Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠ ۧ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں ہے
الْمُؤْمِنُوْنَ
: مومن (جمع)
لِيَنْفِرُوْا
: کہ وہ کوچ کریں
كَآفَّةً
: سب کے سب
فَلَوْ
: بس کیوں
لَا نَفَرَ
: نہ کوچ کرے
مِنْ
: سے
كُلِّ فِرْقَةٍ
: ہر گروہ
مِّنْھُمْ
: ان سے۔ ا ن کی
طَآئِفَةٌ
: ایک جماعت
لِّيَتَفَقَّهُوْا
: تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں
فِي الدِّيْنِ
: دین میں
وَلِيُنْذِرُوْا
: اور تاکہ وہ ڈر سنائیں
قَوْمَھُمْ
: اپنی قوم
اِذَا
: جب
رَجَعُوْٓا
: وہ لوٹیں
اِلَيْهِمْ
: ان کی طرف
لَعَلَّھُمْ
: تاکہ وہ (عجب نہیں)
يَحْذَرُوْنَ
: بچتے رہیں
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین (کا علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے۔
آیت نمبر :
122
۔ اس آیت میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وما کان المؤمنون “۔ بات یہ ہے کہ جہاد فرض عین نہیں ہے بلکہ فرض کفایہ ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے (لہذا یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے کے سارے مومن نکل کھڑے ہوں) کیونکہ اگر تمام نکل پڑیں تو ان کے پیچھے اہل و عیال ضائع ہوجائیں، ہلاک ہوجائیں، پس چاہیے کہ ان میں سے ایک فریق جہاد کے لیے نکلے اور ایک فریق مقیم رہے تاکہ وہ دین میں تفقہ حاصل کریں اور وہ حرام کی ہوئی اشیاء کو خوب یاد کریں، یہاں تک کہ جب جہاد پر جانے والے لوٹ کو آئیں تو مقیم رہنے والے انہیں وہ بتائیں جو احکام شرع میں سے انہوں نے سیکھیں ہیں اور وہ جن کا نزول حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ پر تازہ ہوا ہے، اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کے قول الا تنفروا اور اس سے پہلی آیت کے لیے ناسخ ہے، یہ حضرت مجاہد (رح) اور ابن زید (رح) کے قول کی بناء پر ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) یہ آیت طلب علم کے واجب ہونے میں اصل ہے، کیونکہ اس کا معنی ہے اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ سارے کے سارے مومن نکل کھڑے ہوں اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ مقیم رہیں اور آپ نہ نکلیں پس وہ آپ ﷺ کو اکیلا چھوڑ دیں۔ (آیت) ” فلولا نفر “۔ یہ جاننے کے بعد کہ تمام کے نکلنے کی وسعت نہیں ہے پھر کیوں نہ نکلے۔ (آیت) ” من کل فرقۃ منھم طآئفۃ “۔ ہر قبیلہ سے چند آدمی، اور ان کے باقی ماندہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ باقی رہیں تاکہ وہ آپ سے دین کا علم حاصل کریں اور اس میں تفقہ حاصل کریں، پھر جب جہاد پر جانے والے ان کی طرف لوٹ کر آئیں تو یہ انہیں وہ سب بتائیں جو انہوں نے سنا اور جس کا علم حاصل کیا، اس میں کتاب وسنت میں تفقہ کے واجب ہونے کا ذکر ہے، اور یہ کہ یہ کفایہ ہے عین نہیں ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی دلالت کرتا ہے : (آیت) ” فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “۔ (النحل) (پس دریافت کرلو اہل علم سے اگر تم خود نہیں جانتے) پس اس میں ہر وہ داخل ہے جو کتاب وسنت کو نہیں جانتا۔ مسئلہ نمبر : (
3
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فلولا نفرا “۔ اخفش نے کہا ہے : یہ فھلا نفر کے معنی میں ہے پس کیوں نہ نکلے۔ (آیت) ” من کل فرقۃ منھم طآئفۃ “۔ لغت میں طائفہ سے مراد جماعت ہے اور کبھی اس کا اطلاق اس سے کم پر ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ آدمیوں تک پہنچ جاتا ہے اور ایک کے لیے اس کا اطلاق نفس طائفۃ کے معنی میں ہوتا ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے کہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” ان نعف عن طآئفۃ منکم نعذب طآئفۃ “۔ (التوبہ :
66
