Al-Qurtubi - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین (کا علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے۔
آیت نمبر : 122۔ اس آیت میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وما کان المؤمنون “۔ بات یہ ہے کہ جہاد فرض عین نہیں ہے بلکہ فرض کفایہ ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے (لہذا یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے کے سارے مومن نکل کھڑے ہوں) کیونکہ اگر تمام نکل پڑیں تو ان کے پیچھے اہل و عیال ضائع ہوجائیں، ہلاک ہوجائیں، پس چاہیے کہ ان میں سے ایک فریق جہاد کے لیے نکلے اور ایک فریق مقیم رہے تاکہ وہ دین میں تفقہ حاصل کریں اور وہ حرام کی ہوئی اشیاء کو خوب یاد کریں، یہاں تک کہ جب جہاد پر جانے والے لوٹ کو آئیں تو مقیم رہنے والے انہیں وہ بتائیں جو احکام شرع میں سے انہوں نے سیکھیں ہیں اور وہ جن کا نزول حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ پر تازہ ہوا ہے، اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کے قول الا تنفروا اور اس سے پہلی آیت کے لیے ناسخ ہے، یہ حضرت مجاہد (رح) اور ابن زید (رح) کے قول کی بناء پر ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) یہ آیت طلب علم کے واجب ہونے میں اصل ہے، کیونکہ اس کا معنی ہے اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ سارے کے سارے مومن نکل کھڑے ہوں اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ مقیم رہیں اور آپ نہ نکلیں پس وہ آپ ﷺ کو اکیلا چھوڑ دیں۔ (آیت) ” فلولا نفر “۔ یہ جاننے کے بعد کہ تمام کے نکلنے کی وسعت نہیں ہے پھر کیوں نہ نکلے۔ (آیت) ” من کل فرقۃ منھم طآئفۃ “۔ ہر قبیلہ سے چند آدمی، اور ان کے باقی ماندہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ باقی رہیں تاکہ وہ آپ سے دین کا علم حاصل کریں اور اس میں تفقہ حاصل کریں، پھر جب جہاد پر جانے والے ان کی طرف لوٹ کر آئیں تو یہ انہیں وہ سب بتائیں جو انہوں نے سنا اور جس کا علم حاصل کیا، اس میں کتاب وسنت میں تفقہ کے واجب ہونے کا ذکر ہے، اور یہ کہ یہ کفایہ ہے عین نہیں ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی دلالت کرتا ہے : (آیت) ” فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “۔ (النحل) (پس دریافت کرلو اہل علم سے اگر تم خود نہیں جانتے) پس اس میں ہر وہ داخل ہے جو کتاب وسنت کو نہیں جانتا۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فلولا نفرا “۔ اخفش نے کہا ہے : یہ فھلا نفر کے معنی میں ہے پس کیوں نہ نکلے۔ (آیت) ” من کل فرقۃ منھم طآئفۃ “۔ لغت میں طائفہ سے مراد جماعت ہے اور کبھی اس کا اطلاق اس سے کم پر ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ آدمیوں تک پہنچ جاتا ہے اور ایک کے لیے اس کا اطلاق نفس طائفۃ کے معنی میں ہوتا ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے کہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” ان نعف عن طآئفۃ منکم نعذب طآئفۃ “۔ (التوبہ : 66) میں طائفہ سے مراد ایک آدمی ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں مراد جماعت ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں، ان میں سے ایک عقلی وجہ ہے اور دوسری لغوی، عقلی یہ ہے کہ امر غالب یہ ہے کہ فرد واحد کے ساتھ علم حاصل نہیں ہوتا، اور رہی لغوی وجہ تو قول باری تعالیٰ : (آیت) ” لیتفقوا فی الدین ولینذروا قومھم “۔ جمع کی ضمیر کے ساتھ مذکور ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : قاضی ابوبکر (رح) اور ان سے پہلے شیخ ابو الحسن کی رائے ہے کہ یہاں طائفہ سے مراد واحد (ایک) ہے اور اس میں وہ اس دلیل سے قوت حاصل کرتے ہیں کہ خبر واحد پر عمل کرنا واجب ہے، اور یہ صحیح ہے اس جہت سے نہیں کہ طائفہ کا اطلاق واحد پر ہوتا ہے بلکہ اس جہت سے کہ ایک شخص یا کئی اشخاص کی خبر خبر واحد ہے (1) احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ : 1031) اور یہ کہ خبر واحد کے مقابل خبر متواتر ہے جو غیر محصور ہوتی ہے۔ میں مفسر کہتا ہوں : کیا ایسی نص ہے جس سے اس پر استدلال کیا جاسکتا ہو کہ واحد کو طائفہ کہا جاسکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وان طآئفتن من المؤمنین اقتتلوا “۔ (الحجرات : 9) یعنی نفسین (دو نفس) اگر مومنین میں سے دو آدمی لڑ پڑیں۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فاصلحوا بین اخویکم “۔ (الحجرات : 10) (پس صلح کرا دو اپنے دو بھائیوں کے درمیان) پس یہ لفظ تثنیہ کے ساتھ مذکو رہ ہے، اور اقتتلوا میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے، پس اور جمع کا اقل فرد دو ہے یہ علماء کے دو قولوں میں سے ایک کے مطابق ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لیتفقھوا “۔ ” لیتفقھوا “۔ اور لینذروا میں ضمیر حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ مقیم رہنے والوں کے لیے ہے۔ یہ حضرت قتادہ (رح) اور حضرت مجاہد ؓ کا قول ہے، اور حسن نے کہا ہے : یہ دونوں ضمیریں جہاد پر نکلنے والے گروہ کے لیے ہیں، علامہ طبری نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔ اور (آیت) ” لیتفقھوا فی الدین “۔ کا معنی ہے تاکہ وہ بصیرت اور یقین حاصل کریں اس کے ساتھ جو اللہ کریم انہیں مشرکوں پر غلبے اور نصرت دین میں سے دکھائے۔ (آیت) ” ولینذروا قومھم “۔ اور تاکہ وہ کفار میں سے اپنی قوم کو ڈرائیں۔ (آیت) ” اذا رجعوا الیھم “۔ جب وہ ان کی طرف جہاد سے لوٹ کر آئیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی اس مددونصرت کے بارے انہیں مطلع کریں جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اور مومنین کی فرمائی، اور یہ کہ ان کے لیے ان کے ساتھ قتال کرنے اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ قتال کرنے کی طاقت نہیں ہے، پس وہ ان پر وہ کچھ نازل کرتا ہے جو اس نے ان کافر ساتھیون پر نازل نہیں کیا۔ میں مفسر کہتا ہوں : حضرت مجاہد (رح) اور حضرت قتادہ (رح) کا قول زیادہ بین اور واضح ہے یعنی تاکہ وہ طائفہ تفقہ حاصل کرے تو سرایا میں کوچ کرنے سے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ پیچھے رہا۔ اور یہ علم کی طلب پر ابھارنے اور اس کے مندوب ہونے کا (متقاضی ہے) نہ کہ وجوب اور لازم ہونے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ کلام کی قوت میں نہیں ہے، بلاشبہ علم کو اس کے ادلہ کے ساتھ طلب کرنا لازم ہے، یہ ابوبکر بن عربی نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) علم کی طلب، دو قسموں میں منقسم ہوتی ہے : فرض عین، مثلا نماز روزہ اور زکوۃ۔ میں مفسر کہتا ہوں : اس معنی میں حدیث طیبہ موجود ہے : ” بیشک علم طلب کرنا فرض ہے “۔ عبدالقدوس بن حبیب نے روایت کیا ہے۔ ابو سعید الوحاظی نے حمادبن ابی سلیمان سے اور انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے “۔ (1) (سنن ابن ماجہ للمقدم باب فضل العلماء جلد 1، صفحہ 20) ابراہیم نے کہا : میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سوائے اس حدیث کے اور کوئی نہیں سنی۔ علم طلب کرنا فرض کفایہ ہے، جیسے حقوق حاصل کرنا، حدود قائم کرنا اور جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرنا وغیرہ جب یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام لوگ اسے سیکھیں کیونکہ اس سے ان کے احوال اور ان کے سرایا کہ احوال فاسد اور ضائع ہوجائیں گے اور ان کے معاملات معاش میں نقصان ہوگا یا وہ باطل ہوجائیں گے پس دونوں حالوں کے درمیان متعین یہ ہوا کہ بغیر کسی تعیین کے بعض اس فریضہ کو ادا کریں اور یہ اس اعتبار سے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے بندوں کے لیے آسمان فرما دے اور اسے ان کے درمیان اپنی رحمت اور حکمت سے سابقہ قدرت اور کلام کے ساتھ تقسیم فرما دے۔ مسئلہ نمبر : (6) علم کی طلب عظیم فضیلت ہے اور ایک شریف اور عالی شان مرتبہ ہے کوئی عمل اس کے مساوی نہیں ہے، ترمذی (رح) نے حضرت ابوالدرداء ؓ کی حدیث روایت کی ہے، انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جو بندہ کسی راستے پر چلا وہ اس میں علم تلاش کرنے لگا تو اس کے سبب اللہ تعالیٰ نے اسے جنت کے راستے پر گامزن کردیا اور بلاشبہ ملائکہ طالب علم کی خوشنودی اور رضا کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور بیشک عالم کے لیے زمین و آسمان میں رہنے والے استغفار کرتے ہیں اور پانی میں رہنے والی مچھلیاں بھی اور بیشک عالم کی فضیلت عابد پر اسی طرح ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے، اور بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بیشک انبیاء (علیہم السلام) نے بطور میراث دینار و درہم نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے علم کو میراث قرار دیا ہے پس جس نے اسے حاصل کیا تو اس نے حظ وافر حاصل کرلیا “۔ (2) (جامع ترمذی، کتاب العلم، جلد 2، صفحہ 93) اور دارمی ابو محمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے کہ ہمیں ابو المغیرہ نے بیان کیا (انہوں نے کہا) ہمیں امام اوزاعی (رح) نے حسن سے بیان کیا ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے دو آدمیوں کے بارے میں پوچھا گیا وہ دونوں بنی اسرائیل میں سے تھے، ان میں سے ایک عالم تھا وہ فرض نماز پڑھتا پھر بیٹھ جاتا اور لوگوں کو خیر اور نیکی کی تعلیم دیتا، اور دوسرا دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا، ان دونوں میں سے کون افضل ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اس عالم کی فضیلت جو فرض نماز پڑھتا ہے پھر بیٹھ جاتا ہے اور لوگوں کو خیر اور نیکی کی تعلیم دیتا ہے اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام کرتا ہے اس طرح ہے جیسے تم میں سے ادنی پر مجھے فضیلت حاصل ہے “ (3) (سنن دارمی، کتاب العلم جلد 1، صفحہ 82۔ جامع ترمذی، کتاب العلم، حدیث نمبر 2609، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابو عمر نے کتاب (بیان العلم) میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مسند ذکر کیا ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” عالم کی فضیلت عابد پر اسی طرح ہے جیسے میری فضیلت میری امت پر ہے “ (4) (جامع ترمذی، کتاب العلم، جلد 2، صفحہ 93) اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : افضل جہاد اس کا ہے جس نے مسجد بنائی اور اس میں قرآن، فقہ اور سنت کی تعلیم دیتا ہو، (افضل الجھاد من بنی مسجد یعلم فیہ القرآن والفقہ والسنۃ) اسے شریک نے لیث بن ابی سلیم سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اور انہوں نے علی ازدی سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : میں نے جہاد کا ارادہ کیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے فرمایا : کیا میں تیری اس پر رہنمائی نہ کروں جو تیرے لیے جہاد سے بہتر ہے ؟ تو مسجد میں آ اور اس میں قرآن کریم پڑھا اور اس میں فقہ کی تعلیم دے۔ اور ربیع نے کہا ہے میں نے حضرت امام شافعی (رح) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : علم حاصل کرنا نفلی نماز پڑھنے سے زیادہ واجب اور بہتر ہے۔ اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ” بیشک فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں “ (1) (جامع ترمذی، کتاب العلم، جلد 2، صفحہ 93) یہ حدیث دو وجہوں کا احتمال رکھتی ہے، ایک یہ ہے کہ وہ اس پر مہربان اور شفیق ہوتے ہیں اور اس پر رحم فرماتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر فرمایا ہے جہاں اس نے اولاد کو والدین کے ساتھ احسان کرنے کی نصیحت کی ہے فرمایا : (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ “۔ (الاسراء : 24) (اور جھکادو ان کے لیے تواضع اور انکسار کے پر رحمت (و محبت) سے) یعنی ان دونوں کے ساتھ تواضع سے پیش آ۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پر رکھنے سے مراد انہیں بچھانا ہو، کیونکہ بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں : وان الملائکۃ تفرش اجنحتھا یعنی بیشک ملائکہ جب کسی طالب علم کو دیکھیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لیے اسے حاصل کر رہا ہے اور اس کے تمام احوال طلب علم کے موافق ہوں تو وہ اس کے لیے اس کے سفر میں اپنے بچھا دیتے ہیں اور اسے ان پر اٹھا لیتے ہیں۔ پس جو وہاں محفوظ ہوجاتا ہے تو وہ ننگے پاؤں نہیں رہتا اگر وہ چلتا ہے اور نہ وہ تھکتا ہے اور اس کے لیے دور کا راستہ قریب ہوجاتا ہے اور مختلف انواع کا ضرر اور تکلیف جو کسی اور مسافر کو پہنچتی ہے وہ اسے نہیں پہنچتی جیسا کہ مرض، مال کا ضائع ہوجانا اور راستے سے بھٹک جانا، اور ان میں سے کچھ چیزیں سورة آل عمران میں قول باری تعالیٰ : (آیت) ” شھد اللہ “۔ الآیہ (آل عمران : 18) کے تحت گزر چکی ہیں۔ عمران بن حصین نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” میری امت سے ایک گروہ مسلسل حق پر قائم اور ثابت رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی “ (2) (صحیح مسلم، کتاب الامارہ جلد 2، صفحہ 143) یزید بن ہارون نے کہا ہے : اگر وہ اصحاب الحدیث ہیں تو پھر میں نہیں جانتا وہ کون ہیں ؟ میں مفسر کہتا ہوں : آیت کی تاویل میں یہ عبدالرزاق کا قول ہے، بیشک وہ اصحاب حدیث ہی ہیں، اسے ثعلبی نے ذکر کیا ہے، میں نے سنا ہے کہ ہمارے شیخ الاستاذ المقری النحوی المحدث ابو جعفر احمد بن محمد بن محمد القیسی القرطبی المعروف بابن ابی حجۃ (رح) حضور ﷺ کے اس ارشاد کی تاویل میں کہتے ہیں : لا یزال اھل الغرب ظاھرین علی الحق حتی تقوم الساعۃ (3) (صحیح مسلم، کتاب الامارہ جلد 2، صفحہ 144) (اہل غرب حق پر غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے) کہ بلاشبہ وہ علماء ہیں، انہوں نے کہا : وہ اس لیے کہ الغرب لفظ مشترک ہے اس کا اطلاق بڑے ڈول پر بھی کیا جاتا ہے اور سورج کے غروب ہونے کی سمت پر بھی اور اس کا اطلاق آنسو بہنے پر بھی کیا جاتا ہے، پس لایزال اھل الغرب کا معنی یہ ہے اللہ تعالیٰ کے خوف سے آنسو بہانے والے اس کا اور اس کے احکام کا علم رکھنے کے سبب ہمیشہ غالب رہیں گے، الحدیث اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “۔ (فاطر : 28) (اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی (پوری طرح) اس سے ڈرتے ہیں) میں مفسر کہتا ہوں : اس تاویل کو حضور ﷺ کا وہ ارشاد جو صحیح مسلم میں ہے تقویت دیتا ہے : ” جس کے بارے اللہ تعالیٰ خیر اور بہتری کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں فقاہت عطا فرماتا ہے اور مسلمانوں کی ایک جماعت حق پر قتال کرتی رہے گی یوم قیامت تک ان پر غالب آتے ہوئے جو ان سے لڑئے “ (1) (صحیح مسلم، کتاب الامارہ جلد 2، صفحہ 144) اس بیان کا ظاہر یہ ہے کہ اس کا اول اس کے آخر کے ساتھ مربوط ہے۔ واللہ اعلم۔
Top