Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 39
یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ١ۖۚ وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ
يَمْحُوا : مٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَيُثْبِتُ : اور باقی رکھتا ہے وَعِنْدَهٗٓ : اور اس کے پاس اُمُّ الْكِتٰبِ : اصل کتاب (لوح محفوظ)
مٹاتا ہے اللہ جو چاہے اور باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب
(آیت) يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ۔ ام الکتب کے لفظی معنی اصل کتاب کے ہیں مراد اس سے وہ لوح محفوظ ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا
معنی آیت کے یہ ہیں کہ حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے ثابت اور باقی رکھتا ہے اور اس محو و اثبات کے بعد جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے جس پر نہ کسی کی دسترس ہے نہ اس میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
ائمہ تفسیر میں سے حضرت سعید بن جبیر ؓ اور قتادہ ؓ وغیرہ نے اس آیت کو بھی احکام و شرائع کے محو و اثبات یعنی مسئلہ نسخ کے متعلق قرار دیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جو ہر زمانے اور ہر قوم کے لئے مختلف رسولوں کے ذریعہ اپنی کتابیں بھیجتے ہیں جن میں احکام شریعت اور فرائض کا بیان ہوتا ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ سب احکام دائمی ہوں اور ہمیشہ باقی رہیں بلکہ قوموں کے حالات اور زمانے کے تغیرات کے مناسب اپنی حکمت کے ذریعہ جس حکم کو چاہتے ہیں مٹا دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں ثابت اور باقی رکھتے ہیں اور اصل کتاب بہرحال ان کے پاس محفوظ ہے جس میں پہلے ہی سے یہ لکھا ہوا ہے کہ فلاں حکم جو فلاں قوم کے لئے نازل کیا گیا ہے یہ ایک میعاد کے لئے یا خاص حالات کی بنا پر ہے جب وہ میعاد گذر جائیگی یا وہ حالات بدل جائیں گے تو یہ حکم بھی بدل جائے گا اس ام الکتب میں اس کی میعاد اور وقت مقرر بھی پوری تعیین کے ساتھ درج ہے اور یہ بھی کہ اس حکم کو بدل کو کونسا حکم لایا جائے گا اس سے یہ شبہ بھی جاتا رہا کہ احکام خداوندی کبھی منسوخ نہ ہونے چاہئیں کیونکہ کوئی حکم جاری کرنے کے بعد منسوخ کرنا علامت اس کی ہے کہ حکم جاری کرنے والے کو حالات کا اندازہ نہ تھا اس لئے حالات دیکھنے کے بعد اس کو منسوخ کرنا پڑا اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کی شان اس سے بلند وبالا ہے کہ کوئی چیز اس کے علم سے باہر ہو کیونکہ تقریر مذکور سے معلوم ہوگیا کہ جس حکم کو منسوخ کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف اتنی مدت کے لئے جاری کیا گیا ہے اس کے بعد بدلا جائے گا اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کسی مریض کا حال دیکھ کر کوئی حکیم یا ڈاکٹر ایک دوا اس وقت کے مناسب حال تجویز کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس دوا کا یہ اثر ہوگا اس کے بعد اس دوا کو بدل کر فلاں دوسری دوا دی جائے گی خلاصہ یہ ہے کہ اس تفسیر کے مطابق آیت میں محو و اثبات سے مراد احکام کا منسوخ ہونا اور باقی رہنا ہے۔
اور ائمہ تفسیر کی ایک جماعت سفیان ثوری وکیع وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اس آیت کی دوسری تفسیر نقل کی جس میں مضمون آیت کو نوشتہ تقدیر کے متعلق قرار دیا ہے اور معنی آیت کے یہ بیان کئے گئے ہیں کہ قرآن و حدیث کی تصریحات کے مطابق مخلوقات کی تقدیریں اور ہر شخص کی عمر اور زندگی بھر میں ملنے والا رزق اور پیش آنے والی راحت یا مصیبت اور ان سب چیزوں کی مقداریں اللہ تعالیٰ نے ازل میں مخلوقات کی پیدائش سے بھی پہلے لکھی ہوئی ہیں پھر بچہ کی پیدائش کے وقت فرشتوں کو بھی لکھوا دیا جاتا ہے اور ہر سال شب قدر میں اس سال کے اندر پیش آنے والے معاملات کا چٹھا فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر فرد مخلوق کی عمر رزق حرکات و سکنات سب متعین ہیں اور لکھے ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس نوشتہ تقدیر میں سے جس کو چاہتے ہیں مٹا دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں باقی رکھتے ہیں وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ یعنی اصل کتاب جس کے مطابق محو و اثبات کے بعد انجام کار عمل ہونا ہے وہ اللہ کے پاس ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔
تشریح اس کی یہ ہے کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اعمال سے انسان کی عمر اور رزق بڑھ جاتے ہیں بعض سے گھٹ جاتے ہیں صحیح بخاری میں ہے کہ صلہ رحمی عمر میں زیادتی کا سبب بنتی ہے اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ بعض اوقات آدمی کوئی ایسا گناہ کرتا ہے کہ اس کے سبب رزق سے محروم کردیا جاتا ہے اور ماں باپ کی خدمت و اطاعت سے عمر بڑھ جاتی ہے اور تقدیر الہی کو کوئی چیز بجز دعاء کے ٹال نہیں سکتی
ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عمر یا رزق وغیر کسی کی تقدیر میں لکھ دیئے ہیں وہ بعض اعمال کی وجہ سے کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں اور دعا کی وجہ سے بھی تقدیر بدلی جاسکتی ہے اس آیت میں اسی مضمون کا بیان اس طرح کیا گیا کہ کتاب تقدیر میں لکھی ہوئی عمر یا رزق یا مصیبت یا راحت وغیرہ میں جو تغیر و تبدل کسی عمل یا دعا کی وجہ سے ہوتا ہے اس سے مراد وہ کتاب ہے تقدیر ہے جو فرشتوں کے ہاتھ یا ان کے علم میں ہے اس میں بعض اوقات کوئی حکم کسی خاص شرط پر معلق ہوتا ہے جب وہ شرط نہ پائی جائے تو یہ حکم بھی نہیں رہتا اور پھر یہ شرط بعض اوقات تو تحریر میں لکھی ہوئی فرشتوں کے علم میں ہوتی ہے بعض اوقات لکھی نہیں ہوتی صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے جب وہ حکم بدلا جاتا ہے تو سب حیرت میں رہ جاتے ہیں اس طرح کی تقدیر معلق کہلاتی ہے جس میں اس آیت کی تصریح کے مطابق محو و اثبات ہوتا رہتا ہے لیکن آیت کے آخری جملہ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ نے بتلادیا کہ اس تقدیر معلق کے اوپر ایک تقدیر مبرم ہے جو ام اللکتاب میں لکھی ہوئی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ صرف علم الہی کے لئے مخصوص ہے اس میں وہ احکام لکھے جاتے ہیں جو شرائط اعمال یا دعاء کے بعد آخری نتیجہ کے طور پر ہوتے ہیں اسی لئے وہ محو و اثبات اور کمی بیشی سے بالکل بری ہے (ابن کثیر)
Top