) میں طائفہ سے مراد ایک آدمی ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں مراد جماعت ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں، ان میں سے ایک عقلی وجہ ہے اور دوسری لغوی، عقلی یہ ہے کہ امر غالب یہ ہے کہ فرد واحد کے ساتھ علم حاصل نہیں ہوتا، اور رہی لغوی وجہ تو قول باری تعالیٰ : (آیت) ” لیتفقوا فی الدین ولینذروا قومھم “۔ جمع کی ضمیر کے ساتھ مذکور ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : قاضی ابوبکر (رح) اور ان سے پہلے شیخ ابو الحسن کی رائے ہے کہ یہاں طائفہ سے مراد واحد (ایک) ہے اور اس میں وہ اس دلیل سے قوت حاصل کرتے ہیں کہ خبر واحد پر عمل کرنا واجب ہے، اور یہ صحیح ہے اس جہت سے نہیں کہ طائفہ کا اطلاق واحد پر ہوتا ہے بلکہ اس جہت سے کہ ایک شخص یا کئی اشخاص کی خبر خبر واحد ہے (
1
) احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ :
1031
) اور یہ کہ خبر واحد کے مقابل خبر متواتر ہے جو غیر محصور ہوتی ہے۔ میں مفسر کہتا ہوں : کیا ایسی نص ہے جس سے اس پر استدلال کیا جاسکتا ہو کہ واحد کو طائفہ کہا جاسکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وان طآئفتن من المؤمنین اقتتلوا “۔ (الحجرات :
9
) یعنی نفسین (دو نفس) اگر مومنین میں سے دو آدمی لڑ پڑیں۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فاصلحوا بین اخویکم “۔ (الحجرات :
10
) (پس صلح کرا دو اپنے دو بھائیوں کے درمیان) پس یہ لفظ تثنیہ کے ساتھ مذکو رہ ہے، اور اقتتلوا میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے، پس اور جمع کا اقل فرد دو ہے یہ علماء کے دو قولوں میں سے ایک کے مطابق ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لیتفقھوا “۔ ” لیتفقھوا “۔ اور لینذروا میں ضمیر حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ مقیم رہنے والوں کے لیے ہے۔ یہ حضرت قتادہ (رح) اور حضرت مجاہد ؓ کا قول ہے، اور حسن نے کہا ہے : یہ دونوں ضمیریں جہاد پر نکلنے والے گروہ کے لیے ہیں، علامہ طبری نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔ اور (آیت) ” لیتفقھوا فی الدین “۔ کا معنی ہے تاکہ وہ بصیرت اور یقین حاصل کریں اس کے ساتھ جو اللہ کریم انہیں مشرکوں پر غلبے اور نصرت دین میں سے دکھائے۔ (آیت) ” ولینذروا قومھم “۔ اور تاکہ وہ کفار میں سے اپنی قوم کو ڈرائیں۔ (آیت) ” اذا رجعوا الیھم “۔ جب وہ ان کی طرف جہاد سے لوٹ کر آئیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی اس مددونصرت کے بارے انہیں مطلع کریں جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اور مومنین کی فرمائی، اور یہ کہ ان کے لیے ان کے ساتھ قتال کرنے اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ قتال کرنے کی طاقت نہیں ہے، پس وہ ان پر وہ کچھ نازل کرتا ہے جو اس نے ان کافر ساتھیون پر نازل نہیں کیا۔ میں مفسر کہتا ہوں : حضرت مجاہد (رح) اور حضرت قتادہ (رح) کا قول زیادہ بین اور واضح ہے یعنی تاکہ وہ طائفہ تفقہ حاصل کرے تو سرایا میں کوچ کرنے سے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ پیچھے رہا۔ اور یہ علم کی طلب پر ابھارنے اور اس کے مندوب ہونے کا (متقاضی ہے) نہ کہ وجوب اور لازم ہونے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ کلام کی قوت میں نہیں ہے، بلاشبہ علم کو اس کے ادلہ کے ساتھ طلب کرنا لازم ہے، یہ ابوبکر بن عربی نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) علم کی طلب، دو قسموں میں منقسم ہوتی ہے : فرض عین، مثلا نماز روزہ اور زکوۃ۔ میں مفسر کہتا ہوں : اس معنی میں حدیث طیبہ موجود ہے : ” بیشک علم طلب کرنا فرض ہے “۔ عبدالقدوس بن حبیب نے روایت کیا ہے۔ ابو سعید الوحاظی نے حمادبن ابی سلیمان سے اور انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے “۔ (
1
) (سنن ابن ماجہ للمقدم باب فضل العلماء جلد
1
، صفحہ
20
