بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب الْحَكِيْمِ : حکمت والی
الرا، یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیتیں ہیں۔
1۔ 2۔ تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو نبی کیا تو اہل عرب پہلے تو یہ تعجب کرتے تھے کہ خدا کی طرف سے انسان نبی کیوں کر ہوسکتا ہے کوئی فرشتہ نبی ہو کر کیوں نہیں آیا جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اور اسی قسم کی آیتیں نازل فرمائیں 1 ؎ اور ان مشرکوں کی تسکین اہل کتاب کے بیان سے بھی ہوگئی کہ پہلے انبیاء بھی سب انسان ہی تھے تو پھر یہ کہنے لگے کہ { لو لآ انزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم (43، 2)} جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ مکہ میں جیسا ولید بن مغیرہ اور طائف میں مسعود بن عمرو ثقفی ہیں اسی طرح کے کسی مالدار اور شاندار آدمی پر قرآن کیوں نہیں اتارا جس پر اللہ تعالیٰ نے { اھم یقسمون رحمت ربک (43: 33)} نازل فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت ایک رحمت الٰہی ہے۔ اللہ نے اپنی مصلحت میں جس کسی کو اس رحمت کا مستحق جانا اس کو وہ رحمت مل گئی۔ رحمت الٰہی کے حصہ بانٹنے والے یہ لوگ کون ہیں اور ان کو اس حصہ بانٹنے کا حق کس نے دیا ہے۔ حروف مقطعات کی تفسیر تو سورة بقر ہمیں گذر چکی ہے۔ 2 ؎ باقی حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قرآن فصاحت و بلاغت اخبار غیب اور ہر طرح کی نصیحت میں ایسا پختہ ہے کہ اس کے ان اوصاف میں کہیں کچھ خامی نہیں ہے اسی واسطے یہ مشرکین مکہ باوجود دعوے فصاحت کے اس کے مانند کچھ کلام بنا کر پیش کرنے سے عاجز ہیں اس پر بھی جو ان لوگوں کو محمد رسول اللہ ﷺ کے رسول ہونے اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر یہاں تک تعجب ہے کہ یہ لوگ قرآن کو جادو اور اللہ کے رسول کو جادوگر بتلاتے ہیں یہ ان لوگوں کی نادانی ہے کیونکہ قرآن کے نازل ہونے سے چالیس برس پہلے یہ اللہ کے رسول ان لوگوں میں رہے کیا ان لوگوں نے کبھی یہ دیکھا ہے کہ اللہ کے رسول نے کسی جادوگر سے جادو سیکھا ہے جس کے سبب سے یہ لوگ اللہ کے کلام کو جادو اور اللہ کے رسول کو جادوگر بتلاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے صحیح قول کے موافق (ان لھم قدم صدق عند ربھم) کی تفسیر یہ ہے کہ قرآن شریف کی نصیحت پر عمل کرنے والے ایماندار لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے مرتبے عقبے میں رکھے ہیں جن کا حال قیامت کے دن ان ایماندار لوگوں کو معلوم ہوگا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ایک حدیث قدسی ابوہریرہ ؓ سے اوپر گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایماندار لوگوں کے لئے جنت میں جو سامان تیار کئے گئے ہیں وہ نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھے نہ کانوں سے سنے نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزر سکتا ہے۔ 3 ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے حوالہ سے { ان لھم قدم صدق عند ربھم } کی جو تفسیر اوپر بیان کی گئی اس حدیث سے اس کی پوری تائید ہوتی ہے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 6، 4 ج 2 2 ؎ تفسیر احسن التفاسیر جلد اول ص 69۔ 70۔ 3 ؎ صحیح بخاری ص۔ 46 ج 1۔
Top