Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 39
یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ١ۖۚ وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ
يَمْحُوا : مٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَيُثْبِتُ : اور باقی رکھتا ہے وَعِنْدَهٗٓ : اور اس کے پاس اُمُّ الْكِتٰبِ : اصل کتاب (لوح محفوظ)
خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسکو چاہتا ہے) قائم رکھتا ہے۔ اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے۔
39۔ جب قریش نے آنحضرت ﷺ سے وہ معجزات چاہے جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گزرا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا اوپر کا ٹکڑا نازل فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ کسی معجزہ کا ظاہر کردینا رسولوں کا کام نہیں ہے مصلحت وقت کے موافق اللہ کی درگاہ میں ہر کام کے لئے وقت مقرر ہو کر لکھا جا چکا ہے جب تک وہ وقت مقرر پہنچ نہ جاوے اور اللہ کا حکم نہ ہو کوئی کام نہیں ہوسکتا یہ سن کر قریش نے آپس میں چرچا کیا کہ محمد ہر وقت عذاب الٰہی سے جو ڈراتے تھے اب معلوم ہوگیا کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہر کام کا لکھا ہوا وقت جب تک نہ آوے کچھ نہیں ہوسکتا اسی طرح جب ایک آیت اتر کر پھر وہ منسوخ ہوجاتی اور اسی کی جگہ دوسرا حکم آجاتا تو قریش یہ بھی چرچا کرتے تھے کہ قرآن اللہ کی طرف سے ہوتا تو یہ گھڑی گھڑی کا ردو بدل اس میں نہ ہوتا معلوم ہوتا ہے کہ محمد اپنی طرف سے ایک بات کہہ دیتے ہیں پھر جب جی چاہتا ہے تو اس کی جگہ دوسری بات کہہ دیتے ہیں ان کے ان چرچوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ ٹکڑا آیت کا نازل فرمایا حاصل معنے اس کے یہ ہیں کہ رمضان میں ہر شب قدر کو سال بھر تک جو کچھ ہونے والا ہے اس کا حساب و کتاب لوح محفوظ سے نقل کرا کے اللہ تعالیٰ ملائکہ کو دیتا ہے اسی کے موافق سال بھر تک ملائکہ عمل کرتے ہیں یہ ایک سال کا دنیا بھر کا حساب ہے اور جس مدت تک دنیا چلے گی وہ دنیا کی عمر تک کا حساب ہے وہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور چار مہینے کا حمل ہوجانے کے بعد ماں کے پیٹ کے بچے کا حساب جو رزق عمر نیک و بد ہونے کا لکھا جاتا ہے اور پھر بچہ میں روح پھونکی جاتی ہے جس کی روایت صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے ہے۔ یہ ہر ایک انسان کا عمر بھر کا حساب ہے سال بھر کے حساب کا پر چہ ملنے سے پہلے ملائکہ کو ہر ایک انسان کا عمر بھر کا حساب تفصیل سے نہیں معلوم ہوتا مثلاً خلفاً اربعہ کی والدہ کی حمل کی مدت چار مہینے کے ہوجانے کے بعد پتلے میں روح پھونکنے سے پہلے ملائکہ کو یہ تو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ چاروں شخص اپنی عمر کا کچھ حصہ شرک میں بسر کر کے پھر مسلمان ہوں گے اور ایسی حالت میں وفات پائیں گے کہ نبی کے بعد ان کا ہی درجہ ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ عمر بھر کے کون سے سال میں یہ ایمان لاویں گے سالانہ حساب کا پر چہ ملنے کے بعد ہر ایک بات کی سالانہ تفصیل دنیا میں ظاہر ہونے سے پہلے ملائکہ کو معلوم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سالانہ پر چہ ملنے سے پہلے جو کچھ لوح محفوظ میں لکھا وہ سوا خدا کے کوئی نہیں جانتا اب رہی یہ بات کہ ردو بدل لوح محفوظ کے حساب اور عمر بھر کے حساب اور سالانہ حساب سب میں ہوسکتا ہے یا نہیں حضرت عمر ؓ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ اور متقدمین کا یہ مذہب ہے کہ ہاں اللہ کی قدرت میں سب کچھ ہے وہ ان تینوں حسابوں میں سے جس حساب کی جس بات کو چاہے بدل بدل سکتا ہے۔ ترمذی صحیح ابن حبان مستدرک حاکم وغیرہ میں چند صحابہ سے معتبر روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ سوا دعا کے تقدیر کسی چیز سے نہیں بد ل سکتی اور سوا نیکی کے عمر کسی چیز سے نہیں بڑھ سکتی اور گناہ کے سبب سے گنہگار شخص وہ رزق گھٹ جاتا ہے جو اس کے مقسوم میں ہے، ان حدیثوں سے حضرت عمر اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کے مذہب کی پوری تائید ہوتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے قریش کو دھمکایا اگرچہ اللہ کی بارگاہ میں ہر کام کا وقت مقرر ہے مگر جس نے وہ وقت ٹھہرایا ہے وہی اس وقت کے بدل ڈالنے اور وقت سے پہلے تم کو ہلاک کردینے پر قادر ہے اس لئے مصلحت وقت کے موافق جس طرح وہ احکام شریعت کو بدلت رہتا ہے اگر اسی طرح کسی مصلحت سے وقت مقررہ عذاب کو منسوخ فرما کر دوسرا وقت وہ باری تعالیٰ ٹھہراوے تو تمہارا کیا بس چل سکتا ہے اس واسطے سرکشی چھوڑو اور اس کے عذاب سے ہر وقت ڈرتے رہو۔
Top