Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
اور ایسے تو نہیں مسلمان کہ کوچ کریں سارے سو کیوں نہ نکلا ہر فرقہ میں سے ان کا ایک حصہ تاکہ سمجھ پیدا کریں دین میں اور تاکہ خبر پہنچائیں اپنی قوم کو جبکہ لوٹ کر آئیں ان کی طرف تاکہ وہ بچتے رہیں۔
خلاصہ تفسیر
اور (ہمیشہ کیلئے) مسلمانوں کو یہ (بھی) نہ چاہئے کہ (جہاد کے واسطے) سب کے سب (ہی) نکل کھڑے ہوں (کہ اس میں دوسری اسلامی ضروریات معطل ہوتی ہیں) سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر ہر بڑی جماعت میں سے ایک ایک چھوٹی جماعت (جہاد میں) جایا کرے (اور کچھ اپنے وطن میں رہ جایا کریں) تاکہ باقی ماندہ لوگ (رسول اللہ ﷺ کے وقت میں آپ سے اور آپ کے بعد علماء شہر سے) دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو (جو کہ جہاد میں گئے ہوئے ہیں) جبکہ وہ ان کے پاس آویں (دین کی باتیں سنا کر خدا کی نافرمانی سے) ڈراویں تاکہ وہ (ان سے دین کی باتیں سن کر برے کاموں سے) احتیاط رکھیں۔

معارف و مسائل
سورة توبہ میں بڑی اہمیت کے ساتھ غزوہ تبوک کا ذکر مسلسل چلا آیا ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نفیر عام کا اعلان کیا گیا تھا کہ سب مسلمان اس میں شریک ہوں، اس حکم کی خلاف ورزی بلا عذر صحیح جائز نہ تھی، جو لوگ خلاف ورزی میں مبتلا ہوئے ان میں زیادہ تو منافقین تھے جن کا ذکر بہت سی آیات میں اوپر آیا ہے، کچھ مخلص مومن بھی تھے جو وقتی کاہلی اور سستی کے سبب رہ گئے تھے، ان کی توبہ حق تعالیٰ نے قبول فرمالی، ان سب واقعات سے بظاہر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر جہاد اور غزوہ میں سب ہی مسلمانون کو نکلتا فرض اور تخلف حرام ہے، حالانکہ حکم شرعی یہ نہیں، بلکہ جہاد عام حالات میں فرض کفایہ ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں کی کچھ جماعت جو جہاد کے لئے کافی ہو جہاد میں مشغول رہے تو باقی مسلمان بھی فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، ہاں اگر جہاد میں شریک ہونے والی جماعت کافی نہ ہو وہ مغلوب ہونے لگے تو آس پاس کے مسلمانوں پر ان کی تقویت کیلئے نکلنا اور جہاد میں شریک ہونا فرض ہوجاتا ہے وہ بھی کافی نہ ہو تو ان کے قریب کے لوگوں پر اور وہ بھی کافی نہ ہوں تو ان کے متصل جو مسلمان ہیں ان پر یہاں تک کہ سارے عالم کے مسلمانوں کا امیر ضرورت سمجھ کر نفیر عام کرے اور سب مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دے، تو اس وقت بھی جہاد کی شرکت فرض اور تخلف حرام ہوجاتا ہے جیسا واقعہ غزوہ تبوک میں نفیر عام کی وجہ سے پیش آیا، مذکور الصدر آیت میں اسی حکم کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ غزوہ تبوک میں نفیر عام کی وجہ سے خصوصی حکم تھا، عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں کہ سب مسلمانوں پر جہاد میں جانا فرض ہو کیونکہ جہاد کی طرح اسلام اور مسلمانوں کے اجتماعی مسائل اور مہمات بھی ہیں جو جہاد ہی کی طرح فرض کفایہ ہیں ان کے لئے بھی مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کو تقسیم کار کے اصول پر کام کرنا ہے اس لئے سب مسلمانوں کو ہر جہاد میں نکلنا نہیں چاہئے، اسی مضمون سے فرض کفایہ کی حقیقت بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو کام شخصی نہیں اجتماعی ہیں اور سب مسلمانوں پر ان کے پورا کرنے کی ذمہ داری ہے ان کو شریعت میں فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے، تاکہ تقسیم کار کے اصول پر سب کام اپنی اپنی جگہ چلتے رہیں اور یہ اجتماعی فرائض سب ادا ہوتے رہیں، مسلمان مردوں پر نماز جنازہ اور اس کی تکفین مساجد کی تعمیر و نگرانی، جہاد، اسلامی سرحدوں کی حفاظت یہ سب اسی فرض کفایہ کے افراد ہیں کہ ان کی ذمہ داری تو پورے عالم کے مسلمانوں پر ہے مگر بقدر کفایت کچھ لوگ کرلیں تو دوسرے مسلمان بھی فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، اسی فرض کفایہ کے سلسلہ کا ایک اہم کام دینی تعلیم ہے اس آیت میں خصوصیت سے اس کے فرض ہونے کا اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ جہاد جیسے اہم فرض میں بھی اس فرض کو چھوڑنا نہیں جس کی صورت یہ ہے کہ ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جہاد کیلئے نکلے اور باقی لوگ علم دین حاصل کرنے میں لگیں، پھر یہ علم دین حاصل کرکے جہاد میں جانے والے مسلمانوں کو اور دوسرے لوگوں کو علم دین سکھائیں۔
طلب علم دین کا فرض ہونا اور اس کے آداب و فرائض
امام قرطبی نے فرمایا ہے کہ یہ آیت طلب علم دین کی اصل اور بنیاد ہے، اور غور کیا جائے تو اسی آیت میں علم دین کا اجمالی نصاب بھی بتلا دیا گیا ہے علم حاصل کرنے کے بعد عالم کے فرائض بھی، اس لئے اس مضمون کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے
علم دین کے فضائل
علم دین کے فضائل اور ثواب عظیم اور اس کے متعلقات پر علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس جگہ چند مختصر روایات نقل کی جاتی ہیں، ترمذی نے حضرت ابوالدرداء سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہجو شخص کسی راستے پر چلے جس کا مقصد علم حاصل کرنا ہو اللہ تعالیٰ اس چلنے کے ثواب میں اس کا راستہ جنت کی طرف کردیں گے، اور یہ کہ اللہ کے فرشتے طالب علم کیلئے اپنے پر بچھاتے ہیں اور یہ کہ عالم کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی مخلوقات اور پانی کی مچھلیاں دعا و استغفار کرتی ہیں، اور یہ کہ عالم کی فضیلت کثرت سے نفلی عبادت کرنے والے پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت باقی سب ستاروں پر، اور یہ کہ علماء انبیاء (علیہم السلام) کے وارث ہیں، اور یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) سونے چاندی کی کوئی میراث نہیں چھوڑتے لیکن علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، تو جس شخص نے یہ روایت علم حاصل کرلی اس نے بڑی دولت حاصل کرلی“ (از قرطبی)۔
اور دارمی نے اپنے مسند میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے، ایک عالم تھا جو صرف نماز پڑھ لیتا اور پھر لوگوں کو دین کی تعلیم دینے میں مشغول ہوجاتا تھا، دوسرا دن بھر روزہ رکھتا، اور رات کو عبادت میں کھڑا رہتا تھا، ان دونوں میں کون افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ادنی آدمی پر“ (یہ روایت امام عبدالبر نے کتاب جامع بیان العلم میں سند کیساتھ حضرت ابو سعید خدری سے نقل کی ہے (قرطبی)
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک فقیہ شیطان کے مقابلہ میں ایک ہزار عبادت گذاروں سے زیادہ قوی ہے اور بھاری ہے (ترمذی عن ابن عبا س، از مظہری) اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے، ایک صدقہ جاریہ، جیسے مسجد یا دینی تعلیم کی عمارت یا رفاہ عام کے ادارے، دوسرے وہ علم جس سے اس کے بعد بھی لوگ نفع اٹھاتے رہیں (مثلا شاگرد عالم ہوگئے، ان سے آگے لوگوں کو علم دین سکھانے کا سلسلہ چلتا رہا، یا کوئی کتاب تصنیف کی جس سے اس کے بعد بھی لوگ فائدہ اٹھاتے رہے)۔
تیسرے اولاد صالح جو اس کیلئے دعا اور ایصال ثواب کرتی رہے (از قرطبی)
علم دین کے فرض عین اور فرض کفایہ کی تفصیل
