بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Yunus : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب الْحَكِيْمِ : حکمت والی
’ ا لف۔ لام۔ ر ا “ یہ حکمت والی کتاب کی آیات ہیں۔
الٓرٰ قف تِلٗکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْم۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِالنَّاسَ وَبَشِّرِالِّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَرَبِّھِمْ ط قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ۔ (یونس : 2۔ 1) (” ا لف۔ لام۔ ر ا “ یہ حکمت والی کتاب کی آیات ہیں۔ کیا لوگوں کو اس بات پر حیرانی ہے کہ ہم نے وحی بھیجی انھیں میں سے ایک آدمی کی طرف کہ ڈرائو لوگوں کو اور اہل ایمان کو بشارت پہنچا دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس مرتبہ بلند ہے۔ کافروں نے کہا بلا شبہ یہ ایک کھلا ہوا جادوگر ہے۔ ) ” الر “ یہ حروف مقطعات میں سے ہے۔ مختلف سورتوں کے شروع میں قرآن کریم نے یہ حروف استعمال کیے ہیں۔ اس کا معنی اور مفہوم کیا ہے یا متکلم کی اس سے مراد کیا ہے۔ ہم سُوْرَۃُ الْبَقَرَہْ کے آغاز میں اس پر ایک جامع بحث کرچکے ہیں۔ بہتر ہے کہ اس بحث کو وہاں دیکھ لیا جائے۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ ایک حکمت والی کتاب کی آیات ہیں۔ ایک تنبیہہ یہ آیت دفع دخل مقدر کے طور پر ایک تنبیہ معلوم ہوتی ہے۔ اس سورة کے نزول کے وقت مشرکین مکہ کی مخالفت جو رنگ اختیار کرچکی تھی اس کو دیکھتے ہوئے اس تنبیہ کو سمجھنا مشکل نہیں، لیکن اگر اس صورتحال کو سامنے نہ بھی رکھا جائے جب بھی اس کتاب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر یہ تنبیہ نہ صرف سمجھ میں آنے والی بات ہے بلکہ نہایت ضروری بھی ہے۔ مشرکین مکہ کی انتہائی کوشش یہ تھی کہ اس کتاب کی آیات کو لوگوں تک پہنچنے نہ دیا جائے اور اگر کسی طرح پہنچ ہی جائیں تو دل و دماغ میں پہلے سے شک و ارتیاب کے ایسے کانٹے بو دیئے جائیں جو اس پر غور کرنے کی مہلت ہی نہ دیں۔ ویسے بھی ہر وہ نظریہ اور اس پر مشتمل کتاب جو انقلاب کا پیغام لے کر آتی اور انسان کی فکری اصلاح کے لیے اٹھتی ہے۔ اہل دنیا نے ہمیشہ اسے بدگمانیوں کے غبار میں چھپا دینے کی ناپاک کوششیں کی ہیں اور اس کیخلاف اتنی دھول اڑائی ہے کہ اس کتاب یا اس نظریئے کو پیش کرنے والا اپنی جدوجہد کا بیشتر حصہ اس غبار کو صاف کرنے میں صرف کردیتا ہے۔ قرآن کریم چونکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس کا بھیجنے والا انسانی فطرت سے بھی واقف ہے اور انسانوں کے مخفی ارادوں کو بھی جانتا ہے۔ اس لیے اس نے بجائے ان کے لایعنی خیالات اور اعتراضات کو دور کرنے کے آغاز گفتگو ہی میں دوٹوک بات فرمائی ہے اور اس کے بعد اٹھائے جانے والے اعتراضات کا ایک ایک کرکے جواب دیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں نہایت کانٹے دار جو بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ تم نے اس کتاب کے لانے والے کے بارے میں جو سوالات اٹھائے ہیں ہم ان کا جواب تو بعد میں دیں گے لیکن تم سب سے پہلے اس بات کو جانو کہ اس کتاب کی حیثیت کیا ہے۔ یہ کتاب، کتاب حکیم ہے۔ اس کی ایک ایک آیت میں حکمت کے خزانے مخفی ہیں۔ اس کا پیش کردہ نظام ہر طرح کے تضادات سے معرا ہے۔ اس کی ایک ایک بات میں انسانی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو ظن و گمان نہیں بلکہ یقین کی دولت عطا کرتی ہے۔ اس کی ہر نصیحت اور اس کا ہر حکم اپنے پیچھے حقیقت کی قوت، حقانیت کا نور اور نتائج کی فطری واقعیت رکھتا ہے۔ تم اس کے لانے والے کے بارے میں اگر یکسو نہیں ہو تو ابھی اس بحث کو اٹھائے رکھو۔ اس وقت تم سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کرو۔ اگر تم نے ان آیات کے مضمر حقائق کو جان لیا اور اس کے دروبست کو سمجھ لیاتو تمہارے ذہن کا جھاڑ جھنکار خود بخود چھٹ جائے گا کیونکہ اس کے اندر حکمت و دانش کا جو خزانہ ہے وہ خود تمہیں اپنی طرف کھینچ لے گا۔ دین رحمت ہے جس پر شکر واجب ہے دوسری آیت کریمہ میں مشرکین مکہ کے اظہارِ تعجب کا ذکر کیا جارہا ہے جسے انھوں نے اعتراض کی صورت دے رکھی تھی۔ ان کے اعتراض کے مختلف پہلو تھے۔ اعتراض کا ایک پہلو یہ تھا کہ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ محمد ﷺ یہ کہتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں لوگوں کو خبردار کردوں اور ان پر یہ بات اچھی طرح واضح کردوں کہ تم نے جس طرح خودرو پودوں کی طرح زندگی گزارنا شروع کر رکھا ہے کہ نہ تمہاری زندگی کا کوئی مقصد ہے اور نہ تمہاری زندگی کی کوئی منزل۔ تم خودبخود وجود میں آئے ہو اور ایک دن خودرو پودے کی طرح مل دل کر ختم ہوجاؤ گے۔ اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں اور زندگی میں کیے ہوئے اعمال کے بارے میں کہیں جوابدہی نہیں حالانکہ تم دیکھتے ہو کہ یہاں ہر مخلوق کی زندگی کا ایک مقصد ہے اور وہ مخلوق مقصد کے حصول میں ہمہ تن مشغول ہے۔ سورج کا کام روشنی دینا، سمندر کی بھاپ اٹھانا، ابر کی چادریں بچھانا، غلے کو پکانا اور موسموں کو وجود دینا ہے۔ چاند کا کام پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنا اور غلے میں گداز پیدا کرنا ہے۔ زمین انسان کے لیے بستر بنادی گئی ہے اور اس کی قوت روئیدگی کے خزانے انسانی نفع رسانی کے لیے لٹائے جارہے ہیں۔ اسی طرح باقی مخلوقات بھی مقصد کی ادائیگی میں شب و روز کوشاں ہیں۔ کلی چٹکتی ہے، پھول مہکتا ہے، ستارے ٹمٹماتے ہیں، پانی سیرابی کا کام کرتا ہے، آگ چولہے جلاتی ہے، غلہ بھوک مٹاتا ہے۔ ہر مخلوق کی جبلت اور فطرت میں اس کے مقصد کا شعور ودیعت کردیا گیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے قانونِ تکوینی کے تحت اس کے بجالانے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح انسان کو بھی زندگی کے مقاصد دیئے گئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسے آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ان مقاصد کی ادائیگی کرے۔ جب وہ خواہشات اور غلط مزعومات کے دبائو میں آکر زندگی کے مقاصد سے انحراف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے تو وہ اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے انسانوں کی ہدایت کا سازو سامان کرتا ہے۔ اللہ کی اس رحمت پر انسان جتنا بھی شکر بجالائے تھوڑا ہے لیکن اس کی بےبصیرتی کا کیا کہنا کہ بجائے شکر بجالانے کے اس پر اظہارِتعجب کرتا اور اعتراض اٹھاتا ہے۔ مشرکین کا اعتراض اور اس کا جواب مشرکین مکہ کے اعتراض کا دوسرا پہلویہ تھا کہ اگر اللہ کو ہماری بھلائی منظور ہے اور وہ ہماری اصلاح چاہتا ہے تو اس کے لیے کسی فرشتے کو بھیجا جاتا یا کوئی اور غیرمعمولی انتظام کیا جاتا جس کے غیرمعمولی ہونے سے انسانوں کو یقین آجاتا کہ یہ واقعی اللہ کی جانب سے ہے لیکن اس پر جتنا بھی تعجب کیا جائے تھوڑا ہے کہ ہمارے اندر سے ہم جیسے ایک انسان کو رسول بنا کر کھڑا کردیا گیا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان اپنے فکر و عمل کے اعتبار سے اپنے اندر کوئی خوبی نہیں رکھتا بلکہ مزید ستم یہ ہے کہ انسان خواہشات اور منفی جذبات کا جو طوفان اپنے جلو میں لیے پھرتا ہے اسے دیکھتے ہوئے کون تصور کرسکتا ہے کہ ہمارے جیسا ایک آدمی اللہ کا اتنا مقرب ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام اس کے دل پر اتارے اور اسے انسانوں کے لیے رسول بنادیا جائے۔ مشرکین مکہ کا تعجب درحقیقت دو باتوں کی وجہ سے تھا۔ ایک تو یہ بات کہ ان کے نزدیک انسان حقیقت میں نہایت فروتر چیز تھا۔ مخلوقات میں اس کا کوئی قابل قدر مقام و مرتبہ نہیں۔ جسم کے اعتبار سے اس سے بڑی بڑی مخلوقات موجود ہیں۔ صلاحیتوں کے اعتبار سے اس کا کوئی خاص مقام نہیں۔ پاکیزگی اور تقدس کے اعتبار سے فرشتوں کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ کہاں رسالت کا مقام اور کہاں بشریت کا مقام، ان دونوں میں کوئی مناسبت نہیں۔ یہ خلجان صرف مشرکین مکہ کو ہی لاحق نہیں ہوا بلکہ بیشتر قومیں اس کی زد میں رہیں۔ بنائے فساد یہ بات رہی ہے کہ وہ رسالت کو اللہ کے قرب کے باعث نہایت عظیم اور بےحد مقدس مقام سمجھتے تھے اور اس میں وہ یقینا حق بجانب تھے لیکن بشریت کے حوالے سے ان کے خیالات نہایت پست واقع ہوئے تھے۔ ان کے یہاں بشر ابوجہل اور ابولہب کا نام تھا اور ان کی دنیا ایسے ہی بشروں اور انسانوں سے بھری ہوئی تھی۔ چناچہ رسالت کا بلند مقام اور بشریت کا یہ انحطاط آپس میں کوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا اور یہی چیز ان کے لیے باعث تعجب تھی۔ قرآن کریم نے مختلف جگہ تاریخ میں گزرنے والی مختلف قوموں کے حوالے سے اس اعتراض کا ذکر کیا اور یہ بتایا ہے کہ یہ برائی اور گمراہی نئی نہیں، اس کی تاریخ بہت طویل ہے حالانکہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوقات پیدا فرمائی ہیں ان میں چار مخلوقات سب سے اعلیٰ ہیں۔ (1) فرشتے، (2) حیوان، (3) انسان اور (4) جنات۔ حیوان تو غیرمکلف مخلوق ہے۔ اس لیے اس کا تو ذکر ہی کیا ؟ جنات اور فرشتوں کو حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے جدِامجد حضرت آدم (علیہ السلام) کو مسجود بنا کر تمام مخلوقات سے برتر ہونے کا اعلان کردیا۔ اس سے بڑھ کر حماقت کی بات اور کیا ہوگی کہ وہ مخلوق جو تمام عزت والی مخلوقات میں افضل اور برتر ہے اسے چھوڑ کر کسی دوسری مخلوق کو نبوت دے دی جاتی۔ اب رہی یہ بات کہ انسان ہمیشہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسے کارنامے انجام دیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی عزت کا مستحق نہیں لیکن یہ نہایت سطحی سی بات ہے اس لیے کہ ایسے انسانوں کی کمی نہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے بھیجے ہوئے دین کی گواہی دیتے ہوئے اپنی جانیں دے دیں، اپنے بچے قربان کیے اور زندگی کی ہر راحت اس پر قربان کردی۔ محض اسی کے نام کی سربلندی کے لیے ایثار اور استقامت کے وہ چراغ روشن کیے جن کی روشنی آج بھی راستہ دکھا رہی ہے۔ انسان درحقیقت وہی ہیں۔ ویسے ہی انسان پیدا کرنا ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے پیش نظر رہا ہے۔ انسان جب بگڑ کر حیوان سے بھی بدتر سطح پر اتر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اپنی کتابیں بھیجتا ہے تاکہ بگڑے ہوئے انسانوں کی اصلاح کرکے انھیں حقیقی انسان بنایا جائے۔ عرب معاشرے سے بڑھ کر کوئی معاشرہ بھی بگڑا ہوا نہیں تھا لیکن آنحضرت ﷺ کی کوششوں سے ایسے انسان تیار ہوئے کہ فرشتے بھی ان کے دامن میں نماز پڑھنا فخر محسوس کرتے تھے۔ اکبراِلہٰ آبادی نے بالکل ٹھیک کہا : درفشانی نے تری قطروں کو دریا کردیا دل کو روشن کردیا آنکھوں کو بینا کردیا خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا قرآن کریم نے ایک دوسرے پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے دوسری جگہ فرمایا کہ اگر زمین میں بسنے والے فرشتے ہوتے تو ہم ان کی طرف یقینا کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے لیکن زمین میں بسنے والے چونکہ فرشتے نہیں انسان ہیں اس لیے ان کی اصلاح کے لیے انسان ہی کا آنا ضروری تھا کیونکہ اصلاح کے عمل کے لیے جانبین میں مناسبت کا ہونا ضروری ہے۔ فرشتوں کو بھوک نہیں لگتی، انھیں پیاس پریشان نہیں کرتی۔ وہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ روزے کی افادیت کیا ہے۔ فرشتے کبھی بیمار نہیں ہوتے، وہ کبھی زخمی نہیں ہوتے۔ انھیں کیا خبر کہ صبر کسے کہتے ہیں۔ ان کے اندر احساسات اور خواہشات نہیں رکھے گئے۔ وہ احساسات کی شدت اور خواہشات کی گرفت کو کیسے جان سکتے ہیں۔ انھیں کیا خبر کہ ان کی گرفت سے بچ نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ اگر ان کے کسی فرد کو انسانوں کی اصلاح کے لیے بھیجا جاتا تو غور کیجیے کہ وہ انسان کی اصلاح کیسے کرتے اور پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں نوری مخلوق بنایا ہے، وہ گناہ سے معصوم رکھے گئے ہیں تو گناہوں سے بچنے اور خواہشات پر قابو رکھنے کے لیے وہ انسانوں کو کیا اسوہ اور نمونہ مہیا کرتے۔ ایک پہلودار بات وہ ایک اور پہلودار بات بھی کہتے تھے کہ اگر کسی انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجنا تھا تو ایسے انسان کو رسول بنایا جاتا جس کی حیثیت عرفی کو تسلیم کی سند حاصل ہوتی۔ وہ کوئی بڑا مالدار آدمی ہوتایا کسی خاندان کا سردار ہوتا۔ وہ عموماً طائف کے سرداروں کی طرف انگلی اٹھاتے کہ اگر کسی کو رسالت مل سکتی تو یہ لوگ اس قابل تھے کہ ان کو رسالت دی جاتی۔ محمد ﷺ کو رسالت کیوں دی گئی ؟ وہ یتیم پیدا ہوئے۔ لڑکپن ہی میں ہر سہارا چھوٹ گیا، بکریاں چرا کر آپ ﷺ نے اپنا معاش پیدا کیا۔ ان کے والد نے معمولی وراثت کے سوا کوئی مال نہیں چھوڑا۔ بڑے ہوئے تو دوسروں کا مال لے کر تجارت شروع کی۔ آخر ان میں ایسی کیا خوبی ہے کہ سب کو چھوڑ کر ان کو رسول بنایا گیا۔ ” رسول “ کو نکرہ لا کر ایک خاص بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ دولت مند ہونا یا کسی قبیلے کا سردار ہونا یہ ایسی صلاحیت نہیں جو نبوت کے بوجھ کو اٹھا سکے۔ نبوت اور رسالت کے لیے اللہ اسے چنتا ہے جو انسانی خصائص اور ملکوتی صفات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہوتا ہے۔ انسانیت جس پر فخر کرتی ہے جو بگڑے ہوئے انسانی پتھروں کے ڈھیر میں ہیرے کی طرح چمکتا ہے، جو مشرکوں میں توحید کی مثال ہوتا ہے، جو اخلاق سے عاری معاشرے میں مکارمِ اخلاق کا نمونہ اور پاکیزگی کا مجسمہ ہوتا ہے۔ شرم و حیا سے بےبہرہ انسانوں میں ایسا حیاء دار ہوتا ہے کہ کنواری لڑکیاں بھی اس کی پاکدامنی کی قسم کھاتی ہیں۔ جس معاشرے میں بداخلاقی کا تعفن پھیلا ہوا ہے اس میں بلند ترین صفات کی خوشبو کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ انسانیت کی ہر خوبی کے لیے اس کی مثال دی جاتی ہے۔ اگر یہی فضائل اور صفات ہیں جو کسی انسان کو حقیقی انسان بناتے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے قابل بناتے ہیں تو بتائو ان صفات کی حامل ذات محمد کریم ﷺ کے سوا اور کون ہے۔ تمہیں ان کے رسول ہونے پر کس لحاظ سے تعجب ہے بلکہ تمہارے لیے یہ بات باعث اطمینان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو اپنا رسول بنایا ہے جو تمہارے ہی ایک عظیم خاندان یعنی قریش کا چشم و چراغ ہے۔ تمہارے ہی رشتوں میں سے کسی نہ کسی رشتے سے اس کا تعلق ہے۔ تمہارے سامنے اس کے شب وروز گزرے ہیں۔ تم اس کی زندگی کے ایک ایک ورق سے واقف ہو۔ تمہارا ایک ایک فرد گواہی دیتا ہے کہ وہ الامین اور الصادق ہے۔ اس کی پوری زندگی امانت اور صداقت کی تصویر ہے۔ اگر تمہیں عصبیت نے اندھا نہ کردیا ہوتا تو تم آگے بڑھ کر اس کا علم اٹھاتے اور اس پر ایمان لانے اور اطاعت کرنے میں فخر محسوس کرتے۔ یہ تمہاری کوتاہ فکری ہے کہ جو باتیں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آنحضرت ﷺ کے رسول ہونے کی دلیل تھی تم نے انھیں کو اعتراض بنا لیا۔ آپ کی بعثت کا مقصد ” اَنْ اَنْذِرِالنَّاسَ “ یہ ہے وہ مقصد جس کے لیے نبی کریم ﷺ دنیا میں تشریف لائے۔ اہل دنیا جب غفلت کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں اور ہوائے نفس کا اتباع ان کا چلن بن جاتا ہے، خواہشات کا حصول ان کی منزل ٹھہرتا ہے، بہیمانہ خصائص انسانی صفات کی جگہ لے لیتے ہیں تو پھر انسان ایک طرف اگر اللہ تعالیٰ سے کٹ جاتا ہے تو دوسری طرف باہمی انسانی تعلقات شکست و ریخت کا شکار ہوجاتے ہیں، حقوق و فرائض کی صف لپیٹ دی جاتی ہے، طاقت معاشرے کا قانون بن جاتی ہے، رشتے اپنا تقدس کھو دیتے ہیں، زندگی اپنے ہر حسن سے محروم ہو کر تباہی کے راستے کی مسافر بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے تو انسانوں کی اصلاح اور بھلائی کے لیے اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیجتا ہے۔ وہ دوبارہ انسانوں کو اللہ کے آستانے کی طرف بلاتا ہے۔ وہ زندگی کا ہر دکھ اٹھا کر انسان کی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ انھیں انذار کرتا اور خبردار کرتا ہے کہ تم تباہی کے جس راستے پر بھاگتے جارہے ہو، اگر تم نہ رکے اور تم نے پلٹنے کی کوشش نہ کی تو تم تباہ و برباد ہوجاؤ گے۔ ہر پیغمبر اسی مقصد کے لیے دنیا میں تشریف لاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ بھی اسی فرض کی ادائیگی کے لیے تشریف لائے تاکہ لوگوں کو آنے والے خطرات سے خبردار کردیں کہ تم جس طرح اپنی من مرضی کی زندگی گزار رہے ہو اور تمہیں احساس ہی نہیں کہ تمہارا کوئی آقا اور اِلٰہ بھی ہے جس نے تمہیں زندگی گزارنے کا ایک ضابطہ عطا فرمایا ہے اور ایک دن وہ تم سب کو زندہ کرے گا اور تم میں سے ہر ایک سے پوچھے گا کہ بتائو تم زندگی کیسے گزار کے آئے ہو۔ اگر تم نے آج اپنی تیاری نہ کی تو سوچ لو تمہارا انجام کیا ہوگا۔ کیونکہ تم یہاں ہمیشہ تو نہیں رہو گے، ہر ایک کو ایک نہ ایک دن یہاں سے کوچ کرنا ہے کیونکہ : کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا اور ساتھ ہی آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سے جو لوگ مجھ پر ایمان لائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ضابطہ حیات کے مطابق زندگی گزاریں گے میں انھیں بشارت دینے کے لیے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انھیں بلند مرتبہ عطا فرمائے گا۔ ” قَدَمَ صِدْقٌ“ کا معنی ہوتا ہے بلند مرتبہ کیونکہ قدم تو قدم ہی کے معنی میں ہے یعنی مرتبہ، اور صدق رسوخ، استحکام اور تمکن پر دلیل ہے۔ یعنی ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ ایسے عزت کے مقام، بلند مرتبہ اور لازوال سرفرازی سے نوازے گا کیونکہ آنحضرت ﷺ پر ایمان، توحید کا اقرار، آخرت پر یقین اور شریعت کی پابندی جس طرح آخرت میں سرخروئی کا باعث ہے، اسی طرح دنیا میں بھی بہتر زندگی اور عزت کا مقام انھیں حقائق سے وابستہ ہے۔ تاریخ بھی شاہد ہے کہ جب کبھی انسان نے اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنایا، اس کے رسولوں کی اطاعت کی اور زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے گزاری تو اللہ تعالیٰ نے انھیں جس طرح آخرت میں سرخرو فرمایا، اسی طرح دنیاوی سرفرازیاں بھی ان کے قدموں کی خاک بن گئیں۔ آپ کے کمالات کو سحر کہا گیا ” وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا الَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ۔ “ اور کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے۔ کافروں کو ایک تو تعجب اس بات پر تھا کہ ایک بشر اور انسان اللہ کا رسول کیسے ہوگیا۔ رسالت ایک بہت بلند مرتبہ ہے اور بشریت نہایت فروتر چیز ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بشر جیسی فروتر مخلوق اللہ کی رسالت اور پیغام بری کی حامل ٹھہرے اور دوسرا تعجب انھیں اس بات پر تھا کہ ایک ایسا شخص جوا نہیں میں پیدا ہوا، انھیں میں پلابڑھا، انھیں کے ماحول میں اس نے تربیت پائی، انھیں کے معروفات اور منکرات سے آگاہی حاصل کی۔ اسی معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کا وہ وارث بنا لیکن انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کی خوبیاں، اس معاشرے میں ناپید دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے کردار کا اجلاپن کہیں اور نظر نہیں پڑتا۔ اس معاشرے کی برائیاں اسے چھو کر بھی نہیں گزریں۔ وہ معاشرہ اپنے اندر علم کی کوئی خوبی نہیں رکھتا اور یہ شخص اپنی زبان سے ایسے جو اہرپارے اگل رہا ہے جس کی مثال کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ وہ ایسی علم و حکمت کی باتیں قرآن کی شکل میں لوگوں کے سامنے بیان کررہا ہے جس کی خبر دنیا میں کسی ایک شخص کو بھی نہیں۔ اس کی زبان سے فصاحت و بلاغت کے پھول جھڑتے ہیں۔ حکمت کا سوتا پھوٹتا ہے۔ آنے والی دنیا کے بارے میں اس تیقن سے بات کہتا ہے۔ گویا وہ اس کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ اس کی ایک ایک بات اور ایک ایک ادا موہ لینی والی بھی ہے اور حیران کردینے والی بھی۔ ان تمام باتوں سے صحیح نتیجہ اخذ کرنے کی بجائے ان کے نفس امارہ نے انھیں یہ سجھایا کہ یہ کردار کی پاکیزگی غیرمعمولی فصاحت و بلاغت بیان و دہن کی شیرینی عالم بالا اور عالم آخرت کی خبریں یہ اس شخص کے رسول ہونے کی دلیل نہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک بہت بڑا جادوگر ہے۔ اس کا لاجواب کردینے والا کلام درحقیقت ایک شعبدہ بازی ہے۔ اس کے غیرمعمولی کمالات سحر کا نتیجہ ہیں۔ اس طرح سے وہ درحقیقت لوگوں میں آنحضرت ﷺ کے کمالات اور آپ ﷺ کی تبلیغ و دعوت کی تاثیر اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب کی اثرآفرینی کا توڑ کرنا چاہتے تھے۔ وہ جب دیکھتے کہ لوگ اس سے اثر قبول کرتے ہیں تو وہ اسے بےاثر کرنے کے لیے انھیں یقین دلاتے کہ ان میں کوئی بات بھی حقیقت نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک جادو ہے جو کسی بھی چیز کو کچھ سے کچھ بنا کے دکھا سکتا ہے۔ الفاظ کی شعبدہ بازی ہے جو وقتی طور پر سننے والے کو حیران کردیتی ہے۔ اس طرح سے ان کی کوشش یہ ہوتی کہ اپنے عوام کو آنحضرت ﷺ اور قرآن کی تاثیر سے بچایا جائے حالانکہ ان کے شرفاء بھی یہ بات جانتے تھے کہ قرآن کریم ایک غیرمعمولی کتاب ہے۔ اس کے الفاظ، اس کے جملے، جملوں کی ترکیب، اس کے محاورات، اس کا اندازِبیان، اس کا دروبست، اس کی ضرب الامثال، اس کی تلمیحات، اس کے بیان کی ندرت، اس کے خطبات کی اثرآفرینی، ان میں سے ایک ایک بات زبان وبیان کے تیورشناس کو متأثر کردینے کے لیے کافی تھی۔ عرب اپنی تمام برائیوں کے باوجود زبان وبیان کی خوبیوں سے واقف تھے۔ اس لیے کوئی بھی اچھا قصیدہ کوئی بھی نثری شہ پارہ یا کوئی فصیح وبلیغ خطبہ اس کے لیے جادوکا اثر رکھتا تھا۔ قرآن کریم چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس لیے اس کے اندر زبان وبیان کی ایسی خوبیاں جمع تھیں جس نے اس کو معجز بنادیا تھا۔ عرب اس کو سمجھتے تھے لیکن ان کی عصبیت اور جاہلیت پر ضد، انھیں ادھر آنے نہیں دیتی تھی۔ اس لیے جب بھی انھیں کوئی اس صورتحال سے نکلنے کا سہارا نظر آتا تو فوراً اسے قبول کرلیتے۔ چناچہ ان کے گمراہ کرنے والے لیڈروں نے جیسے ہی ان کو یہ سہارا دیا کہ یہ سب کچھ شعبدہ بازی اور سحر کا کمال ہے تو انھوں نے اسے اپنے لیے کافی سمجھا۔ ساحر کی پھبتی آپ ﷺ پر چسپاں نہیں ہوتی مشرکین مکہ نے آنحضرت ﷺ کو جادوگر قرار دے کر اپنے تئیں آپ ﷺ کی شخصیت اور آپ ﷺ کے پیغام کی اثرآفرینی کو بےاثر کردیا تھا لیکن وہ یہ بات سمجھ نہ سکے کہ ساحر اور جادوگر کی پھبتی آنحضرت ﷺ پر کسی طرح بھی چسپاں نہیں ہوتی اور اگر کسی پر ایسی پھبتی کسی جائے جو اس کے حسب حال نہ ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کہنے والا نہایت نامناسب آدمی ہے۔ یہی حال مشرکین مکہ کا بھی معلوم ہوتا ہے۔ ان میں اتنی عقل نہیں کہ وہ پھبتی کسنے سے پہلے تقابل و تطابق کرکے دیکھ لیں کہ کیا ہم جو کر رہے ہیں یہ جامہ آپ ﷺ پر راست بھی آتا ہے یا نہیں۔ مشرکین مکہ نے آپ کو جادوگر ان معنوں میں قرار دیا تھا کہ آپ ﷺ کی شخصیت دلوں میں اترتی جاتی ہے اور آپ ﷺ کا کلام دماغوں میں اپنی جگہ بنائے بغیر نہیں رہتا۔ یہ غیرمعمولی تاثیر یقینا کسی جادو کا نتیجہ ہے حالانکہ وہ یہ بات بھول گئے کہ جادوگر محض دنیا بنانے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے جادو کا کھیل کھیلتے ہیں۔ ان کا ذاتی کردار نہایت قابل نفرت ہوتا ہے۔ ان کے دائیں بائیں رہنے والے لوگ برے طوراطوار کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے پیش نظر اپنی دنیا بنانے کے سوا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ کا نبی اپنی دعوت کے نتیجے میں دنیا بناتا نہیں بلکہ اپنی دنیا اجاڑتا ہے۔ وہ لوگوں سے منفعت حاصل نہیں کرتا بلکہ لوگوں کی سیرت و کردار کی تعمیر کرتا ہے۔ جو شخص اس کے جتنا قریب ہوتا ہے وہ اتنا ہی ارفع و اعلیٰ مقاصد کا حامل اور مصفا ومجلا سیرت و کردار کا پیکر ہوتا ہے۔ اس کی ذات ایثار و قربانی کی پیکر اور لوگوں کی بھلائی کی حریص ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کی اذیت رسانیوں کو صرف اس لیے خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے تاکہ لوگ اس کے جذبہ ہمدردی اور خیرخواہی سے متاثر ہو کر راہ راست اختیار کرلیں۔ وہ اپنا وقت، اپنا مال حتیٰ کہ بعض دفعہ پوری زندگی لوگوں کی ہدایت کے لیے صرف کردیتا ہے۔ اس کے دن لوگوں کو سمجھاتے گزرتے اور راتیں ان کے لیے دعائوں میں گزرتی ہیں۔ ایسی ذات عزیز کو جادوگروں سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں اس کے کمالات شعبدہ بازی نہیں بلکہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم کا ظہور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جادو کا جواب ممکن ہوتا ہے اور اس کا توڑ کیا جاسکتا ہے لیکن پیغمبر کا معجزہ عاجز کردینے والا ہوتا ہے اور اس کے کمالات حرف آخر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں حجت بن کر آتا ہے۔ اس کی شخصیت اور اس کے پیغام سے دنیا پر اتمام حجت کردیا جاتا ہے۔ اس طرح سے اس کا وجود اہل دنیا کے لیے روح کی مانند ہوتا ہے کہ اسی سے ان کی زندگی وابستہ ہوتی ہے اور اگر خدانخواستہ لوگوں نے بدنصیبی کا راستہ اختیار کیا تو موت ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ان حقائق کو دیکھتے ہوئے جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے نبی پر ساحر کی پھبتی کستا ہے اس سے زیادہ کم عقل اور متعصب کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
Top