Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠ ۧ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں ہے
الْمُؤْمِنُوْنَ
: مومن (جمع)
لِيَنْفِرُوْا
: کہ وہ کوچ کریں
كَآفَّةً
: سب کے سب
فَلَوْ
: بس کیوں
لَا نَفَرَ
: نہ کوچ کرے
مِنْ
: سے
كُلِّ فِرْقَةٍ
: ہر گروہ
مِّنْھُمْ
: ان سے۔ ا ن کی
طَآئِفَةٌ
: ایک جماعت
لِّيَتَفَقَّهُوْا
: تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں
فِي الدِّيْنِ
: دین میں
وَلِيُنْذِرُوْا
: اور تاکہ وہ ڈر سنائیں
قَوْمَھُمْ
: اپنی قوم
اِذَا
: جب
رَجَعُوْٓا
: وہ لوٹیں
اِلَيْهِمْ
: ان کی طرف
لَعَلَّھُمْ
: تاکہ وہ (عجب نہیں)
يَحْذَرُوْنَ
: بچتے رہیں
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین (کا علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے۔
دینی علم حاصل کرنا ضروری ہے قول باری ہے وما کان المومنون لینفروا گا فۃ فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے ، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آئے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس آیت نے قول باری انفروا اثبات او انفروا جمعیا ً پھر الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلویا اکٹھے ہو کر کو منسوخ کردیا ہے نیز قول باری انفروا اخفا فاً و ثقا لا ً نکل پڑو ہلکے اور بوجھل بھی اس آیت کی بنا پر منسوخ ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں فرمادیا کہ اہل ایمان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب فوجی مہمات میں نکل پڑیں اور حضور ﷺ کو مدینہ میں تنہا چھوڑ جائیں بلکہ ہونایہ چاہیے کہ مدینہ میں کچھ لوگ دین کی سمجھ پیدا کرنے کے لیے رہ جائیں اور جب مجاذ پر جانے والے لوگ واپس آئیں تو یہ لوگ انہیں دین کی باتیں سنا کر اللہ کی ذت سے ڈرائیں ۔ حسن کا قول ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آبادی کے ہر حصے سے لوگ نکل کر آئیں اور دین کی سمجھ پیدا کریں پھر اپنی اپنی قوم کی طرف واپس جا کر پیچھے رہ جانیوالے لوگوں کو دین کی باتیں بتا کر ان کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کریں ۔ یہ تاویل ظاہر آیت سے زیادہ مشابہ ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھم ! فی الدین ظاہر کلام اس امر کا مقتضی ہے کہ نکل کر آنے والے لوگوں کا گروہ ہی دین کی سمجھ پیدا کر کے واپس جا کر اپنے اپنے لوگوں کو دین کی باتیں سنا کر اللہ کے عذاب سے ڈرائے ۔ پہلی تاویل کی بنا پر وہ لوگ دین کی سمجھ پیدا کریں جن میں سے ایک گروہ محاذ پر آگیا ہو اور بعد میں یہی لوگ محاذ پر جانے والے لووں کو ان کی واپسی پر دین کی باتیں بتائیں۔ یہ تاویل دو وجوہ سے بعید ہے۔ اول یہ کہ عطف کا قاعدہ یہ ہے کہ اس کا تعلق اپنے متصل لفظ کے ساتھ ہوتا ہے اس سے پہلے آنے والے لفظ کے ساتھ نہیں ہوتا اس بنا پر قول باری منھم طائفۃ لیتفقھوا میں یہ ضروری ہے کہ طائفہ سے مراد وہ گروہ ہو جو دین کی سمجھ پیدا کرے اور دین کی باتیں بتا کر اللہ کی ذات سے ڈرانے کا کام کرے۔ اس فقرے کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ ہر ایسے گروہ میں سے جو دین کی سمجھ پیدا کرے ایک طائفہ محاذ کی طرف نکل جائے۔ اس لیے کہ یہ مفہوم کلام کی ترتیب کو اس کے ظاہر سے ہٹادینے کا مقتضی ہے نیز اس سے کلام میں ت قدیم و تاخیر کا اثبات بھی لازم آتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری لیتفقھوا فی الدین کو سامنے رکھتے ہوئے آیت میں دار و لفظ طائفہ دین کی سمجھ پیدا کرنے کے کام کے لیے آیت کے لفظ فرقہ سے زیادہ موزوں ہے جس سے پھر ایک طائفہ محاذ پر جانے کے لیے نکلنے والا ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کی سمجھ پیدا کرنے کے لیے ایک طائفہ کا نکلنا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اس مقصد کے لیے باہرنکلا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ فرقہ جس میں سے ایک طائفہ محاذ کی طرف نکل گیا ہو، دین میں اس لیے سمجھ نہیں پیدا کرتا تا کہ اس کا ایک گروہ نکل کر میدان جنگ میں چلا گیا ہے، اس لیے کہ اس فرقہ کو تفقہ فی الدین تو حضور ﷺ کے مشاہدہ اور آپ کی صحبت میں مسلسل رہنے کی بنا پر حاصل ہوجاتا ہے۔ انہیں تفقہ فی الدین اس لیے حاصل نہیں ہوتا کہ انکا ایک طائفہ محاذ پر چلا گیا ہے۔ اس لیے کلام کو اس معنی پر محمول کرنے سے قول باری لیتفقھوا فی الدین کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو لوگ دین کی سمجھ حاصل کرنیوالے ہیں ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو آبادیوں میں مقیم لوگوں میں سے نکل کر آتے ہیں اور پھر اپنی اپنی آبادی اور قوم میں واپس جا کر لوگوں کو دین کی باتیں بتا کر اللہ کی ذات سے ڈراتے ہیں۔ اس آیت میں علم دین کی طلب کے وجوب پر دلالت موجود ہے نیز یہ کہ اس کی طلب فرض کفایہ ہے اس لیے کہ آیت اس مفہوم کو متمضن ہے کہ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لیے آبادی میں ایک گروہ کو باہر نکلنے کا حکم دیا گیا جبکہ باقی ماندہ آبادی کو اپنی جگہ ٹھہرنے رہنے کا امر کیا گیا ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے وما کان المومنون لینفروا گا فۃ زیاد بن میمون نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ۔ علم یعنی علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ یہ روایت ہمارے نزدیک دو معنوں پر محمول ہے اول یہ کہ ایک مسلمان کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں جن مسائل اور دینی امور سے سابقہ رہتا ہے۔ انکے متعلق علم حاصل کرنا اس پر فرض ہے ، مثلاً ایک مسلمان کو اگر نماز کے ارکان و شرائط نیز اوقات کا علم نہ ہو تو اس پر ان باتوں کا سیکھنا فرض ہوگا ۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان دو سو درہم کا مالک ہوجائے تو اس پر عائد ہونے والی زکوٰۃ کا علم حاصل کرنا فرض ہوگا ۔ یہی حکم روزہ ، حج اور دیگر تمام فرائض کا ہے۔ روایت کا دوسرا مفہم یہ ہے کہ ہر مسلمان پر علم دین حاصل کرنا فر ض ہے لیکن یہ فرض کفایہ ہے کہ اگر آبادی میں سے چند لو اس کام کے لیے مختص ہوجائیں تو باقی ماندہ لوگوں سے یہ فریضہ ساقط ہوجائے گا ۔ آیت زیر بحث کی اس بات پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ ایسے دینی معاملات میں جن کا تعلق تمام لوگوں سے نہیں ہوتا ورنہ ہی تمام لوگوں کو ان کی ضرورت پیش آتی ہے خبر واحد کے ذریعہ حکم کا لزوم ہوجاتا ہے وہ اس طرح کہ جب ایک گروہ کو انداز پر مامور کرکے اسے لوگوں کو خدا کی ذات سے ڈراتے رہنے کا پابند کردیا گیا ہے تو اس کا مفہوم ہماری درج بالا بات پر دو وجوہ سے دلالت کرے ایک تو یہ کہ انداز یعنی ڈراتے رہنام اس فعل پر عمل کا مقتضی ہے جسے کرنے کا حکم ملا ہو، بصورت دیگر انداز کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا کہ انداز پر مامور گروہ سے زبان سے دین کی باتیں سن کر ہمارے دلوں میں خوف خدا پیدا ہوجائے اور ہم غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کرنے لگ جائیں اس لیے کہ قول باری لعلھم یحذرون تا کہ وہ غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کرتے کے معنی لیحذزوراتا کہ وہ پرہیز کرتے اور یہ مفہوم خبر واحد کی بنا پر لزوم عمل کے معنی کو متمضن ہے اس لیے طائفہ کا اسم ایک فرد پر بھی واقع ہوتا ہے۔ خبر واحد پر عمل لازم ہے چنانچہ قول باری ولیشھد عذابھا طائفۃ من المومنین اور ان دونوں کی سزا کو اہل ایمان کا ایک طائفہ اپنی آنکھوں سے دیکھے کی تفسیر میں ایک روایت کے مطابق ایک فرد مراد ہے۔ نیز قول باری ہے وان طائفتان من المومنین اقتلوا اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ باہم قتل و قتال پر اتر آئیں ۔ اگر دو مسلمان بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑائی پر اتر آئیں تو وہ بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہوں گے اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے لغت میں طائفہ کا لفظ بعض اور قطعہ کے الفاظ کی طرح ہے اور یہ مفہوم ایک فرد کے اندر بھی موجود ہوتا ہے۔ اس بنا پر قول باری من کل فرقۃ منھم طائفۃ کی مفہوم کے لحاظ سے وہی حیثیت ہے جو حیثیت اس صورت میں ہوتی جب آیت بعضھما یا شی منھا کے الفاظ پر مشتمل ہوتی ۔ اس لیے خبر واحد جس میں علم کو واجب کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی ، اسے قبول کرلینے کے وجوب پر آیت کی دلالت بالکل واضح ہے۔ اگر آیت کی وہ تاویل اختیار کی جائے جو حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ باہر جانے والا گروہ وہ دراصل وہ گروہ ہے جو مدینہ منورہ سے نکل کھڑا ہو اور دین میں سمجھ پیدا کرنے والا گروہ وہ ہے جو حضور ﷺ کے پاس رہ جائے تو اس صورت میں بھی خبر واحد کو قبول کرلینے کے لزوم پر آیت کی دلالت بحالہ قائم رہتی ہے۔ اس لیے کہ محاذ جنگ پر جانے کے لیے نکل کھڑا ہونے والا گروہ جب واپس آئے گا تو پیچھے رہ جانے والا گروہ اسے دین کی باتیں بتا کر اور نازل ہونے والے احکام کی خبردے کر اللہ کی ذات سے ڈرائے گا ۔ یہ چیز بھی مدینہ میں حضور ﷺ کی ذات اقدس کی موجودگی کے باوجود وہاں خبر واحد کو قبول کرلینے کے لزوم پر دلالت آتی ہے اس لیے کہ آیت کے سامعین پر یہ بات لازم کردی گئی ہے کہ مدینہ میں رہ کر دین کی سمجھ پیدا کرنے والوں کی زبان سے باتیں سن کر ان پر غیر مسلمانہ روش سے پرہیز واجب ہے۔ قول باری ہے یایھا الذین امنواقاتلوا الذین یلونکم منالکفار ولیحد وافیکم غلظۃ ۔ اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! جنگ کرو ان منکرین حق سے جو تمہارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کافروں سے جنگ کو خاص کردیا جو مسلمانوں کے آس پاس ہوں جب کہ سورت کی ابتداء میں فرمایا فاقتلوا المشرکین حیث و جدتموھم مشرکین کو جہاں کہیں پائو قتل کر دو ۔ نیز ایک اور مقام پر ارشاد ہوا وقاتلوا المشرکین گا فۃ اور تمام مشرکین کے خلاف جنگ کرو ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں سے جنگ کو واجب کردیا لیکن خصوصیت کے ساتھ صرف ان کافروں کا ذکر کیا جو ہمارے آس پاس ہوں ، کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ تمام کافروں سے بیک وقت لڑنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ صرف کسی ایک گروہ کے خلاف جنگ کرنا ممکن ہے۔ اس بنا پر جو کافر ہم سے قریب ہوں ان کیخلاف جنگی کارروائی کرنا ان کافروں کی بہ نسبت زیادہ موزوں ہوگا جو ہم سے دور ہوں اس لیے کہ اگر ہم قریب کے کافروں سے پنجہ آزمائی ترک کر کے دور کے کافروں کے ساتھ نبر د آزماء میں مشغول ہوجائیں تو اس سے قریب کے کافروں کو مسلمانوں کے بال بچوں پر حملہ کرنے نیز دارالاسلام میں گھس آنے کا موقع مل جائے گا کیونکہ اس صورت میں گھرکا محاذ مجاہدین سے خالی ہوگا جس سے کافر پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ اسی بنا پر آس پاس اور قریب وجوار کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اس میں ایک پہلو بھی ہے کہ ابعد یعنی دور کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کا مکلف بنانا درست نہیں ہے اس لیے کہ ابعد کی کوئی حد نہیں ہے جہاں سے قتال کی ابتداء کی جاسکے۔ اس کے برعکس اقرب یعنی قرب جواز اور آس پاس کی حد ہوتی ہے ، نیز دور کے کافروں کے خلاف جنگی کارروائی اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب قریب کے کافروں کے خلاجنگ کر کے ان پر غلبہ حاصل کرلیا جائے اور انہیں پوری طرح دیا جائے ۔ درج بالا وجوہ قرب و جوا ر اور آس پاس کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کی تخصیص کے حکم کے مقتضی ہیں ۔ قول باری ولیجد وافیکم غلظۃ میں ان کافروں کے ساتھ ہمیں سختی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جنکے خلاف ہمیں جنگ کرنے کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس سختی کا اظہار ہمارے قول ، انکے ساتھ ہمارے مذاکرات اور پیغامات کے اندر ہونا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں ہماری ہیبت بیٹھ جائے گی ۔ انکے اذہان پر ہمارا رغب قائم ہوجائے گا اور انہیں ہماری طاقت و قوت کا احساس ہوجائے گا۔ دوسری طرف اس سختی کی وجہ سے دین کے بارے میں ہماری بصیرت اور مشرکین کے ساتھ پنجہ آزمائی میں ہمارے جوش و خروش کا اظہار ہوجائے گا اور یہ واضح ہوجائے گا کہ ہم دین کے معاملہ میں کس قدر سختیاں ہیں ۔ اسکے برعکس اگر مسلمانوں کی طرف سے گفتگو اور مذاکرات میں نرم رویہ کا اظہار ہوگا تو اس سے کافروں کے دلوں میں ان کے خلاف جرأت پیدا ہوگی اور وہ انہیں زک پہنچانے کی آس لگا بیٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف جس طرز عمل کو اپنانے کا حکم دیا ہے اس کے یہ حدود ہیں۔
Top