ابن عدی اور بیہقی نے بسند صحیح حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ طلب العلم فریضہ علی کل مسلم (از مظہری) یعنی علم حاصل کرنا فرض ہے ہر ایک مسلمان پر۔ یہ ظاہر ہے کہ اس حدیث اور مذکورہ سابقہ احادیث میں علم سے مراد علم دین ہی ہے، دنیوی علم و فنون عام دنیا کے کاروبار کی طرح انسان کے لئے ضروری سہی، مگر ان کے وہ فضائل نہیں جو احادیث مذکورہ میں آئے ہیں، پھر علم دین ایک علم نہیں، بہت سے علوم کو پورا مشتمل ایک جامع نظام ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت اس پر قادر نہیں، کہ ان سب علوم کو پورا حاصل کرسکے، اس لئے حدیث مذکورہ میں جو ہر مسلمان پر فرض فرمایا ہے اس سے مراد علم دین کا صرف وہ حصہ ہے جس کے بغیر آدمی نہ فرائض ادا کرسکتا ہے نہ حرام چیزوں سے بچ سکتا ہے جو ایمان اسلام کیلئے ضروری ہے، باقی علوم کی تفصیلات قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل پھر ان سے نکالے ہوئے احکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ نہ ہر مسلمان کی قدرت میں ہے نہ ہر ایک پر فرض عین ہے، البتہ پورے عالم اسلام کے ذمہ فرض کفایہ ہے، ہر شہر میں ایک عالم ان تمام علوم و شرائع کا ماہر موجود ہو تو باقی مسلمان اس فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، اور جس شہر یا قصبہ میں ایک بھی عالم نہ ہو تو شہر والوں پر فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو عالم بنائیں، یا باہر سے کسی عالم کو بلا کر اپنے شہر میں رکھیں تاکہ ضرورت پیش آنے پر باریک مسائل کو اس عالم سے فتوٰی لے کر سمجھ سکیں، اور عمل کرسکیں، اس لئے علم دین میں فرض عین اور فرض کفایہ کی تفصیل یہ ہے کہ۔
فرض عینہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ اسلام کے عقائد صحیحہ کا علم حاصل کرے اور طہارت نجاست کے احکام سیکھے، نماز روزہ اور تمام عبادات جو شریعت نے فرض و واجب قرار دی ہیں ان کا علم حاصل کرے، جن چیزوں کو حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان کا علم حاصل کرے، جس شخص کے پاس بقدر نصاب مال ہو اس پر فرض ہے کہ زکوٰة کے مسائل و احکام معلوم کرے، جن کو حج پر قدرت ہے اس کیلئے فرض عین ہے کہ حج کے احکام و مسائل معلوم کرے، جس کو بیع و شراء کرنا پڑے یا تجارت و صنعت یا مزدوری و اجرت کے کام کرنے پڑیں اس پر فرض عین ہے کہ بیع و اجارہ وغیرہ کے مسائل و احکام سیکھے، جب نکاح کرے تو نکاح کے احکام و مسائل اور طلاق کے احکام و مسائل معلوم کرے، غرض جو کام شریعت نے ہر انسان کے ذمہ فرض و واجب کئے ہیں ان کے احکام و مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
علم تصوف بھی فرض عین میں داخل ہے
احکام ظاہرہ نماز، روزے کو تو سب ہی جانتے ہیں کہ فرض عین ہیں، اور ان کا علم حاصل کرنا بھی فرض عین ہے، حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ نے تفسیر مظہری میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ اعمال باطنہ اور محرمات باطنہ کا علم جس کو عرف میں علم تصوف کہا جاتا ہے چونکہ یہ باطنی اعمال بھی ہر شخص پر فرض عین ہیں تو ان کا علم بھی سب پر فرض عین ہے۔
آجکل جس کو علم تصوف کہا جاتا ہے وہ بھی بہت سے علوم و معارف اور مکاشفات و واردات کا مجموعہ بن گیا ہے اس جگہ فرض عین سے مراد اس کا صرف وہ حصہ ہے جس میں اعمال باطنہ فرض و واجب کی تفصیل ہے، مثلا عقائد صحیحہ جس کا تعلق باطن سے ہے یا صبر، شکر، توکل، قناعت وغیرہ ایک خاص درجے میں فرض ہیں، یا غرور وتکبر، حسد و بغض، بخل و حرص دنیا وغیرہ جو ازروئے قرآن و سنت حرام ہیں، ان کی حقیقت اور اس کے حاصل کرنے یا حرام چیزوں سے بچنے کے طریقے معلوم کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے علم تصوف کی اصل بنیاد اتنی ہی ہے جو فرض عین ہے۔
