Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
اور یہ مناسب نہیں کہ سارے کے سارے ہی مومن کوچ کر جائیں ( جہاد کے لیے) پس کیوں نہ نکلے ہر گروہ میں سے ایک حصہ تا کہ وہ سمجھ حاصل کریں دین میں ، اور تا کہ وہ ڈرائیں اپنی قوم کو جس وقت کہ ان کی طرف واپس لوٹ کر آئیں تا کہ وہ لوگ بچ جائیں
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کی مذمت بیان فرمائی تھی کہ مدینہ اور اطراف میں رہنے والوں کے لیے یہ کسی طرح مناسب نہیں تھا کہ وہ جہاد سے گریز کرتے۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ جہاد کے سفر میں رسول خدا کے ساتھ رفاقت اختیار کرتے اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اہل ایمان کو چاہیے تھا کہ وہ نبی کی جان کو اپنی جانوں پر ترجیح دیتے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ کے راستے میں جو بھی تکلیف ، پریشانی یا مشقت برداشت کرنی پڑیگی ، اللہ تعالیٰ ہر ایسی بات کے بدلے میں نیکی لکھے گا۔ اور ا س کا بہتر سے بہتر اجر عطا فرمائے گا۔ تقسیم کار : جب اللہ تعالیٰ نے جہاد سے پیچھے رہنے والوں کی بار بار مذمت بیان فرمائی تو بعض مسلمانوں کو خیال پیدا ہوا کہ ہر مسلمان کی ہر جہاد میں شرکت لازمی ہوگئی ہے اور اس سے کسی صورت میں بھی گریز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اعلان ِ جہاد کے ساتھ ہی سب کے سب لوگ اس کے لیے نکل کھڑے ہوں خواہ باقی امور دنیا کو نظر انداز ہی کرنا پڑے۔ چونکہ یہ بات منشائے خداوندی کے مطابق نہیں تھی لہٰذا آج کی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تقسیم کار کی تعلیم دی ہے کہ تمام لوگ صرف ایک ہی کام کی طرف متوجہ نہ ہو جائین بلکہ کچھ لوگ جہاد میں جائیں تو بعض دوسرے دیگر امور کا کام سنبھالیں تا کہ اجتماعی زندگی میں کسی قسم کا تعطل نہ پیدا ہوجائے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت جہاد کے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق دین کی تعلیم حاصل کرنے سے ہے۔ آیت کے ظاہری الفاظ بھی اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں۔ اگر آیت کا یہ معنی لیا جائے تو مطلب ہوگا کہ تعلیم ِ دین کے حصول کے لیے سب کے سب لوگ ہی گھروں سے نہ نکل جائیں بلکہ ہر جماعت ، گروہ ، خاندان یا قبیلہ میں کچھ آدمی اس کام کی طرف توجہ دیں اور باقی لوگ اپنے اپنے کاروبار کی طرف متوجہ رہیں۔ کوئی زراعت یا ، تجارت کا کاروبار کرتا ہے۔ صنعت وحرفت میں مشغول ہے یا ملازمت اختیار کیے ہوئے ہے ، تو وہ اپنے اپنے مشاغل میں مصروف رہیں تا کہ بحیثیت مجموعی نظام زندگی کسی تعطل کا شکا نہ ہوجائے۔ اور جو لوگ تعلیم دین کی طرف متوجہ ہوں ، وہ علم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے خاندان ، گروہ یا قبیلے میں واپس آکر باقی لوگوں کی دینی امور میں راہنمائی کریں تا کہ وہ بھی اچھائی اور برائی میں تمیز پیدا کر کے برائیوں سے بچ سکیں۔ فریضہ جہاد : مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت کے لیے لازم ہے کہ وہ جہاد کے لیے ہر وقت مستعد رہے اور باقی لوگ اپنے اپنے کاروبار میں مصروف رہیں اس جہاد کا فریضہ سب کی طرف سے ادا ہوجائے گا۔ اور اگر پوری جاعت المسلمین میں سے کوئی شخص بھی جہاد کے لیے تیار نہ ہو تو پھر پوری کی پوری جماعت گنہگار ہوگی۔ البتہ خاص حالات میں جہاد فرض عین بن جاتا ہے۔ جب دشمن مسلمانوں کے علاقے میں حملہ آور ہوجائے تو فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں ہر مسلمان مرد ، عورت ، بچے اور بوڑھے پر جہاد فرض عین ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی پیچھے نہیں رہ سکتا بلکہ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جہاد میں حصہ لینا لازمی ہوجائے گا۔ نوجوان آگے محاذ پر دشمن کا مقابلہ کریں گے جب کہ بوڑھے لوگ سامان مہیا کرنے یا شہری نظام کو چلانے کے ذمہ دار ہوں گے ، اگر زخمیوں کی عیادت وغیرہ کے لیے یا خوراک بہم پہنچانے کے لیے عورتوں کی خدمات درکار ہوں گی تو وہ بھی اپنے حصے کا فریضہ انجام دیں گی۔ غرضیکہ ضرورت کے وقت ہر فرد پر جہاد فرض ہوجائے گا۔ فریضہ علم : جس طرح جہاد کے دو حصے ہیں۔ اسی طرح حصول علم دین بھی دو حصوں میں منقسم ہے۔ عللم دین کا بعض حصہ فرض کفایہ اور بعض حصہ فرض عین ہے۔ فرض عین وہ حصہ ہے جو ہر مرد اور عورت کے لیے حاصل کرنا لازم ہے۔ حضور ﷺ کا بہیقی شریف میں فرمان موجود ہے (آیت) ” طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم “ یعنی ہر مسلمان مرد ، عورت پر علم کا حصول فرض ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ اس میں عقیدے کی درستگی ، توحید کا جاننا ، شرک کا پہنچاننا ، رسالت پر ایمان ، قیامت پر ایمان وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ایسی بنیادی چیزیں ہیں جن پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ لہذا اس علم کا حاصل کرنا ہر عاقل بالغ کے لیے ضروری ہے۔ اور اس سے کوئی فرد بھی مستثنیٰ نہیں ہے فرضی عبادات کے متعلق علم حاصل کرنا بھی فرض عین ہے۔ نماز اور روزہ کے مسائل کا جاننا ، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی ، واجبات اور سنن کا علم وغیرہ فرض عین میں داخل ہے۔ اسی طرح حلال و حرام کی تمیز ، سود اور تجارت میں امتیاز کرنا ، حقوق العباد کا علم ہونا وغیرہ سب کے لیے ضروری ہے۔ جو شخص محض لا علمی کی بناء پر کسی فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کریگا یا کوئی غلط کام کرے گا تو وہ مجرم ہوگا ۔ علم دین کا دوسرا حصہ اسلام کی جزئیات Det:ils پر مشتمل ہے اور فرضِ کفایہ میں آتا ہے اس میں شریعت کے تفصیلی مسائل آتے ہیں۔ نماز روزہ ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کے تفصیلی مسائل ، نکاح ، طلاق ، وراثت ، صلح وجنگ وغیرہ ایسے مسائلہ ہیں جن پر عبور حاسل کرنا ہر شخص کے لیے ضروری نہیں بلکہ قوم میں سے بعض لوگ بھی اگر تفصیلی علم دین حاصل کرلیں گے اور بوقت ضرورت دوسرے لوگوں کی راہنمائی کرتے رہیں گے تو یہ فرض ادا ہوجائے گا۔ اور اگر کسی حلقے میں کوئی بھی شخص یہ تفصیلی علم حاصل نہ کرے تو سب کی سب گنہگار ہوں گے ، وجہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت ایک عام آدمی کس سے مسئلہ دریافت کریگا ؟ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ (آیت) ” فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “ اگر تمہیں کسی چیز کا علم نہیں ہے تو علم رکھنے والوں سے پوچھ لو۔ اور اگر پوری بستی میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو لوگوں کی راہنمائی کرسکے ، ان کو حق و باطل اور حرام و حلال سے آگاہ کرسکے ، ان کے نکاح طلاق اور وراثت کے مسائل حل کرے ، ان کو زکوٰۃ اور حج کی تفصیلات بتا سکے تو پھر اس لا علمی کا وبال سب پر پڑے گا۔ یہ ایسا ہی فرضِ کفایہ ہے جیسے میت کی تجہیز وتکفین اور اس کا جنازہ وغیرہ اگر یہ کام بعض مسلمان انجام دے لیں گے تو سب کی طرف سے فرض ادا ہوجائیگا اور اگر کوئی شخص بھی انجام نہیں دے گا تو سب گنہگار ہوں گے۔ علم دین کا حصول : یہاں پر چونکہ علم دین کی بات ہو رہی ہے تو مطلب یہ ہے کہ کسی شہر یا بستی کے سارے کے سارے لوگ ہی علم حاصل کرنے کے لیے تو نہیں جاسکتے۔ بلکہ نظام زندگی کو چلانے کے لیے کسی کو مزدوری کرنا ہے کسی کو کھیتی باڑی کا کام انجام دینا ہے ، کوئی تاجر ہے ، کوئی صنعت کار ہے سب کو اپنااپنا کام انجام دینا ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک دوسرے آدمی کے ساتھ شراکتی کاروبار کرتے تھے چناچہ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے ” کنا نتناوب “ ہم دونوں نوبت بنوبت یعنی باری باری حضور کی خدمت میں آتے تھے ، فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور میرا شریک کار بکریوں کو سنبھالتا ، ان کو پانی پلاتا اور کھیتی باڑی پر توجہ دیتا۔ میں دن بھر حضور ﷺ کی مجلس میں جو کچھ سنتا وہ اپنے ساتھی کو جا کر بتا دیتا۔ پھر اگلے دن میں کام کاج کی نگرانی کرتا اور میرا ساتھی دن بھر حضور کی خدمت میں حاضر رہتا ، جو آیت نازل ہوتی یا نبی (علیہ السلام) کی طرف سے حکم جاری ہوتا تو وہ مجھے آکر بتا دیتا۔ اس طرح ہم نے باری مقرر کر رکھی تھی کیونکہ اگر دونوں علم حاصل کرنے کے لیے چلے جاتے تو کاروبار کرنا ممکن نہیں رہتا تھا۔ اس آیت کریمہ میں اسی بات کو بیان کیا گیا ہے (آیت) ” وما کان المومنون لینفروا کافۃ “ اور اہل ایمان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ سارے کے سارے نکل جائیں ۔ کیونکہ اس طرح تو پورا نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اسی لیے فرمایا (آیت) ” فلو لا نفر من کل فقرۃ منھم طائفۃ “ پس کیوں کوچ نہیں کیا ہر فرقے یا جماعت میں سے ایک گروہ نے ہر بستی ، خاندان یا قبیلہ سے کچھ آدمی حصول علم کے لیے یا جہاد کے لیے چلے جاتے اور باقی لوگ زندگی کے بقیہ امور انجام دیتے۔ جہاد کے ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں دو آدمی ہیں ان میں سے ایک جہاد کے لیے چلا جائے اور دوسرا سارے گھر کا کام سنبھال لے اسی طرح ہر گھر یا بستی یا خاندان میں کچھ لوگ حصول علم کے لیے جائیں اور باقی دنیا کے کام انجام دیتے رہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا (آیت) ” لیفقھوا فی الدین “ تا کہ دین کا علم حاصل کرنے والے لوگ دین میں سمجھ پیدا کریں (آیت) ” ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم “ تا کہ جب وہ اپنی قوم کی طرف واپس لوٹیں تو ان کو ڈرائیں۔ اپنے علم کی روشنی میں انہیں نیکی اور بدی کی تمیز کرائیں۔ اور ہر برے عمل کے تنائج سے آگاہ کریں جس سے وہ ڈر جائیں اور برائی کو چھوڑ کی نیکی کی طرف راغب ہوجائیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا (آیت) ” لعلھم یحذرون “ کہ وہ لوگ دنیا وآخرت کی ناکامی اور سزا سے بچ جائیں گے۔ جب دین کی تعلیم عام ہوگی ، لوگوں کو اچھے کام کی طرف رغبت ہوگی اور برے کام سے نفرت پیدا ہو اجائیگی تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائیں گے۔ علم کا حصول کوئی معمولی کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے دور دراز کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے اور سخت محنت کرنی پڑتی ہے امام بخاری (رح) (1۔ بخاری ، ص 16 ، ج 1) (فیاض) فرماتے ہیں ” انما العلم بالتعلم “ یعنی علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ یہ یونہی گھر بیٹھے بٹھائے نہیں مل جاتا بلکہ استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا پڑتا ہے۔ علم کے حصول کے لیے محدثین کرام نے بڑی بڑی تکالیف اٹھائیں ۔ امام بخاری رح ، امام محمدرح ، مصنف عبدالرزاق (رح) وغیرہم کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حصول علم کے یے سفر طے کیے۔ راستے کی صعوبتیں برداشت کیں ، بھوکے اور پیاسے رہے۔ اس کام کے لیے عمر کا قیمتی حصہ صرف کیا ، تو تب جا کر دین میں سمجھ پیدا ہوئی ، اصل علم دین کا علم ہے۔ جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ فوز و فلاح کا ضامن ہے۔ جہاں دین کو موخر کر کے دنیا اور پیٹ کو مقدم کیا جاتا ہے۔ وہاں ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ علم فقہ : (آیت) ” لیتفقھو فی الدین “ میں تفقہ سے مراد فہم ، فقاہت اور سمجھ ہے اور فقہ سے مراد وہ اسلامی قانون ہے جسے آئمہ مجتہدین نے قرآن وحدیث سے اخذ کر کے عام امت پر سب سے زیادہ احسان امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے جنہوں نے قرآن وسنت سے ریسرچ کر کے اس علم کو مرتب کیا۔ باقی رہی یہ بات کہ بحیثیت انسان ہر شخص سے غلطی بھی ہو سکتی ہے ، کوئی بھی شخص غلطی سے پاک نہیں۔ اس بنا پر فقہ میں بھی بعض غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ان محدود غلطیوں کی وجہ سے ساری فقہ کو نفرت کا نشانہ بنانہ درست نہیں ۔ حضور ﷺ نے فقاہت کی تعریف فرمائی ہے ” من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین “ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ اور فقاہت عطا کرتا ہے (1۔ بخاری ، ص 16 ، ج 1) (فیاض) دین کی تعلیم کو ہمیشہ اولیت حاصل ہے جب کی دنیا کے علوم وفنون کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا علم محض اسباب معاش پر مبنی ہے جب کہ آخرت کی کامیابی کا انحصار علم دین پر ہے۔ اگر دین کا علم صحیح نہیں ہوگا تو گمراہی پیدا ہوگی ، فرقے پیدا ہوں گے ، لوگ گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ بہر حال فقہ ایک قابل تعریف چیز ہے جسے فقہائے کرام نے قرآن وسنت سے اخذ کر کے پیش کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک فقہ کی تعریف یہ ہے ” معرفۃ النفس مالھا وماعلیھا “ یعنی انسانی نفس کے لیے ان چیزوں کی پہچان جو اس کے حق میں مفید یا مضر ہیں۔ ترمذی شریف میں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ منافق آدمی میں دو باتیں کبھی نہیں پائی جاتیں ” حسن خلق ولا فقہ فی الدین “ ایک چیز خوش اخلاقی ہے جو منافق میں نہیں ملتی ، وہ ہمیشہ گالی گلوچ ، غیبت ، بد زبانی ، ایذارسانی وغیرہ پر آمادہ رہتا ہے۔ اور دوسری چیز تفقہ فی الدین ہے منافق کو دین کی سمجھ بھی حاصل نہیں ہوتی۔ دین کی سمجھ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے اور یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ بہتری کا ارادہ فرماتا ہے۔ محنت کی ضرورت : دین کے اصول اور فروغ کو جاننے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ امام ابو یوسف (رح) کا مقولہ ہے ” العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک “ جب تک تو علم کے لیے اپنا سب کچھ وقف نہیں کردیگا۔ اس ووت تک علم اپنا بعض حصہ بھی تمہیں نہیں دے گا۔ علم کے حصول کے لیے مال ، وقت ، توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے سلف صالحین نے اس کام پر عمریں صرف کردیں۔ محض اخبارات اور رسائل پڑھ کر کوئی شخص مجتہد نہیں بن سکتا اور نہ ریسرچ کے نام پر کفر کو اسلام اور اسلام کو کفر کا نام دے سکتا ہے ، صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دینا علم نہیں بلکہ حماقت ہے ، یہ تو بےدینی اور نفاق کی علامت ہے۔ ایسا کرنا غیر اقوام کی تقلید کا نتیجہ ہے ، اسے علم نہیں کہ سکتے۔ علم کے لیے تو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے سلف مفسرین اور محدثین باعمل لوگ تھے۔ انہوں نے دین کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں ، کتابیں لکھیں اور لوگوں کو تعلیم دی اور اس طرح دین کے پودے کی آبیاری کی۔ انگریزی نظام تعلیم میں نہ تو استاد کا احترام ہے اور نہ شاگرد کو اپنے فرائض کا علم ہے ، یہاں تو لڑکے اور لڑکیوں کے در میان اور استادوں اور شاگردوں کے درمیان معاشقے چلتے ہیں۔ گپیں لگائی جاتی ہیں ، عریانی کا دور دورہ ہوتا ہے ، یہاں ادب واحترام کا لحاظ کہاں ہوتا ہے ؟ اس کے برخلاف دینی علم کے اساتذہ اور طلباء میں ہر درجے کا ادب واحترام اور شفقت و محبت دیکھنے میں آتا ہے حضرت مولانا احمد علی لاہوری (رح) نے جمعیۃ العمائے ہند کی میٹنگ میں حضرت مولانا شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی (رح) کی موجودگی میں فرمایا تھا کہ میرے گھٹنوں میں دردہوتا تھا مگر میں شیخ کے سامنے بیٹھ کر چار چار گھنٹے تک گھٹنا تبدیل نہ کرتا کہ یہ خلاف ادب تھا۔ یہ تو ہمارے دور کے بزرگوں کا حال ہے۔ ان میں جس قدر ادب تھا ویسا ہی انہوں نے فیض بھی جاری کیا۔ علم دین کا فقدان : یہ زمانہ انحطاط کا زمانہ جا رہا ہے جس میں علم دین کی طرف رغبت ہی باقی نہیں رہی۔ جب تک صحیح علم نہیں ہوگا لوگوں کی مشکلات کا حل کیسے پیش کیا جاسکے گا۔ 1940 ء میں سیالکوٹ کی طرف پیدل سفر کرتے ہوئے ظہر کی نماز کے لیے ایک گائوں کی مسجد میں پہنچے تو پتہ چلا امام صاحب نہیں ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس علاقے کے سات گائوں کا ایک ہی امام ہے جو ہفتہ میں ایک دن ہر گائوں میں جاتا ہے اور ایک آدھ نما ز پڑھا دیتا ہے۔ البتہ نکاح ، جنازہ ، ختم وغیرہ کے لیے ضرورت ہو تو مولوی صاحب کو بلا لیا جاتا ہے انحطاط کی انتہا ہے کہ بستیوں کی بستیاں علم دین سے خالی ہیں۔ لوگ دنیا کی طرف راغب ہیں ، تفقہ فی الدین کون حاصل کریگا ؟ پنچاب کے آسودہ حال زمینداروں ، تاجروں ، صنعتکاروں اور وکلا کو دیکھ لیں۔ آج کون ہے جو اپنی اولاد کو تعلیم دین کے لیے وقف کرتا ہے سب دنیاوی تعلیم کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ یہ تو پس ماندہ علاقوں کے غریب غربا لوگ مدرسوں میں آتے ہیں۔ ان میں کچھ مفاد پرست اور خود غرض ہوتے ہیں ، تا ہم اللہ انہی میں سے بعض کو توفیق عطا کرتا ہے اور کسی حد تک تعلیمی ضروریات پوری ہوتی ہیں ورنہ عام طور پر یہ میدان خالی نظر آتا ہے۔
Top