Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠ ۧ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں ہے
الْمُؤْمِنُوْنَ
: مومن (جمع)
لِيَنْفِرُوْا
: کہ وہ کوچ کریں
كَآفَّةً
: سب کے سب
فَلَوْ
: بس کیوں
لَا نَفَرَ
: نہ کوچ کرے
مِنْ
: سے
كُلِّ فِرْقَةٍ
: ہر گروہ
مِّنْھُمْ
: ان سے۔ ا ن کی
طَآئِفَةٌ
: ایک جماعت
لِّيَتَفَقَّهُوْا
: تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں
فِي الدِّيْنِ
: دین میں
وَلِيُنْذِرُوْا
: اور تاکہ وہ ڈر سنائیں
قَوْمَھُمْ
: اپنی قوم
اِذَا
: جب
رَجَعُوْٓا
: وہ لوٹیں
اِلَيْهِمْ
: ان کی طرف
لَعَلَّھُمْ
: تاکہ وہ (عجب نہیں)
يَحْذَرُوْنَ
: بچتے رہیں
اور یہ مناسب نہیں کہ سارے کے سارے ہی مومن کوچ کر جائیں ( جہاد کے لیے) پس کیوں نہ نکلے ہر گروہ میں سے ایک حصہ تا کہ وہ سمجھ حاصل کریں دین میں ، اور تا کہ وہ ڈرائیں اپنی قوم کو جس وقت کہ ان کی طرف واپس لوٹ کر آئیں تا کہ وہ لوگ بچ جائیں
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کی مذمت بیان فرمائی تھی کہ مدینہ اور اطراف میں رہنے والوں کے لیے یہ کسی طرح مناسب نہیں تھا کہ وہ جہاد سے گریز کرتے۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ جہاد کے سفر میں رسول خدا کے ساتھ رفاقت اختیار کرتے اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اہل ایمان کو چاہیے تھا کہ وہ نبی کی جان کو اپنی جانوں پر ترجیح دیتے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ کے راستے میں جو بھی تکلیف ، پریشانی یا مشقت برداشت کرنی پڑیگی ، اللہ تعالیٰ ہر ایسی بات کے بدلے میں نیکی لکھے گا۔ اور ا س کا بہتر سے بہتر اجر عطا فرمائے گا۔ تقسیم کار : جب اللہ تعالیٰ نے جہاد سے پیچھے رہنے والوں کی بار بار مذمت بیان فرمائی تو بعض مسلمانوں کو خیال پیدا ہوا کہ ہر مسلمان کی ہر جہاد میں شرکت لازمی ہوگئی ہے اور اس سے کسی صورت میں بھی گریز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اعلان ِ جہاد کے ساتھ ہی سب کے سب لوگ اس کے لیے نکل کھڑے ہوں خواہ باقی امور دنیا کو نظر انداز ہی کرنا پڑے۔ چونکہ یہ بات منشائے خداوندی کے مطابق نہیں تھی لہٰذا آج کی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تقسیم کار کی تعلیم دی ہے کہ تمام لوگ صرف ایک ہی کام کی طرف متوجہ نہ ہو جائین بلکہ کچھ لوگ جہاد میں جائیں تو بعض دوسرے دیگر امور کا کام سنبھالیں تا کہ اجتماعی زندگی میں کسی قسم کا تعطل نہ پیدا ہوجائے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت جہاد کے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق دین کی تعلیم حاصل کرنے سے ہے۔ آیت کے ظاہری الفاظ بھی اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں۔ اگر آیت کا یہ معنی لیا جائے تو مطلب ہوگا کہ تعلیم ِ دین کے حصول کے لیے سب کے سب لوگ ہی گھروں سے نہ نکل جائیں بلکہ ہر جماعت ، گروہ ، خاندان یا قبیلہ میں کچھ آدمی اس کام کی طرف توجہ دیں اور باقی لوگ اپنے اپنے کاروبار کی طرف متوجہ رہیں۔ کوئی زراعت یا ، تجارت کا کاروبار کرتا ہے۔ صنعت وحرفت میں مشغول ہے یا ملازمت اختیار کیے ہوئے ہے ، تو وہ اپنے اپنے مشاغل میں مصروف رہیں تا کہ بحیثیت مجموعی نظام زندگی کسی تعطل کا شکا نہ ہوجائے۔ اور جو لوگ تعلیم دین کی طرف متوجہ ہوں ، وہ علم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے خاندان ، گروہ یا قبیلے میں واپس آکر باقی لوگوں کی دینی امور میں راہنمائی کریں تا کہ وہ بھی اچھائی اور برائی میں تمیز پیدا کر کے برائیوں سے بچ سکیں۔ فریضہ جہاد : مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت کے لیے لازم ہے کہ وہ جہاد کے لیے ہر وقت مستعد رہے اور باقی لوگ اپنے اپنے کاروبار میں مصروف رہیں اس جہاد کا فریضہ سب کی طرف سے ادا ہوجائے گا۔ اور اگر پوری جاعت المسلمین میں سے کوئی شخص بھی جہاد کے لیے تیار نہ ہو تو پھر پوری کی پوری جماعت گنہگار ہوگی۔ البتہ خاص حالات میں جہاد فرض عین بن جاتا ہے۔ جب دشمن مسلمانوں کے علاقے میں حملہ آور ہوجائے تو فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں ہر مسلمان مرد ، عورت ، بچے اور بوڑھے پر جہاد فرض عین ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی پیچھے نہیں رہ سکتا بلکہ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جہاد میں حصہ لینا لازمی ہوجائے گا۔ نوجوان آگے محاذ پر دشمن کا مقابلہ کریں گے جب کہ بوڑھے لوگ سامان مہیا کرنے یا شہری نظام کو چلانے کے ذمہ دار ہوں گے ، اگر زخمیوں کی عیادت وغیرہ کے لیے یا خوراک بہم پہنچانے کے لیے عورتوں کی خدمات درکار ہوں گی تو وہ بھی اپنے حصے کا فریضہ انجام دیں گی۔ غرضیکہ ضرورت کے وقت ہر فرد پر جہاد فرض ہوجائے گا۔ فریضہ علم : جس طرح جہاد کے دو حصے ہیں۔ اسی طرح حصول علم دین بھی دو حصوں میں منقسم ہے۔ عللم دین کا بعض حصہ فرض کفایہ اور بعض حصہ فرض عین ہے۔ فرض عین وہ حصہ ہے جو ہر مرد اور عورت کے لیے حاصل کرنا لازم ہے۔ حضور ﷺ کا بہیقی شریف میں فرمان موجود ہے (آیت) ” طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم “ یعنی ہر مسلمان مرد ، عورت پر علم کا حصول فرض ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ اس میں عقیدے کی درستگی ، توحید کا جاننا ، شرک کا پہنچاننا ، رسالت پر ایمان ، قیامت پر ایمان وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ایسی بنیادی چیزیں ہیں جن پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ لہذا اس علم کا حاصل کرنا ہر عاقل بالغ کے لیے ضروری ہے۔ اور اس سے کوئی فرد بھی مستثنیٰ نہیں ہے فرضی عبادات کے متعلق علم حاصل کرنا بھی فرض عین ہے۔ نماز اور روزہ کے مسائل کا جاننا ، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی ، واجبات اور سنن کا علم وغیرہ فرض عین میں داخل ہے۔ اسی طرح حلال و حرام کی تمیز ، سود اور تجارت میں امتیاز کرنا ، حقوق العباد کا علم ہونا وغیرہ سب کے لیے ضروری ہے۔ جو شخص محض لا علمی کی بناء پر کسی فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کریگا یا کوئی غلط کام کرے گا تو وہ مجرم ہوگا ۔ علم دین کا دوسرا حصہ اسلام کی جزئیات Det:ils پر مشتمل ہے اور فرضِ کفایہ میں آتا ہے اس میں شریعت کے تفصیلی مسائل آتے ہیں۔ نماز روزہ ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کے تفصیلی مسائل ، نکاح ، طلاق ، وراثت ، صلح وجنگ وغیرہ ایسے مسائلہ ہیں جن پر عبور حاسل کرنا ہر شخص کے لیے ضروری نہیں بلکہ قوم میں سے بعض لوگ بھی اگر تفصیلی علم دین حاصل کرلیں گے اور بوقت ضرورت دوسرے لوگوں کی راہنمائی کرتے رہیں گے تو یہ فرض ادا ہوجائے گا۔ اور اگر کسی حلقے میں کوئی بھی شخص یہ تفصیلی علم حاصل نہ کرے تو سب کی سب گنہگار ہوں گے ، وجہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت ایک عام آدمی کس سے مسئلہ دریافت کریگا ؟ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ (آیت) ” فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “ اگر تمہیں کسی چیز کا علم نہیں ہے تو علم رکھنے والوں سے پوچھ لو۔ اور اگر پوری بستی میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو لوگوں کی راہنمائی کرسکے ، ان کو حق و باطل اور حرام و حلال سے آگاہ کرسکے ، ان کے نکاح طلاق اور وراثت کے مسائل حل کرے ، ان کو زکوٰۃ اور حج کی تفصیلات بتا سکے تو پھر اس لا علمی کا وبال سب پر پڑے گا۔ یہ ایسا ہی فرضِ کفایہ ہے جیسے میت کی تجہیز وتکفین اور اس کا جنازہ وغیرہ اگر یہ کام بعض مسلمان انجام دے لیں گے تو سب کی طرف سے فرض ادا ہوجائیگا اور اگر کوئی شخص بھی انجام نہیں دے گا تو سب گنہگار ہوں گے۔ علم دین کا حصول : یہاں پر چونکہ علم دین کی بات ہو رہی ہے تو مطلب یہ ہے کہ کسی شہر یا بستی کے سارے کے سارے لوگ ہی علم حاصل کرنے کے لیے تو نہیں جاسکتے۔ بلکہ نظام زندگی کو چلانے کے لیے کسی کو مزدوری کرنا ہے کسی کو کھیتی باڑی کا کام انجام دینا ہے ، کوئی تاجر ہے ، کوئی صنعت کار ہے سب کو اپنااپنا کام انجام دینا ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک دوسرے آدمی کے ساتھ شراکتی کاروبار کرتے تھے چناچہ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے ” کنا نتناوب “ ہم دونوں نوبت بنوبت یعنی باری باری حضور کی خدمت میں آتے تھے ، فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور میرا شریک کار بکریوں کو سنبھالتا ، ان کو پانی پلاتا اور کھیتی باڑی پر توجہ دیتا۔ میں دن بھر حضور ﷺ کی مجلس میں جو کچھ سنتا وہ اپنے ساتھی کو جا کر بتا دیتا۔ پھر اگلے دن میں کام کاج کی نگرانی کرتا اور میرا ساتھی دن بھر حضور کی خدمت میں حاضر رہتا ، جو آیت نازل ہوتی یا نبی (علیہ السلام) کی طرف سے حکم جاری ہوتا تو وہ مجھے آکر بتا دیتا۔ اس طرح ہم نے باری مقرر کر رکھی تھی کیونکہ اگر دونوں علم حاصل کرنے کے لیے چلے جاتے تو کاروبار کرنا ممکن نہیں رہتا تھا۔ اس آیت کریمہ میں اسی بات کو بیان کیا گیا ہے (آیت) ” وما کان المومنون لینفروا کافۃ “ اور اہل ایمان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ سارے کے سارے نکل جائیں ۔ کیونکہ اس طرح تو پورا نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اسی لیے فرمایا (آیت) ” فلو لا نفر من کل فقرۃ منھم طائفۃ “ پس کیوں کوچ نہیں کیا ہر فرقے یا جماعت میں سے ایک گروہ نے ہر بستی ، خاندان یا قبیلہ سے کچھ آدمی حصول علم کے لیے یا جہاد کے لیے چلے جاتے اور باقی لوگ زندگی کے بقیہ امور انجام دیتے۔ جہاد کے ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں دو آدمی ہیں ان میں سے ایک جہاد کے لیے چلا جائے اور دوسرا سارے گھر کا کام سنبھال لے اسی طرح ہر گھر یا بستی یا خاندان میں کچھ لوگ حصول علم کے لیے جائیں اور باقی دنیا کے کام انجام دیتے رہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا (آیت) ” لیفقھوا فی الدین “ تا کہ دین کا علم حاصل کرنے والے لوگ دین میں سمجھ پیدا کریں (آیت) ” ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم “ تا کہ جب وہ اپنی قوم کی طرف واپس لوٹیں تو ان کو ڈرائیں۔ اپنے علم کی روشنی میں انہیں نیکی اور بدی کی تمیز کرائیں۔ اور ہر برے عمل کے تنائج سے آگاہ کریں جس سے وہ ڈر جائیں اور برائی کو چھوڑ کی نیکی کی طرف راغب ہوجائیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا (آیت) ” لعلھم یحذرون “ کہ وہ لوگ دنیا وآخرت کی ناکامی اور سزا سے بچ جائیں گے۔ جب دین کی تعلیم عام ہوگی ، لوگوں کو اچھے کام کی طرف رغبت ہوگی اور برے کام سے نفرت پیدا ہو اجائیگی تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائیں گے۔ علم کا حصول کوئی معمولی کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے دور دراز کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے اور سخت محنت کرنی پڑتی ہے امام بخاری (رح) (1۔ بخاری ، ص 16 ، ج 1) (فیاض) فرماتے ہیں ” انما العلم بالتعلم “ یعنی علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ یہ یونہی گھر بیٹھے بٹھائے نہیں مل جاتا بلکہ استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا پڑتا ہے۔ علم کے حصول کے لیے محدثین کرام نے بڑی بڑی تکالیف اٹھائیں ۔ امام بخاری رح ، امام محمدرح ، مصنف عبدالرزاق (رح) وغیرہم کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حصول علم کے یے سفر طے کیے۔ راستے کی صعوبتیں برداشت کیں ، بھوکے اور پیاسے رہے۔ اس کام کے لیے عمر کا قیمتی حصہ صرف کیا ، تو تب جا کر دین میں سمجھ پیدا ہوئی ، اصل علم دین کا علم ہے۔ جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ فوز و فلاح کا ضامن ہے۔ جہاں دین کو موخر کر کے دنیا اور پیٹ کو مقدم کیا جاتا ہے۔ وہاں ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ علم فقہ : (آیت) ” لیتفقھو فی الدین “ میں تفقہ سے مراد فہم ، فقاہت اور سمجھ ہے اور فقہ سے مراد وہ اسلامی قانون ہے جسے آئمہ مجتہدین نے قرآن وحدیث سے اخذ کر کے عام امت پر سب سے زیادہ احسان امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے جنہوں نے قرآن وسنت سے ریسرچ کر کے اس علم کو مرتب کیا۔ باقی رہی یہ بات کہ بحیثیت انسان ہر شخص سے غلطی بھی ہو سکتی ہے ، کوئی بھی شخص غلطی سے پاک نہیں۔ اس بنا پر فقہ میں بھی بعض غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ان محدود غلطیوں کی وجہ سے ساری فقہ کو نفرت کا نشانہ بنانہ درست نہیں ۔ حضور ﷺ نے فقاہت کی تعریف فرمائی ہے ” من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین “ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ اور فقاہت عطا کرتا ہے (1۔ بخاری ، ص 16 ، ج 1) (فیاض) دین کی تعلیم کو ہمیشہ اولیت حاصل ہے جب کی دنیا کے علوم وفنون کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا علم محض اسباب معاش پر مبنی ہے جب کہ آخرت کی کامیابی کا انحصار علم دین پر ہے۔ اگر دین کا علم صحیح نہیں ہوگا تو گمراہی پیدا ہوگی ، فرقے پیدا ہوں گے ، لوگ گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ بہر حال فقہ ایک قابل تعریف چیز ہے جسے فقہائے کرام نے قرآن وسنت سے اخذ کر کے پیش کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک فقہ کی تعریف یہ ہے ” معرفۃ النفس مالھا وماعلیھا “ یعنی انسانی نفس کے لیے ان چیزوں کی پہچان جو اس کے حق میں مفید یا مضر ہیں۔ ترمذی شریف میں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ منافق آدمی میں دو باتیں کبھی نہیں پائی جاتیں ” حسن خلق ولا فقہ فی الدین “ ایک چیز خوش اخلاقی ہے جو منافق میں نہیں ملتی ، وہ ہمیشہ گالی گلوچ ، غیبت ، بد زبانی ، ایذارسانی وغیرہ پر آمادہ رہتا ہے۔ اور دوسری چیز تفقہ فی الدین ہے منافق کو دین کی سمجھ بھی حاصل نہیں ہوتی۔ دین کی سمجھ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے اور یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ بہتری کا ارادہ فرماتا ہے۔ محنت کی ضرورت : دین کے اصول اور فروغ کو جاننے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ امام ابو یوسف (رح) کا مقولہ ہے ” العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک “ جب تک تو علم کے لیے اپنا سب کچھ وقف نہیں کردیگا۔ اس ووت تک علم اپنا بعض حصہ بھی تمہیں نہیں دے گا۔ علم کے حصول کے لیے مال ، وقت ، توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے سلف صالحین نے اس کام پر عمریں صرف کردیں۔ محض اخبارات اور رسائل پڑھ کر کوئی شخص مجتہد نہیں بن سکتا اور نہ ریسرچ کے نام پر کفر کو اسلام اور اسلام کو کفر کا نام دے سکتا ہے ، صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دینا علم نہیں بلکہ حماقت ہے ، یہ تو بےدینی اور نفاق کی علامت ہے۔ ایسا کرنا غیر اقوام کی تقلید کا نتیجہ ہے ، اسے علم نہیں کہ سکتے۔ علم کے لیے تو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے سلف مفسرین اور محدثین باعمل لوگ تھے۔ انہوں نے دین کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں ، کتابیں لکھیں اور لوگوں کو تعلیم دی اور اس طرح دین کے پودے کی آبیاری کی۔ انگریزی نظام تعلیم میں نہ تو استاد کا احترام ہے اور نہ شاگرد کو اپنے فرائض کا علم ہے ، یہاں تو لڑکے اور لڑکیوں کے در میان اور استادوں اور شاگردوں کے درمیان معاشقے چلتے ہیں۔ گپیں لگائی جاتی ہیں ، عریانی کا دور دورہ ہوتا ہے ، یہاں ادب واحترام کا لحاظ کہاں ہوتا ہے ؟ اس کے برخلاف دینی علم کے اساتذہ اور طلباء میں ہر درجے کا ادب واحترام اور شفقت و محبت دیکھنے میں آتا ہے حضرت مولانا احمد علی لاہوری (رح) نے جمعیۃ العمائے ہند کی میٹنگ میں حضرت مولانا شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی (رح) کی موجودگی میں فرمایا تھا کہ میرے گھٹنوں میں دردہوتا تھا مگر میں شیخ کے سامنے بیٹھ کر چار چار گھنٹے تک گھٹنا تبدیل نہ کرتا کہ یہ خلاف ادب تھا۔ یہ تو ہمارے دور کے بزرگوں کا حال ہے۔ ان میں جس قدر ادب تھا ویسا ہی انہوں نے فیض بھی جاری کیا۔ علم دین کا فقدان : یہ زمانہ انحطاط کا زمانہ جا رہا ہے جس میں علم دین کی طرف رغبت ہی باقی نہیں رہی۔ جب تک صحیح علم نہیں ہوگا لوگوں کی مشکلات کا حل کیسے پیش کیا جاسکے گا۔ 1940 ء میں سیالکوٹ کی طرف پیدل سفر کرتے ہوئے ظہر کی نماز کے لیے ایک گائوں کی مسجد میں پہنچے تو پتہ چلا امام صاحب نہیں ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس علاقے کے سات گائوں کا ایک ہی امام ہے جو ہفتہ میں ایک دن ہر گائوں میں جاتا ہے اور ایک آدھ نما ز پڑھا دیتا ہے۔ البتہ نکاح ، جنازہ ، ختم وغیرہ کے لیے ضرورت ہو تو مولوی صاحب کو بلا لیا جاتا ہے انحطاط کی انتہا ہے کہ بستیوں کی بستیاں علم دین سے خالی ہیں۔ لوگ دنیا کی طرف راغب ہیں ، تفقہ فی الدین کون حاصل کریگا ؟ پنچاب کے آسودہ حال زمینداروں ، تاجروں ، صنعتکاروں اور وکلا کو دیکھ لیں۔ آج کون ہے جو اپنی اولاد کو تعلیم دین کے لیے وقف کرتا ہے سب دنیاوی تعلیم کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ یہ تو پس ماندہ علاقوں کے غریب غربا لوگ مدرسوں میں آتے ہیں۔ ان میں کچھ مفاد پرست اور خود غرض ہوتے ہیں ، تا ہم اللہ انہی میں سے بعض کو توفیق عطا کرتا ہے اور کسی حد تک تعلیمی ضروریات پوری ہوتی ہیں ورنہ عام طور پر یہ میدان خالی نظر آتا ہے۔
Top