Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
اور یہ ممکن نہ تھا کہ سب کے سب مسلمان نکل کھڑے ہوں پس کیوں نہ ایسا کیا گیا کہ ان کے ہر گروہ وہ میں سے ایک جماعت نکل آئی ہوتی کہ دین میں دانش و فہم پیدا کرتی ور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) وہ اپنے گروہ میں واپس جاتی تو لوگوں کو ہوشیار کرتی تاکہ وہ بچیں
آئندہ کے لئے مسلمانوں کو ہدایت کہ وہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں : 157: غزوہ تبوک کی ضرورت خاص تھی اس کے بعد آئندہ کے لئے مسلمانوں کو مستقل ہدایت دی جارہی ہے کہ سارے مسلمان شہر خالی کر کے ہرگز یکبارگی نہ نکل کھڑے ہوا کریں بلکہ ہر ایک گروہ اور خاندان میں سے کچھ لوگ نکلیں اور کچھ لوگ شہر میں رہ جائیں جو پچھلے انتظامات کو چلاتے رہیں اور ایک آدمی اپنی ذنہ داری کا احساس کرے مطلب یہ ہے کہ ایک حصہ جہاد میں مصروف ہو اور دوسرا حصہ عام ملکی اور شہری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شہر اور ملک ہی میں رہے اس طرح گویا ہدایت دی گئی کہ آئندہ ملٹری ڈیپارٹمنٹ اور سول ڈیپارٹمنٹ کو علیحدہ علیحدہ کردیا جائے اور انہی لوگوں میں سے کچھ لوگ تعلیم وتعلیم کے لئے الگ کردیئے جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ بدوی قبائل میں نسبتاً احخام دین سے بیخبر ی زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ یہ لوگ تعلیم و تربیت سے محروم رہتے ہیں اس لئے اب تعلیم کا ایک عام نظام قائم کرنا چاہئے اور ساری باتوں کا خیال ضروری ہے ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ تمام مسلمان گھر بار چھوڑ کر تحصیل علم کے لئے نکل کھڑے ہوں پس ایسا کرنا چاہئے کہ ہر ایک بستی اور ہر گروہ سے کچھ لوگ اس کام کے لئے بھی وقف ہوجائیں وہ تعلیم و تربیت کے مرکز میں رہ کر دین میں بصیرت پیدا کریں اور پھر اپنی آبادیوں میں جا کر دوسروں کو تعلیم دیں۔ قرآن کریم کے یہ ارشادات ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں اول روز ہی سرے تحصیل علم کا عام ولولہ پیدا کردیا تھا حتیٰ کہ انہوں نے ایک صدی کے اندر ہی اندر ایک ایسا عالمگیر نظام قائم کردیا جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اس وقت دنیا کے اندر جتنی ترقیاں ہوچکی ہیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی مسلم کا ہاتھ کام کرتا نظر آئے گا ، لیکن افسوس کہ آج ہم نے اپنے آباء کے وہ کارہائے نمایاں جو انہوں نے سرانجام دیئے تھے ان کو یکسر بھول چکے ہیں اور غیروں پر ہماری نظریں جمی ہوئی ہیں جو قوم مسلم کے مرہون منت اس عروج تک پہنچے ہیں۔ اس چیز کا اس وقت جتنا ماتم کیا جائے اتنا ہی کم ہے لیکن ایسی باتوں کا یہ موقع نہیں اور ہمارے ان اشاروں پر بھی فتویٰ کفر ہے۔ اس جگہ بات دراصل ان مجاہدین کی تھی جو باہر دور دراز جگہوں پر جنگ میں مصروف رہتے تھے فرمایا وہ لوگ بھی جب جہاد سے واپس آئیں تو ان کی تعلیم و تربیت کا بندو بست ہونا نہایت ضروری ہے ” تاکہ وہ محتاط رہیں “ ہر بدی اور بدکاری سے اور اس طرح ساری قوم میں نیک کرداری کا دور دورہ رہے اس ایک ہی جملہ نے کتنا کام کردیا غور کرو کہ آض مہذب و شائستہ قوموں کی فوجیں ہر قسم کے اخلاق کی جن ناگفتہ بہ پستیوں تک پہنچ چکی ہیں اس کا حال کسی سے مخفی ہے ؟ امت اسلامی کو اس قسم کے تمام خطرات سے مستقل نجات میں رکھنا دین کے مہمات امور میں سے ہے۔ قرآن کریم کی مستقل ہدایت ہے کہ مجاہدین اور غیر مجاہدین کو برابر علم دین و دنیا سے بہرہ مند رکھنا نہایت ضروری ہے اور ضرورت کے مطابق تفتہ فی الدین ہر انسان کے لئے لازم و فرض قرار دیا گیا ہے اسی طرح بدکرداری سے منع کرنا اور نیک کرداروں کو پھیلانا بھی اہم فرائض اسلامی سے ہے اس میں کوتاہی کا نتیجہ بڑا ہی خطرناک ہوتا ہے نیز قوم کے دو گروہ گروہ علماء اور گروہ سیاسی راہنما کوتاہی کے لئے پوری قوم کے سامنے بھی جواب دب ہیں اور وہ عنداللہ بھی مجرم ہیں لیکن اس وقت دونوں ہی گروہ اس سے بےنیاز نظر آتے ہیں۔
Top