فرض کفایہپورے قرآن مجید کے معانی و مسائل کو سمجھنا، تمام احادیث کو سمجھنا اور ان میں معتبر اور غیر کی پہچان پیدا کرنا، قرآن و سنت سے جو احکام و مسائل نکلتے ہیں ان سب کا علم حاصل کرنا، اس میں صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال و آثار سے واقف ہونا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ پوری عمر اور سارا وقت اس میں خرچ کرکے بھی پورا حاصل ہونا آسان نہیں، اس لئے شریعت نے اس علم کو فرض کفایہ قرار دیا ہے، کہ بقدر ضرورت کچھ لوگ یہ سب علوم حاصل کرلیں تو باقی مسلمان سبکدوش ہوجائیں گے۔
علم دین کا نصابقرآن حکیم نے اس جگہ علم دین کی حقیقت اور اس کا نصاب بھی ایک ہی لفظ میں بتلا دیا ہے، وہ ہے لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ ، یہ موقع بظاہر اس کا تھا کہ یہاں یتعلمون الدین کہا جاتا، یعنی علم دین حاصل کریں، مگر قرآن نے اس جگہ تعلم کا لفظ چھوڑ کر تفقہ کا لفظ اختیار فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ علم دین کا محض پڑھ لینا کافی نہیں، وہ تو بہت سے کافر یہودی نصرانی بھی پڑہتے ہیں، اور شیطان کو سب سے زیادہ حاصل ہے، بلکہ علم دین سے مراد دین کی سمجھ پیدا کرنا ہے، یہی لفظ تفقہ کا ترجمہ ہے، اور یہ فقہ سے مشتق ہے، فقہ کے معنی سمجھ بوجھ ہی کے ہیں، یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ مجرد کے صیغے سے لیفقھوا الدین، یعنی تاکہ دین کو سمجھ لیں، نہیں فرمایا بلکہ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ فرمایا، جو باب تفعل سے ہے اس کے معنی میں محنت و مشقت کا مفہوم شامل ہے مراد یہ ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے میں پوری محنت و مشقت اٹھا کر مہارت حاصل کریں، یہ بھی ظاہر ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ صرف اتنی بات سے پیدا نہیں ہوتی کہ طہارت، نجاست یا نماز، روزے، زکوٰة، حج کے مسائل معلوم کرے، بلکہ دین کی سجھ بوجھ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کے ہر قول و فعل اور حرکت و سکون کا آخرت میں اس سے حساب لیا جائے گا، اس کو اس دنیا میں کس طرح رہنا چاہئے، دراصل اسی فکر کا نام دین کی سجھ بوجھ ہے، اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے فقہ کی تعریف یہ کی ہے کہ انسان ان تمام کاموں کو سمجھ لے جن کا کرنا اس کے لئے ضروری ہے، اور ان تمام کاموں کو بھی سمجھ لے جن سے بچنا اس کے لئے ضروری ہے، آجکل جو علم فقہ مسائل جزئیہ کے علم کو کہا جاتا ہے یہ بعد کی اصطلاح ہے، قرآن و سنت میں فقہ کی حقیقت وہی ہے جو امام اعظم نے بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے دین کی کتابیں سب پڑھ ڈالیں مگر یہ سمجھ بوجھ پیدا نہ کی وہ قرآن و سنت کی اصطلاح میں عالم نہیں، اس تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ علم دین حاصل کرنے کا مفہوم قرآن کی اصطلاح میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا ہے وہ جن ذرائع سے حاصل ہو وہ ذرائع خواہ کتابیں ہوں یا اساتذہ کی صحبت، سب اس نصاب کے اجزاء ہیں۔
علم دین حاصل کرنے کے بعد عالم کے فرائض