) ابراہیم نے کہا : میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سوائے اس حدیث کے اور کوئی نہیں سنی۔ علم طلب کرنا فرض کفایہ ہے، جیسے حقوق حاصل کرنا، حدود قائم کرنا اور جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرنا وغیرہ جب یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام لوگ اسے سیکھیں کیونکہ اس سے ان کے احوال اور ان کے سرایا کہ احوال فاسد اور ضائع ہوجائیں گے اور ان کے معاملات معاش میں نقصان ہوگا یا وہ باطل ہوجائیں گے پس دونوں حالوں کے درمیان متعین یہ ہوا کہ بغیر کسی تعیین کے بعض اس فریضہ کو ادا کریں اور یہ اس اعتبار سے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے بندوں کے لیے آسمان فرما دے اور اسے ان کے درمیان اپنی رحمت اور حکمت سے سابقہ قدرت اور کلام کے ساتھ تقسیم فرما دے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) علم کی طلب عظیم فضیلت ہے اور ایک شریف اور عالی شان مرتبہ ہے کوئی عمل اس کے مساوی نہیں ہے، ترمذی (رح) نے حضرت ابوالدرداء ؓ کی حدیث روایت کی ہے، انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جو بندہ کسی راستے پر چلا وہ اس میں علم تلاش کرنے لگا تو اس کے سبب اللہ تعالیٰ نے اسے جنت کے راستے پر گامزن کردیا اور بلاشبہ ملائکہ طالب علم کی خوشنودی اور رضا کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور بیشک عالم کے لیے زمین و آسمان میں رہنے والے استغفار کرتے ہیں اور پانی میں رہنے والی مچھلیاں بھی اور بیشک عالم کی فضیلت عابد پر اسی طرح ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے، اور بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بیشک انبیاء (علیہم السلام) نے بطور میراث دینار و درہم نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے علم کو میراث قرار دیا ہے پس جس نے اسے حاصل کیا تو اس نے حظ وافر حاصل کرلیا “۔ (
2
) (جامع ترمذی، کتاب العلم، جلد
2
، صفحہ
93
) اور دارمی ابو محمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے کہ ہمیں ابو المغیرہ نے بیان کیا (انہوں نے کہا) ہمیں امام اوزاعی (رح) نے حسن سے بیان کیا ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے دو آدمیوں کے بارے میں پوچھا گیا وہ دونوں بنی اسرائیل میں سے تھے، ان میں سے ایک عالم تھا وہ فرض نماز پڑھتا پھر بیٹھ جاتا اور لوگوں کو خیر اور نیکی کی تعلیم دیتا، اور دوسرا دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا، ان دونوں میں سے کون افضل ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اس عالم کی فضیلت جو فرض نماز پڑھتا ہے پھر بیٹھ جاتا ہے اور لوگوں کو خیر اور نیکی کی تعلیم دیتا ہے اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام کرتا ہے اس طرح ہے جیسے تم میں سے ادنی پر مجھے فضیلت حاصل ہے “ (
3
) (سنن دارمی، کتاب العلم جلد
1
، صفحہ
82
۔ جامع ترمذی، کتاب العلم، حدیث نمبر
2609
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابو عمر نے کتاب (بیان العلم) میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مسند ذکر کیا ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” عالم کی فضیلت عابد پر اسی طرح ہے جیسے میری فضیلت میری امت پر ہے “ (
4
) (جامع ترمذی، کتاب العلم، جلد
2
، صفحہ
93
) اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : افضل جہاد اس کا ہے جس نے مسجد بنائی اور اس میں قرآن، فقہ اور سنت کی تعلیم دیتا ہو، (افضل الجھاد من بنی مسجد یعلم فیہ القرآن والفقہ والسنۃ) اسے شریک نے لیث بن ابی سلیم سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اور انہوں نے علی ازدی سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : میں نے جہاد کا ارادہ کیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے فرمایا : کیا میں تیری اس پر رہنمائی نہ کروں جو تیرے لیے جہاد سے بہتر ہے ؟ تو مسجد میں آ اور اس میں قرآن کریم پڑھا اور اس میں فقہ کی تعلیم دے۔ اور ربیع نے کہا ہے میں نے حضرت امام شافعی (رح) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : علم حاصل کرنا نفلی نماز پڑھنے سے زیادہ واجب اور بہتر ہے۔ اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ” بیشک فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں “ (
1
) (جامع ترمذی، کتاب العلم، جلد
2
، صفحہ
93
) یہ حدیث دو وجہوں کا احتمال رکھتی ہے، ایک یہ ہے کہ وہ اس پر مہربان اور شفیق ہوتے ہیں اور اس پر رحم فرماتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر فرمایا ہے جہاں اس نے اولاد کو والدین کے ساتھ احسان کرنے کی نصیحت کی ہے فرمایا : (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ “۔ (الاسراء :
24
) (اور جھکادو ان کے لیے تواضع اور انکسار کے پر رحمت (و محبت) سے) یعنی ان دونوں کے ساتھ تواضع سے پیش آ۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پر رکھنے سے مراد انہیں بچھانا ہو، کیونکہ بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں : وان الملائکۃ تفرش اجنحتھا یعنی بیشک ملائکہ جب کسی طالب علم کو دیکھیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لیے اسے حاصل کر رہا ہے اور اس کے تمام احوال طلب علم کے موافق ہوں تو وہ اس کے لیے اس کے سفر میں اپنے بچھا دیتے ہیں اور اسے ان پر اٹھا لیتے ہیں۔ پس جو وہاں محفوظ ہوجاتا ہے تو وہ ننگے پاؤں نہیں رہتا اگر وہ چلتا ہے اور نہ وہ تھکتا ہے اور اس کے لیے دور کا راستہ قریب ہوجاتا ہے اور مختلف انواع کا ضرر اور تکلیف جو کسی اور مسافر کو پہنچتی ہے وہ اسے نہیں پہنچتی جیسا کہ مرض، مال کا ضائع ہوجانا اور راستے سے بھٹک جانا، اور ان میں سے کچھ چیزیں سورة آل عمران میں قول باری تعالیٰ : (آیت) ” شھد اللہ “۔ الآیہ (آل عمران :
18
) کے تحت گزر چکی ہیں۔ عمران بن حصین نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” میری امت سے ایک گروہ مسلسل حق پر قائم اور ثابت رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی “ (
2
) (صحیح مسلم، کتاب الامارہ جلد
2
، صفحہ
143
) یزید بن ہارون نے کہا ہے : اگر وہ اصحاب الحدیث ہیں تو پھر میں نہیں جانتا وہ کون ہیں ؟ میں مفسر کہتا ہوں : آیت کی تاویل میں یہ عبدالرزاق کا قول ہے، بیشک وہ اصحاب حدیث ہی ہیں، اسے ثعلبی نے ذکر کیا ہے، میں نے سنا ہے کہ ہمارے شیخ الاستاذ المقری النحوی المحدث ابو جعفر احمد بن محمد بن محمد القیسی القرطبی المعروف بابن ابی حجۃ (رح) حضور ﷺ کے اس ارشاد کی تاویل میں کہتے ہیں : لا یزال اھل الغرب ظاھرین علی الحق حتی تقوم الساعۃ (
3
) (صحیح مسلم، کتاب الامارہ جلد
2
، صفحہ
144
) (اہل غرب حق پر غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے) کہ بلاشبہ وہ علماء ہیں، انہوں نے کہا : وہ اس لیے کہ الغرب لفظ مشترک ہے اس کا اطلاق بڑے ڈول پر بھی کیا جاتا ہے اور سورج کے غروب ہونے کی سمت پر بھی اور اس کا اطلاق آنسو بہنے پر بھی کیا جاتا ہے، پس لایزال اھل الغرب کا معنی یہ ہے اللہ تعالیٰ کے خوف سے آنسو بہانے والے اس کا اور اس کے احکام کا علم رکھنے کے سبب ہمیشہ غالب رہیں گے، الحدیث اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “۔ (فاطر :
28
) (اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی (پوری طرح) اس سے ڈرتے ہیں) میں مفسر کہتا ہوں : اس تاویل کو حضور ﷺ کا وہ ارشاد جو صحیح مسلم میں ہے تقویت دیتا ہے : ” جس کے بارے اللہ تعالیٰ خیر اور بہتری کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں فقاہت عطا فرماتا ہے اور مسلمانوں کی ایک جماعت حق پر قتال کرتی رہے گی یوم قیامت تک ان پر غالب آتے ہوئے جو ان سے لڑئے “ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الامارہ جلد
2
، صفحہ
144
) اس بیان کا ظاہر یہ ہے کہ اس کا اول اس کے آخر کے ساتھ مربوط ہے۔ واللہ اعلم۔
Top