Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 3
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
اِتَّبِعُوْا : پیروی کرو تم مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف (تم پر) مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَا تَتَّبِعُوْا : اور پیچھے نہ لگو مِنْ : سے دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اَوْلِيَآءَ : رفیق (جمع) قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت قبول کرتے ہو
لوگو، جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے ربّ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔۔۔4 مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو
سورة الْاَعْرَاف 4 یہ اس سورة کا مرکزی مضمون ہے۔ اصل دعوت جو اس خطبہ میں دی گئی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت و رہنمائی کی ضرورت ہے، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض وغایت سمجھنے کے لیے جو علم اسے درکار ہے، اور اپنے اخلاق، تہذیب، معاشرہ اور تمدّن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے، ان سب کے لیے اسے صرف اللہ رب العالمٰین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے اور صرف اسی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا اور اپنے آپ کو اس کی رہنمائی کے حوالے کردینا انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔ یہاں ”اولیاء“ (سر پرستوں) کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے کہ انسان جس کی رہنمائی پر چلتا ہے اسے درحقیقت اپنا ولی و سرپرست بناتا ہے خواہ زبان سے اس کی حمد و ثنا کے گیت گاتا ہو یا اس پر لعنت کی بوچھاڑ کرتا ہو، خواہ اس کی سر پرستی کا معترف ہو یا بہ شدّت اس سے انکار کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشوریٰ ، حاشیہ 6)
Top