اس جگہ قرآن کریم نے اس کو بھی ایک ہی جملہ میں پورا بیان فرما دیا ہے، وہ ہی (آیت) لِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ یعنی تاکہ وہ اپنی قوم کو اللہ کی نافرمانی سے ڈرائیں۔ یہاں بھی یہ بات قابل نظر ہے کہ اس جملہ میں عالم کا فرض انذار قوم بتلایا ہے، انذار کا لفظی ترجمہ ہم اردو میں ڈرانے سے کرتے ہیں مگر یہ اس کا پورا ترجمہ نہیں اردو زبان کی تنگی کی وجہ سے کوئی ایک لفظ اس کے پورے ترجمہ کو ادا نہیں کرتا، حقیقت یہ ہے کہ ڈرانا کئی طرح کا ہوتا ہے، ایک ڈرانا دشمن، چور ڈاکو یا کسی درندے زہریلے جانور سے ہے، ایک ڈرانا وہ ہے جو باپ اپنی شفقت سے اولاد کو تکلیف دہ چیزوں جیسے آگ، زہریلے جانور مضر غذاء سے ڈراتا ہے جس کا منشاء شفقت و محبت ہوتی ہے، اس کا لب و لہجہ بھی کچھ اور ہی ہوتا ہے، انذار اسی قسم کے ڈرانے کا نام ہے اسی لئے پیغمبروں اور رسولوں کو نذیر کا لقب دیا گیا ہے اور عالم کا یہ فریضہ انذار درحقیقت وراثت نبوت ہی کا جز ہے جو بنص حدیث عالم کو حاصل ہوتی ہے۔
مگر یہاں قابل غور یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے دو لقب ہیں، بشیر اور نذیر، نذیر کے معنی تو ابھی آپ معلوم کرچکے ہیں، بشیر کے معنی ہیں بشارت اور خوشخبری سنانے والا، انبیاء (علیہم السلام) کا ایک کام یہ بھی ہے کہ نیک عمل کرنے والوں کو بشارت سنائیں، اس جگہ بھی اگرچہ صراحةً ذکر انذار کا کیا گیا ہے، مگر دوسری نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم کا فرض یہ بھی ہے کہ نیک کام کرنے والوں کو بشارت بھی سنائے، لیکن اس جگہ صرف انذار کے ذکر پر اکتفاء کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کے ذمے دو کام ہیں ایک یہ کہ جو عمل اس کے لئے دنیا و آخرت میں مفید ہیں ان کو اختیار کرے، دوسرے یہ کہ جو عمل اس کیلئے مضر ہیں ان سے بچے، باتفاق علماء و عقلاء ان دونوں کاموں میں سے دوسرا کام سب سے مقدم اور اہم ہے، اسی کو فقہاء کی اصطلاح میں جلب منفعت اور دفع مضرت کے دو لفظوں سے تعبیر کرکے دفع مضرت کو جلب منفعت سے مقدم قرار دیا ہے، اس کے علاوہ دفع مضرت میں ایک حیثیت سے جلب منفعت کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے، کیونکہ جو کام انسان کیلئے مفید اور ضروری ہیں ان کا ترک بڑی مضرت ہے تو جو شخص مضرت اعمال سے بچنے کا اہتمام کرے گا وہ اعمال ضروریہ کے ترک سے بچنے کا بھی اہتمام کرے گا۔
یہاں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آجکل جو عموماً وعظ و تبلیغ بہت کم مؤ ثر ہوتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں انذار کے آداب نہیں ہوتے، جس کے طرز بیان اور لب و لہجے سے شفقت و رحمت اور خیر خواہی مترشح ہو، مخاطب کو یقین ہو کہ اس کے کلام کا مقصد نہ مجھے رسوا کرنا ہے نہ بدنام کرنا نہ اپنے دل کا غبار نکالنا، بلکہ یہ جس چیز کو میرے لئے مفید اور ضروری سمجھتا ہے وہ محبت کی وجہ سے مجھے بتلا رہا ہے، اگر آج ہماری تبلیغ اور خلاف شرع امور کے مرتکب لوگوں کو اصلاح کی دعوت کا یہ طرز ہوجائے تو اس کا ایک نتیجہ تو قطعا لازم ہی ہے کہ مخاطب کو ہماری گفتگو سے ضد پیدا نہیں ہوگی، وہ جواب دہی کی فکر میں پڑنے کے بجائے اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور انجام سوچنے کی طرف متوجہ ہوجائے گا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کبھی نہ اس کو قبول کرے گا اور دوسرا نتیجہ یہ لازمی ہے کہ کم از کم اس سے باہمی منافرت اور لڑائی جھگڑا پیدا نہیں ہوگا، جس میں آجکل ہماری پوری قوم مبتلا ہے۔
آخر میں (آیت) لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ عالم کا کام اتنا ہی نہیں کہ عذاب سے ڈرا دیا بلکہ اس پر نظر رکھنا بھی ہے کہ اس کی تبلیغ و دعوت کا اثر کتنا اور کیا ہوا، ایک دفعہ مؤ ثر نہیں ہوئی تو بار بار کرتا رہے، تاکہ اس کا نتیجہ يَحْذَرُوْنَ برآمد ہوسکے یعنی قوم کا گناہوں سے بچنا واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
Top