Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
اور مومنوں کو نہ چاہیے کہ (آیندہ) سب کے سب نکل کھڑے ہوں،229۔ یہ کیوں نہ ہو کہ ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کھڑا ہوا کرے تاکہ (یہ باقی لوگ) دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں،230۔ اور تاکہ یہ اپنی قوم والوں کو جب وہ ان کے پاس واپس آجائیں ڈراتے رہیں عجب کیا کہ وہ محتاط رہی،231۔
229۔ غزوۂ تبوک کی صورت خاص تھی اس کے بعد آیندہ کے لئے مستقل ہدایت ہوگئی کہ سارے مسلمان شہر خالی کرکے ہرگز اکبارگی نہ نکل کھڑے ہوں، بجز اس حال کے کہ امام ہی نفیر عام کا حکم دے دے، اور جہاد ہر فرد پر فرض عین ہوجائے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ دینی مہم کا انتظام ایسا کرنا چاہیے کہ دوسری ضروریات جن میں امر معاش بھی داخل ہے مختل نہ ہونے پائیں۔ 230۔ (تعلیم و تعلم کے ذریعہ سے) (آیت) ” من کل فرقۃ “۔ یعنی شہر کی کل آبادی سے فرقۃ کا استعمال یہاں گروہ کثیر کے لئے ہوا ہے۔ کا ھل بلدۃ اوقبیلۃ عظیمۃ (روح) فرقۃ اے جماعۃ کثیرۃ (کشاف۔ مدارک) (آیت) ” منھم طآئفۃ۔۔ طآئفۃ “۔ کا لفظ یہاں چھوٹی جماعت کے لئے آیا ہے اور فرقۃ کے مقابل ہے۔ اے جماعۃ قلیلۃ (کشاف۔ مدارک) (آیت) ” فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طآئفۃ “۔ یعنی انتظام یہ رہنا چاہیے کہ آبادی کا ایک حصہ جہاد کے لئے باہر جائے، جنگ اور دوسری فوجی ضروریات (ملٹری ڈیپارٹمنٹ) کے لئے اور دوسرا حصہ عام ملکی وشہری ضروریات (سول ڈیپارٹمنٹ) کے لئے شہر اور ملک ہی میں رہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت میں ہر قسم کا سازو سامان تیار اور آدمی ہر قسم کی ہر ضرورت کے لئے مستعد رہنے چاہئیں تاکہ رفاہ خلق صحت نفوس نظم امت و شوکت اسلام میں کسی طرح کا فتورنہ پڑنے پائے، سپاہی، اہل قلم، اہل حرفہ، تاجر، کاشتکار وغیرہ سب ہی ملت اسلامی کے ضروری عناصر ہیں۔ (آیت) ” لیتفقوا فی الدین “۔ فقہاء مفسرین نے یہیں سے طلب علم دین کا وجوب نکالا ہے۔ ھذہ الایۃ اصل فی وجوب طلب العلم (قرطبی) وفی ھذا ایجاب التفقہ فی الکتاب والسنۃ (قرطبی) فقہاء نے لکھا ہے کہ تحصیل علم دین فرض کفایہ ہے، پس ہر شہر اور ہر گروہ میں سے ایک تعداد کا علم دین کی طلب میں لگے رہنا واجب ہے ورنہ سب عاصی ہوں گے، وفی ھذہ الایۃ دلالۃ علی وجوب طلب العلم وانہ مع ذلک فرض علی الکفایۃ (جصاص) اذا قام بہ بعضھم سقط عن الباقین (جصاص) فقہاء صوفیہ نے لکھا ہے کہ طالب علم کی غرض وغایت تفقہ فی الدین اور امر بالعروف رہنی چاہیے نہ کہ حصول جاہ جمع مال یا بحث وجدال، فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ جب جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں پر وعیدیں نازل ہونے لگیں تو اس خوف سے سارے کے سارے مسلمان جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے اس پر یہ احکام نازل ہوئے کہ ضروریات دین کی تعلیم و تعلم کے لئے بھی کچھ لوگوں کو ضرور لگے رہنا چاہیے۔ ایسا نہ ہونے پائے کہ ادھر سے غفلت ہوجائے۔ جہاد بالدلائل تو جہاد بالاسلحہ سے بھی زیادہ اہم ہے۔ استبق المومنین عن اخرھم الی النفیر وانقطعوا جمیعا عن التفقہ فی الدین فامروا ان ینفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ الی الجھاد ویبقی سائرھم یتفقھون حتی لا ینقطعوا عن التفقہ الذی ھو الجھاد الاکبر اذ الجھاد بالحجاج اعظم اثرا من الجھاد بالنصال (مدارک) 231۔ (ہر بدی اور بدکاری سے۔ اس طرح ساری قوم میں نیک کرداری کا دور دوراہ برابر قائم رہے) آج ” مہذب “ و ” شائستہ “ قوموں کی فوجیں ہر قسم کے اخلاق کی جن ناگفتہ بہ پستیوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ (اور یہی دستور شروع سے تمام جاہلی قوموں کی فوجوں کا رہا ہے) اس کا حال کس سے مخفی ہے ؟ امت اسلامی کو اس قسم کے تمام خطرات سے مستقل نجات میں رکھنا دین کے مہمات امور میں سے ہے۔ قرآن مجید کی مستقل ہدایت ہے کہ مجاہدین وغیر مجاہدین کو برابر علماحقانی اور فقہا ربانی کی تربیت اور ٹریننگ ملتی رہنی چاہیے۔ لیتفقھوا۔ ولینذروا “۔ دونوں میں جمع غائب ان لوگون کی طرف ہے جنہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس ٹھیرا رہنا تھا۔ الضمیر للمقیمین مع النبی ﷺ قالہ قتادۃ و مجاھد (قرطبی) ضمیر یتفقھوا وینذروا عائد الی الفرقۃ الباقیۃ المفھومۃ من الکلام (روح) (آیت) ” اذا رجعوا الیھم “۔ یعنی یہ مجاھدین جب جہاد و قتال سے اپنے والوں کی طرف واپس آجائیں۔ (آیت) ” ولینذروا “۔ یعنی احکام الہی سنا سنا کر اور بتا بتا کر انہیں ہر معصیت، بدکرداری، خدا فراموشی سے ڈرتے رہیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جس آبادی میں علماحقانی کا وجود نہ رہے یا وہ موجود تو ہوں لیکن ہدایت خلق کے کام سے غافل ہوں، وہ ساری آبادی گنہگار ہوگی، بدکرداری سے روکنا اور نیک کرداری کو پھیلانا فرض کفایہ ہے۔ علماء حق اس کے خصوصا ذمہ دار ہیں، گوحکم کے مخاطب سب مسلمان ہیں۔
Top