Mafhoom-ul-Quran - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے اور اس میں سمجھ پیدا کرتے، اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ بچے رہتے۔
دینی علم سیکھنے کا حکم تشریح : اس آیت میں یقینا علم کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ اسی سورت کی آیت میں دیہاتی لوگوں کی کم علمی کا ذکر کیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ روح اسلام سے ناواقف تھے بس ظاہری مضبوطی اور پھیلائو جو انہوں نے اسلام کا دیکھا تو نام کے مسلمان ہوگئے اس تعلیمی کمی کو پورا کرنا بہت ضروری تھا۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ دیہاتوں کے مختلف قبیلوں کے کچھ لوگ شہر میں آئیں علم و ادب سیکھیں اور پھر واپس جاکر اپنے لوگوں کو علم و ادب سکھائیں بجائے اس کے کہ سب لوگ ہی شہر میں آجائیں۔ جیسا کہ قرآن پاک کا سب سے پہلا مقصد اور طریقہ یہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کچھ مخصوص اور فائدہ مند ضروری اصول و قوانین بتا دیتا ہے اسی طرح علم و ادب کو پھیلانے کا بہترین طریقہ بتا دیا، یعنی ایک شخص علم میں استاد ہوجائے اور پھر وہ اپنے متعلقہ بہت سے لوگوں کو وہی علم سکھائے تو یوں بیشمار لوگ کم مشقت سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس طرح قرآن پاک نے درس و تدریس کے لیے مدرسہ سسٹم کا حکم دیا ہے۔ اس طرح علم کی روشنی جو کہ قرآن پاک سے ہی پھوٹتی ہے۔ جگہ جگہ پھیل جائے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ ایک ایسا عمدہ تحفہ دیا ہے کہ جو تمام علوم سے بھرا پڑا ہے پیدائش سے لیکر مرنے تک اور پھر مرنے کے بعد تک آسمان و زمین کی ہر چیز کی حقیقت فائدہ اور استعمال اللہ نے اس میں بیان کردیا ہے اور سب سے بڑی بات کہ ہمیں اس ذات باری تعالیٰ سے معتارف کروا دیا کہ جس نے ہمیں پیدا کیا، پرورش کیا، ہمارے لیے اتنی بڑی کائنات بنا دی کائنات کا ہر ذرہ ہمارے لیے مسخر کردیا، پھر مر کر اسی کے پاس چلے جائیں گے اور وہاں جانے کی تیاری کا طریقہ بھی سکھا دیا۔ مسلمانوں کے طریقے اتنے ارفع و اعلیٰ ہیں کہ صحرائے عرب سے ایک امی اٹھا جو کتاب و حکمت کا معلم تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور پھر یہ چھوٹی سی جماعت قرآن کی روشنی اور اللہ کے فضل سے مغرب میں سپین ہو کہ سسلی، مشرق میں ایران ہو کہ توران، چین ہو کہ جاپان شمال و جنوب غرض ہر طرف پھیلتی چلی گئی اور دنیا کو ہر قسم کے علوم و فنون سے متعارف کروا دیا۔ جہالت کا پردہ چاک کردیا اور ہر طرف نور ایمان کی روشنی میں راست بازی، رحمدلی، رواداری، عبادت، طہارت، آزادی، سماجی انصاف، ہمدردی، امن و سکون اور عام خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا اور پھر بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے جیسے امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام بخاری، امام مسلم، امام ابو داؤد، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ، وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمین۔ جنہوں نے حدیث اور فقہ کے موضوع پر کتابیں لکھیں کہ لوگ عین دین اسلام کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ مسلمانوں میں سائنس دانوں کی ایک عظیم جماعت تیار ہوئی مثلاً البیرونی طبیعات کے ماہر تھے۔ جابر خراسانی ریاضی کے ماہر تھے۔ کیمیا میں عمر خیام، ریاضی میں ابن سینا نے اسی طرح حیاتیات اور طب میں ایسی ایسی معلومات اور ایجادات کیں کہ جدید سائنس کی تمام ایجادات انہی کی مرہون منت ہیں۔ غرض اسلام عقلی، فطری اور مکمل مذہب ہے اس کی تعلیمات انسانی عقل و فہم کو بلند ترین منزلوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔ جب یہ سب کچھ اس قدر مفید ہے اور آسان بھی تو پھر کیوں نہ اس کی تعلیمات کو ہر گائوں، بستی، قصبہ، شہر، ملک اور دنیا میں پھیلایا جائے اور پھیلانے کا طریقہ مدرسہ سسٹم ہی بہترین ہے۔ وہاں سے ہر سمجھ، عقل اور رجحان رکھنے والا اپنا اپنا راستہ متعین کرکے جدوجہد کرسکتا ہے یہ نہیں کہ سب ہی عالم دین بن جائیں، مجاہد بن جائیں، تاجر بن جائیں، سائنس دان بن جائیں، ڈاکٹر بن جائیں بلکہ ہر شعبہ اپنے خاص مزاج کے مطابق اختیار کرکے اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتے ہوئے اللہ کی رضا حاصل کریں اور اپنی زندگی کو اپنے لیے اور بندگان خدا کے لیے فائدہ مند اور کامیاب بنائیں۔ اللہ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں اور لوگوں کو بھی اس سے متعارف کرائیں کیونکہ انسان کی زندگی کا ہر لمحہ ہر قدم اور ہر منزل خوفِ الٰہی سے ہی آسان اور کامیاب ہوسکتی ہے۔ وہی منزلیں آسان کرتا ہے اور وہی بخشش کرنے والا مہربان ہے۔ ہر شخص ہر وقت جہاد کرتا ہے کیونکہ جو بھی ذمہ داری اس کے سپرد کی گئی ہے وہ اس کو اللہ کی رضا سمجھ کر پوری ایمانداری، محنت اور لگن سے کرے اس کا ہر قدم جہاد میں شامل ہوگا۔ ہاں اگر ملک پر کوئی ایسی مشکل پڑجائے کہ ہر فرد کو میدان جنگ میں آنا پڑے جیسا کہ غروئہ تبوک میں ہوا تو پھر سب اس محاذ پر جمع ہوجائیں ورنہ اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے رہیں۔ استاد علم پر، ڈاکٹر طب پر، سائنس دان تحقیقات پر، عالم دین مذہب پر، غرض جو جس کام پر لگا ہوا ہے اس کو اچھی طرح سنبھالے۔ اس شعبہ کے متعلق پوری طرح علم حاصل کرے اور ایک مکمل انسان کی حیثیت سے اپنا کام سنبھالے۔ حدیث ہے۔ حضرت ابوسعید الخدری ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” جس طرح مجھے میری امت پر فضیلت حاصل ہے اسی طرح عالم کو عابد (جو عالم نہ ہو) پر فضیلت حاصل ہے۔ “ اس لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اصل علم دین کا علم ہے اگر وہ کسی کو معلوم نہیں حتٰی کہ اگر کسی کو اسلام کے بنیادی قواعد بھی نہیں آتے تو وہ جاہل ہے دنیاوی علوم میں جتنا بھی ماہر ہو، دین کا علم ہی اصل فضیلت رکھتا ہے جس کی اس آیت میں حاصل کرنے اور اس کی تبلیغ کی تلقین کی گئی ہے۔ دنیاوی علوم ہنر کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں دینی علوم کے معاون کہہ سکتے ہیں اس لیے پہلے دین کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ ” اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی نیکی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ “ ) سورة بقرہ آیت (201
Top