بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Yunus : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب الْحَكِيْمِ : حکمت والی
یہ آیتیں ہیں پکی کتاب کی،
خلاصہ تفسیر
(الر کا مطلب تو اللہ کو معلوم ہے) یہ (جو آگے آتی ہیں) پر حکمت کتاب (یعنی قرآن) کی آیتیں ہیں (جو بوجہ حق ہونے کے قابل جاننے کے اور ماننے کے ہیں اور چونکہ جن پر اس کا نزول ہوا ہے ان کی نبوت کا کفار انکار کرتے تھے اس لئے جواب فرماتے ہیں کہ (کیا ان مکہ کے) لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس (جو کہ مثل ان کے بشر ہے) وحی بھیج دی (جس کا خلاصہ یہ ہے) کہ (عام طور پر) سب آدمیوں کو (احکام خداوندی کے خلاف کرنے پر) ڈرایئے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنایئے کہ ان کے رب کے پاس (پہنچ کر) ان کو پورا مرتبہ ملے گا (یعنی اگر ایسا مضمون کسی بشر پر وحی کے ذریعہ سے نازل ہوجاوے تو کوئی تعجب کی وجہ نہیں مگر) کافر (اس قدر متعجب ہوئے کہ آپ کی نسبت کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے (نبی نہیں ہے کیونکہ نبوت بشر کے لئے نہیں ہوسکتی) بلاشبہ تمہارا رب (حقیقی) اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ روز (کی مقدار) میں پیدا کردیا (پس اعلی درجہ کا قادر ہے) پھر عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا (کہ جو اس کی شان کے لائق ہے تاکہ عرش سے زمین و آسمان میں احکام جاری فرمائے، جیسا آگے ارشاد ہے کہ) وہ ہر کام کی (مناسب) تدبیر کرتا ہے، (پس حکیم بھی ہے، اس کے سامنے) کوئی سفارش کرنے والا (سفارش) نہیں (کرسکتا ہے) بدون اس کی اجازت کے (پس عظیم بھی ہوا، پس) ایسا اللہ تمہارا رب (حقیقی) ہے سو تم اس کی عبادت کرو (اور شرک مت کرو) کیا تم (ان دلائل کے سننے کے بعد) پھر بھی نہیں سمجھتے، تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اللہ نے (اس کا) سچا وعدہ کر رکھا ہے، بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی (قیامت کو) پیدا کرے گا تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے انصاف کے ساتھ (پوری پوری) جزا دے (اور اس میں ذرا کمی نہ کرے بلکہ بہت کچھ زیادہ دے دے) اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے (آخرت میں) کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا، اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے۔

معارف و مسائل
سورة یونس مکی سورتوں میں سے ہے، بعض حضرات نے اس کی صرف تین آیتوں کو مدنی کہا ہے جو ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہوئی ہیں۔
اس سورت میں بھی قرآن اور اسلام کے بنیادی مقاصد توحید، رسالت، آخرت وغیرہ کو کائنات عالم اور اس میں ہونے والے تغیرات و مشاہدات سے استدلال کرکے ذہن نشین کیا گیا ہے، اس کے ساتھ کچھ عبرت خیز تاریخی واقعات و قصص کے ذریعہ ان لوگوں کو ڈرایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان کھلی نشانیوں پر نظر نہیں کرتے اور اس کے ضمن میں شرک کا ابطال اور اس سے متعلق بعض شبہات کا جواب ارشاد ہوا ہے، یہ خلاصہ ہے مضامین سورت کا، یعنی توبہ اور اس سورت میں باہمی کیا ربط ہے، سورة توبہ میں انہی مقاصد کے لئے منکرین و کفار کے ساتھ جہاد اور کفر و شرک کی طاقت کو مادی اسباب کے ذریعہ توڑنے کا بیان تھا، اور یہ سورت چونکہ احکام جہاد کے نازل ہونے سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی اس میں مذکورہ مقاصد کو مکی دور کے قانون کے مطابق صرف دلائل و براھین کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہے۔
الر، یہ حروف مقطعہ کہلاتے ہیں جو قرآن مجید کی بہت سی سورتوں کے شروع میں آئے ہیں، الم، حم، عسق، وغیرہ ان کے معانی کی تحیقق میں مفسرین کی بحثیں طویل ہیں، صحابہ وتابعین اور جمہور سلف کی تحقیق اس قسم کے تمام حروف مقطعہ کے متعلق یہ ہے کہ یہ خاص رموز ہیں ان کے معنی غالباً رسول کریم ﷺ کو بتلائے گئے ہیں مگر آپ نے عام امت کو صرف ان علوم و معارف سے آگاہ فرمایا جن کو ان کے ذہن برداشت کرسکیں اور جن کے معلوم نہ ہونے سے امت کے کاموں میں کوئی حرج واقع ہوتا ہے، حروف مقطعہ کے رموز ایسے نہیں جن پر امت کا کوئی کام موقوف ہو یا ان کے نہ جاننے سے ان کا کوئی حرج ہو، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے بھی ان کے معانی کو امت کے لئے غیر ضروری سمجھ کر بیان نہیں فرمایا اس لئے ہمیں بھی اس کی تفتیش میں نہ پڑنا چاہئے، کیونکہ یہ امر یقینی ہے کہ اگر ان کے معانی جاننے میں ہماری مصلحت ہوتی تو رحمت عالم ﷺ اس کے بیان کرنے میں کوتاہی نہ فرماتے۔
(آیت) تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ ، میں لفظ تلک سے اشارہ اس سورت کی آیات کی طرف ہے جن کا ذکر آگے آتا ہے اور کتاب سے مراد قرآن ہے اس کی صفت اس جگہ حکیم کے لفظ سے بیان فرمائی ہے جس کے معنی اس جگہ حکمت والی کتاب کے ہیں۔
Top