Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
اور مومنین کو یہ نہ چاہئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں، کیوں نہ نکلی چھوٹی جماعت ہر بڑی جماعت میں سے تاکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں۔ اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو ڈرائیں۔
جہاد اور تفقہ فی الدین میں مشغول رہنے کی اہمیت اور ضرورت دین اسلام کامل ہے، مکمل ہے، جامع ہے۔ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے اس میں اعتقادیات بھی ہیں اور عبادات بھی، اخلاق بھی ہیں اور آداب بھی، معاشرت کے طریقے بھی ہیں اور معاملات کے احکام بھی، بیاہ شادی بھی ہے اور اولاد کی پرورش بھی، مال کمانے کے جتنے طریقے ہیں ان کے احکام بھی بتائے ہیں۔ کفر کو مٹانے اور اہل کفر کو نیچا دکھانے کا اور اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے جہاد اور قتال بھی مشروع ہے اور یہ بھی دین کا ایک ضروری اور بہت اہم کام ہے۔ جسے حدیث شریف میں چوٹی کا عمل بتلایا ہے (ذروۃ سنامہ الجھاد) لیکن اگر سارے ہی افراد جہاد میں لگ جائیں تو تعلیم و تعلم کا کام کون کرے جس کے ذریعہ علم و اعمال زندہ رہتے ہیں۔ اور فضائل و مسائل کا پتہ چلتا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں کے احکام معلوم ہوتے ہیں۔ جہاد کی قسمیں : اس لیے عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں ہے۔ فرض عین اسی وقت ہوتا ہے جبکہ دشمن کسی علاقہ پر دھاوا بول دیں۔ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔ پس جہاد فرض کفایہ ہے اور دین کی دوسری ضروریات بھی ہیں۔ خصوصاً جبکہ علوم اسلامیہ کا جاننا، اور پہنچانا اور پھیلانا بھی لازم ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہر وقت جہاد کے لیے ہر ہر فرد نکل کھڑا ہو، اسی کو فرمایا (وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ) (الآیۃ) کہ اہل ایمان کو یہ نہ چاہئے کہ سب ہی نکل کھڑے ہوں ہاں ایسا ہو کہ جہاد میں بھی جاتے رہیں ہر بڑی جماعت میں سے چھوٹی جماعت جایا کرے۔ اور علوم میں مشغول رہنے والے بھی ہوں۔ جہاد میں جانے والے جہاد کو قائم رکھیں جس سے فرض کفایہ ادا ہوتا رہے۔ تفقیہ اور تفقہ کی ضرورت : جو لوگ جہاد میں نہ نکلیں وہ دینی سمجھ حاصل کریں۔ یعنی ایک جماعت علوم دینیہ پڑھانے والوں کی بھی رہے۔ جن کے ساتھ علوم دینیہ حاصل کرنے والے لگے رہیں اور سرسری علوم پر اکتفا نہ کریں۔ بلکہ فقہ فی الدین حاصل ہونا ضروری ہے۔ علوم کی وسعت بھی حاصل ہو اور علوم کی گہرائی میں اتریں، تاکہ اس قابل ہوجائیں کہ یہ سمجھ سکیں کہ کس آیت اور کس حدیث سے کیا ثابت ہوتا ہے اس کو (لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ ) سے تعبیر فرمایا جو لوگ جہاد میں نہیں گئے وہ وطن میں رہ کر علم دین حاصل کریں اور جو لوگ جہاد میں گئے وہ بھی واپس آکر علم حاصل کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ علم دین سے نابلد رہیں۔ اگر جاہل محض رہیں گے تو جہاد سے متعلقہ اعمال شرعیہ کی تعمیل نہ کرسکیں گے۔ جب یہ لوگ جہاد سے واپس آجائیں تو وہ جو حضرات علم کی تحصیل میں مشغول تھے ان واپس آنے والوں کو اللہ سے ڈرائیں یعنی دینی احکام سکھائیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانیوں سے بچتے رہیں۔ اسی کو فرمایا (لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ ) جہاد میں جانے والے نوبت بہ نوبت جایا کریں۔ ایک جماعت جہاد میں چلی گئی (جن کے پاس ضروری علم پہلے سے ہے) اور جب یہ جماعت واپس آجائے تو یہ علوم دینیہ میں مشغول ہوجائے اور دوسری جماعت چلی جائے۔ جب جہاد ہمیشہ ہی فرض کفایہ ہے اور علوم دینیہ کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہے اور مجاہدین کی خانگی حاجات اور ضروریات بھی ہیں تو ایسا کرنا ضروری ہوگا کہ فرض کفایہ کو قائم رکھنے کے لیے جماعت جہاد میں چلی جایا کرے اور ان کی واپسی پر بلکہ ان سے پہلے ہی دوسری جماعت جہاد کے لیے روانہ ہوجایا کرے۔ جو لوگ علوم میں مشغول تھے وہ مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر والوں کی خیر خبر رکھیں اور جب وہ واپس آجائیں تو ان کو احکام شرعیہ بنائیں، قرآن و حدیث کی تعلیم دیں۔ بطور فرض کفایہ امت مسلمہ کے ذمہ یہ بھی لازم ہے کہ علوم شرعیہ کو محفوظ رکھیں اور ان کو پڑھتے پڑھاتے رہیں۔ قرآن مجید کا محفوظ رکھنا (مطبوعہ مصاحف پر بھروسہ کر کے حفظ کو نہ چھوڑ دیا جائے) قرآن کی تفاسیر کو محفوظ رکھنا احادیث شریفہ اور ان سے متعلقہ علوم کو محفوظ رکھنا، قرآن مجید اور احادیث شریفہ سے جو احکام و مسائل مجتہدین نے مستنبط کیے ہیں ان کو محفوظ رکھنا بلکہ علوم عربیہ صرف ونحو، معانی وبیان اور عربی لغات کا باقی رکھنا بھی لازم ہے کیونکہ ان چیزوں پر قرآن و حدیث کا فہم موقوف ہے۔ اگر یہ چیزیں محفوظ نہ ہوں گی تو ملحدین اور زنادقہ اپنے پاس سے غلط ترجمے کریں گے اور قرآن و حدیث کے مفاہیم اور معانی بدل دیں گے۔ ہر شخص پر عقائد اسلامیہ کا جاننا اور ان کا عقیدہ رکھنا، نماز کے احکام و مسائل جاننا اور نماز کو سیکھنا اور یاد رکھنا، طہارت و نجاست کے مسائل جاننا، اور ان تمام احکام کا جاننا جن سے ہر شخص کو روزانہ واسطہ پڑتا ہے یہ فرض عین ہے۔ جو لوگ تجارت کرتے ہیں ان کو تجارت کے مسائل جاننا فرض عین ہے اسی طرح جو لوگ زراعت میں صنعت و حرفت میں ملازمت میں لگے ہوئے ہیں اپنے اپنے مشاغل اور مکاسب کے بارے میں احکام و مسائل سیکھیں جو ان پر فرض عین ہے تاکہ خلاف شرع طریقوں سے مال نہ کھائیں۔ محنت بھی کریں اور مال حرام ملے اور مال کمانے میں خلاف شرع امور کا ارتکاب کر کے گنہگار ہوں اس سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے اپنے کاروبار اور کام کاج کے بارے میں شریعت کے احکام معلوم کریں۔ جن کے پاس مال ہے وہ خصوصیت کے ساتھ وجوب زکوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ کے مسائل معلوم کریں۔ لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ غیر قوموں کی طرح اپنے کو آزاد سمجھتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں زندگی گزار لیتے ہیں نہ میاں بیوی کے حقوق کا پتہ، نہ اولاد کی تعلیم و تادیب کی خبر، نہ ماں باپ اور دیگر اقرباء کے حقوق کی ادائیگی کا فکر، نہ حلال کمانے کا دھیان۔ یہ طریقہ اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔ فقہ دینی سمجھ کا نام ہے عہد اول میں اس کا مفہوم بہت زیادہ عام تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے فقہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا معرفۃ النفس مالھا و ما علیھا کہ ہر شخص کا یہ پہچان لینا کہ میری ذمہ داری کیا ہے۔ میں دنیا اور آخرت میں کن کن چیزوں کا مسؤل ہوں اور وہ کیا کیا چیزیں ہیں جن کا انجام دینا میرے ذمے لازم ہے۔ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ان سب کو جانے اور جاننے کے مطابق عمل کرے۔ اس میں پورے دین کا سمجھنا اور اپنی جان پر نافذ کرنا آگیا۔ در حقیقت یہ فقہ کی بہت جامع تعریف ہے۔ اور (لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ ) کے مفہوم میں یہ سب احکام و مسائل آجاتے ہیں احکام و مسائل کا جو علم ہے اور جو امور روح قلب اور تزکیہ نفس سے متعلق ہیں فقہ ان سب کو شامل ہے۔ حضرت حسن سے کسی نے کچھ دریافت کیا انہوں نے کچھ جواب دے دیا، سائل نے کہا دوسرے فقہاء تو آپ کی مخالفت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا تم نے کوئی فقیہ دیکھا بھی ہے ؟ اس کے بعد فقیہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا انما الفقیہ الزاھد فی الدنیا، الراغب فی الاخرۃ، البصیر بدینہ المداوم علی عبادۃ ربہ الورع الکاف عن اعراض المسلمین العفیف عن اموالھم الناصح لجماعتھم۔ یعنی فقیہ وہ ہے جو دنیا سے بےرغبت ہو، مسلمانوں کی بےآبروئی کے درپے نہ رہتا ہو (یعنی ان کی غیبتیں نہ کرتا ہو۔ ان پر تہمت نہ دھرتا ہو) ان کے مالوں سے دور رہتا ہو، اور مسلمانوں کی جماعت کا خیر خواہ ہو۔ (روح المعانی ص 48 ج 11) تفقہ فی الدین بہت بڑی دولت ہے جس کو بھی حاصل ہوجائے وہ بڑا سعادت مند ہے۔ حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بہٖ خَیْرًا یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ کہ اللہ تعالیٰ جس کو خیر سے نواز نے کا ارادہ فرماتے ہیں اسے تفقہ فی الدین کی دولت عطا فرماتے ہیں۔ (صحیح بخاری ص 16 ج 1) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو دعا دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے بار گاہ الٰہی میں یوں عرض اللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ کہ اے اللہ اسے تفقہ فی الدین نصیب فرما، حضرت عمر ؓ نے فرمایا تفقھوا قبل اَن تُسَودوا یعنی اس سے پہلے فقیہ بن جاؤ کہ تم کو سرداری سپرد کی جائے یعنی نو عمری ہی سے فقہ میں لگنا چاہئے۔ (صحیح بخاری ص 17 ج 1) جو حضرات آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے غیر منصوص مسائل کا استنباط کرتے ہیں جیسے ائمہ اربعہ نے کیا یہ بھی تفقہ فی الدین ہے اور جو لوگ اصلاح قلوب اور تزکیہ نفوس کے شغل میں لگے ہوئے ہیں اور امت کی اصلاح کی اجتماعی اور انفرادی تدبیریں سوچتے رہتے ہیں وہ بھی تفقہ فی الدین میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ فقہ کا نام سنتے ہی کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں اور گو یا اس کو بد عت سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں اس کا حکم دیا ہے اور حدیث شریف میں اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے خیر سے نوازنا چاہیں اسے تفقہ فی الدین سے نواز دیتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ فقہ کی کیا ضرورت ؟ حدیث دیکھ کر عمل کرلیں گے۔ حالانکہ حدیث پر عمل کرنے کے لیے سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے ناسخ منسوخ دیکھنا پڑتا ہے ظاہری طور پر جو تعارض ہو اس کے رفع کرنے کے لیے تطبیق بین الاحادیث کی ضرورت ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ قال صاحب الدر المختار و اعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وھو بقدر ما یحتاج لدینہ و فرض کفایۃ و ھو ما زاد علیہ لنفع غیرہ و مندوبا و ھو التبحر فی الفقہ و علم القلب، و حرام و ھو علم الفلسفۃ و الشعبدۃ و التنجیم و الرمل و علوم الطبعیین و السحر و الکھانۃ ا ہ۔ قال الشامی فی حاشیۃ قولہ علم القلب أی علم الاخلاق و ھو علم یعرف بہ انواع الفضائل و کیفیۃ اکتسابھا و أنواع الرذائل و کیفیۃ اجتنابھا۔ (صاحب درمختار نے فرمایا ہے کہ جان لے ! ایک علم کا حاصل کرنا فرضی عین ہے اور وہ علم کی اتنی مقدار ہے جو دین پر عمل کے لیے ضروری ہو اور ایک علم فرض کفایہ ہے یہ وہ ہے جو اپنے عمل سے زائد ہو دوسرے سے نفع کے لیے اور ایک مندوب ہے اور یہ فقہ میں مہارت حاصل کرنا اور دلوں کا عمل ہے۔ اور ایک علم حرام ہے اور یہ فلسفہ، شعبدہ بازی، نجوم، رمل مادہ پرستی کا علم اور جادو وکہانت کا علم ہے۔ علامہ شامی نے حاشیہ میں کہا ہے علم دل سے مراد ہے علم اخلاق اور یہ وہ علم ہے جس سے فضائل کی اقسام اور ان کے حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے اور برائیوں کی اقسام اور ان سے بچنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے) ۔ (ردالمحتار ص 30 ج 1) فائدہ : لفظ لِیَتَفَقَّھُوْا بات تفعل سے ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ کلمہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فقہ تفقہ سے حاصل ہوگا یعنی اس میں تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ اور بغیر محنت اور کوشش کے حاصل نہ ہوگا۔ نیز صاحب روح المعانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ لِیُنْذِرُوْا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم دین پڑھانے والے کی غرض ارشاد اور انذار ہونی چاہئے یعنی امور خیر کی تعلیم دے اور گناہوں کی تفصیل بتائے اور ان سے بچنے کی تاکید کرے۔ اور متعلم کا مقصود بھی خوف و خشیت ہو، وہ علم حاصل کر کے شریعت پر چلنے کی نیت کرے اور خوف و خشیت کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنائے۔ دنیا حاصل کرنے اور بڑا بننے کی نیت سے علم نہ پڑھے۔ حضرت حسن بصری (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جسے اس حال میں موت آگئی کہ وہ اسلام کو زندہ کرنے کے لیے علم طلب کر رہا تھا تو اس کے اور نبیوں کے درمیان ایک ہی درجے کا فرق ہوگا۔ (رواہ الدارمی فی سننہ ص 85 ج 1) چونکہ لّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ کے بعد (وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ ) بھی فرمایا اس لیے اصحاب علم پر ضروری ہے کہ جو لوگ بھی علم دین حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچیں ان کی خیر خواہی، ہمدردی اور دلداری کریں۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ لوگ تمہارے تابع ہوں گے۔ (یہ حضرات صحابہ کو خطاب ہے) اور بہت سے لوگ تمہارے پاس زمین کے دور دراز گوشوں سے آئیں گے تاکہ وہ تفقہ فی الدین حاصل کریں۔ سو جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان سے اچھی طرح پیش آنا میں تمہیں اس کی وصیت کرتا ہوں۔ راوی حدیث حضرت ابو سعید خدری کا طریقہ تھا کہ جب کوئی طالب علم ان کے پاس پہنچتا تو فرماتے تھے مَرْحَباً بوصیۃ رسول اللہ ﷺ ۔ کہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں (رواہ الترمذی فی ابواب العلم) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کو اس طرح پاؤ گے جیسے (سونے چاندی کی) کانیں ہوتی ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر مختلف قسم کی قوت اور استعداد رکھی ہے) جاہلیت کے زمانہ میں جو لوگ (مکارم الاخلاق اور محاسن الاعمال کے اعتبار سے) بہتر تھے اسلام میں بھی وہ بہتر ہوں گے۔ جبکہ وہ فقیہ ہوجائیں (رواہ مسلم ص 307) جب اسلام میں داخل ہو کر فقیہ ہوں گے تو اپنی استعداد کو دینی سمجھ کے مطابق خرچ کریں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا فقید واحد اشد علی الشیطان من الف عابد یعنی ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے بھاری ہے۔ (رواہ الترمذی فی ابواب العلم) فقیہ کے بارے میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہزار عابدوں سے بہتر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص صرف عبادت گزار ہو شیطان کے مکرو فریب اور بہکانے کے طریقوں سے واقف نہیں ہوتا شیطان اسے آسانی سے ورغلا دیتا ہے اور جو شخص فقیہ ہو وہ شیطان کے داؤ گھات مکرو فریب اور بہکانے کے طریقوں کو جانتا پہچانتا ہے۔ وہ اپنے علم وفقہ کے ذریعہ خود بھی شیطان کے مکر و فریب مے محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات کو سنے اور یاد رکھے اور اسے دوسروں تک پہنچا دے۔ کیونکہ بہت سے حامل فقہ ایسے ہوتے ہیں جو خود فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے حامل فقہ ایسے ہوتے ہیں جو اس شخص کو پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 35) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احادیث شریفہ کے ظاہری الفاظ سے جو مسائل ثابت ہوتے ہیں ان کے علاوہ ان میں وہ مسائل بھی ہیں جن کی طرف ہر شخص کا ذہن نہیں پہنچتا، جن کو اللہ تعالیٰ نے فقہ کی دولت سے نوازا ہے وہ ان مسائل اور احکام کو سمجھتے ہیں، اور احادیث کی عبارات اور سیاق کلام، طرز بیان، وجوہ دلالت سے انہیں وہ چیزیں مل جاتی ہیں جو ان کو نہیں ملتیں جو فقہ سے عاری ہیں۔ اسی فقہ یعنی دینی سمجھ کو کام میں لانے کا نام استنباط ہے۔ یہ تو معلوم ہوگیا کہ دین اسلام میں تفقہ فی الدین کی بہت زیادہ اہمیت اور ضرورت ہے لیکن اس میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے ایک جماعت تو ایسی ہے جسے فقہ کے نام سے ہی چڑ ہے اور ساتھ ہی ان میں یہ غفلت ہے کہ احادیث شریفہ کی پوری کتابیں بھی نہیں پڑھتے پڑھاتے چند منتخب احادیث یاد کر کے فتوے دینے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ امام بخاری اور امام شافعی اور ہم میں کوئی فرق نہیں۔ اور ایک جماعت ایسی ہے جس نے اساتذہ سے قرآن پڑھا نہ حدیث پڑھی خود رو عالم ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی سمجھ سے دینی احکام بتانے اور فتوے دینے کا حق ہے ایسے لوگ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں یہ لوگ نہ عربی جانتے ہیں نہ صرف ونحو سے واقف ہیں۔ نہ وجوہ استنباط سے باخبر ہیں نہ فصاحت و بلاغت کی کتابیں پڑھیں نہ لغات پر حاوی ہیں۔ حروف اصلیہ اور حروف زائدہ کو بھی نہیں جانتے لیکن اپنی جاہلانہ سمجھ سے فتویٰ دینے کو تیار ہیں۔ اور ساتھ ہی یوں بھی کہتے ہیں کہ اجتہاد ختم نہیں ہوا اور اس بات کی لپیٹ میں وہ اپنے کو مجتہد قرار دینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اجتہاد کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ میں نے ان لوگوں کے لیے چند سوال رکھے ہیں۔ عزیز طلبہ سے ان لوگوں کا واسطہ پڑجائے تو ان سے دریافت کرلیں کہ لُمْتُنَّنِیْ کیا صیغہ ہے ؟ دونوں کے حروف اصلی بتائیں ؟ اور حروف محذوفہ اور زائد بیان فرمائیں ؟ اور یہ بتائیں کہ یَخِصِّمُوْنَ اور (اَمْ مَّنْ لَّا یَھِدِّیْ ) اور وادَّکَرَ کیا صیغہ ہے کس باب سے ہے اور یہ بھی واضح کریں کہ فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ اور فَلَا تُمَارِ فِیْھِمْ میں کتنے کلمات ہیں ؟ ان میں اسم، فعل حروف کیا کیا ہیں اور ساتھ ہی معرب و مبنی کی تعیین بھی کرتے چلیں ؟ اجتہاد، استنباط اور تفقہ کوئی حلوہ کا لقمہ نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے مجتہد اور فقیہ بن جائے۔ یہ ضروری باتیں دور حاضر کے بےپڑھے مجتہدوں سے امت کو محفوظ رکھنے کے لیے لکھی گئی ہیں۔ آیت بالا کی تفسیر جو اوپر لکھی گئی یہ اس بنیاد پر ہے کہ لِیَتَفَقَّھُوْا اور وَلِیُنْذِرُوْا کی ضمیر اس جماعت کی طرف راجع ہو جو جہاد کے لیے نکلنے والوں کے ساتھ نہ گئے اور گھروں میں رہ گئے اور ان کا یہ رہنا اس لیے ہے کہ علم دین حاصل کریں اور مجاہدین واپس ہوں تو ان کو علم سکھائیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ بہت سے حضرات نے لِیَتَفَقَّھُوْا اور وَلِیُنْذِرُوْا کی ضمیر ان لوگوں کی طرف راجع کی ہے جو گھروں کو چھوڑ کر باہر نکل گئے اس صورت میں باہر نکلنے والوں سے علم کے لیے سفر کرنے والے مراد ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح جہاد کے لیے جماعتیں جاتی ہیں اسی طرح طلب علم کے لیے بھی اہل ایمان باہر نکلیں اور باہر نکل کر علم حاصل کریں۔ پھر واپس ہو کر ان لوگوں کو دین سکھائیں اور اللہ سے ڈرائیں جو طلب علم کے لیے باہر نہ گئے تھے۔ یہ تفسیر سیاق کلام سے قریب تر ہے۔ صاحب روح المعانی نے یہ تفسیر لکھ کر لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض اصحاب دیہاتوں میں چلے گئے تھے۔ وہ وہاں کی چیزوں سے منتفع ہوئے اور ساتھ ہی لوگوں کی ہدایت کے کام میں مشغول رہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ تم تو ہمارے پاس آکر بس گئے اور اپنے ساتھیوں کو چھوڑ آئے یہ بات سن کر انہیں رنج ہوا اور دیہات چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس سے ان کی پریشانی دور ہوگئی کیونکہ جو علم حاصل کیا ہے دیہات میں رہ کر اس کا پھیلانا اور ہدایت دینے کی کوشش کرنا بھی ایمانی تقاضوں میں شامل ہے لِیَتَفَقَّھُوْا اور وَلِیُنْذِرُوْا کا مرجع جو بھی ہو اور ترجمہ اور تفسیر میں جو رخ بھی اختیار کیا جائے ہر حال میں آیت شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایک جماعت کا تفقہ فی الدین میں مشغول ہونا ضروری ہے۔ یہ لوگ خود علم دین حاصل کریں اور پھر اپنی قوم کو علمی باتیں بتائیں، اوامرو نواہی سے آگاہ کریں تاکہ قوم کے افراد گنہگاری سے بچ سکیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا دین اسلام میں بہت پھیلاؤ ہے۔ انسانوں کی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ اسلام کے تمام علوم کو محفوظ رکھنا فرض کفایہ ہے۔ یہ علوم قرآن کریم میں اور حادیث شریف میں کتب تفسیر میں شروح حدیث میں۔ فقہ کی کتابوں میں مدون ہیں۔ پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ پورے دین کو علماً و عملاً محفوظ رکھے۔ ان علوم کی تعلیم و تدریس ہوتی رہے۔ خود بھی پڑھیں۔ اپنی اولاد کو بھی پڑھائیں۔ اور تمام مسلمانوں کے لیے یہ مواقع فراہم کریں کہ ان علوم میں مشغول ہو سکیں۔ اس میں کتابیں لکھنا بھی ہے مدارس کا قیام بھی ہے اور مدارس کی امداد بھی ہے۔ بعض علاقوں میں کچھ لوگوں نے ایسے مدارس قائم کیے جن کے نصاب سے کتاب الجہاد اور کتاب العتاق وغیرہ کو یہ کہہ کر نکال دیا کہ ان پر عمل تو نہیں رہا لہٰذا ان کے پڑھانے کی ضرورت نہیں، یہ ان لوگوں کی نا دانی ہے۔ عمل ہو یا نہ ہو ہر حال میں پورے دین کو باقی رکھنا اور محفوظ رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر بعض علوم کو چھوڑ دیا اور بعض علوم کو نصاب سے خارج کردیا تو جب کبھی حالات پلٹا کھائیں گے اور ان چیزوں پر عمل کرنے کا موقعہ آجائے گا جن پر آج عمل کرنے کا موقعہ نہیں ہے تو اس وقت بھولے ہوئے احکام پر کیسے عمل ہوگا ؟ پھر یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جن احکام پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ یہ بھی تو امت ہی کا قصور ہے نہ جہاد چھوڑتے جو فرض کفایہ ہے نہ یہ دن دیکھنے میں آتے کہ احکام جہاد و احکام استرقاق کو نصاب سے خارج کرنے کا مشورہ کرتے۔
Top