتھروں پر مشتمل ہے جن پر نہ شبنم اثر کرتی ہے نہ بارش اثر انداز ہوتی ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں اس دعوت اور اس تنبیہ پر کان نہ دھرنے کے نتیجے میں جو قیامت برپا ہوسکتی ہے اس کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔
Top