Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 39
یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ١ۖۚ وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ
يَمْحُوا : مٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَيُثْبِتُ : اور باقی رکھتا ہے وَعِنْدَهٗٓ : اور اس کے پاس اُمُّ الْكِتٰبِ : اصل کتاب (لوح محفوظ)
خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے
یمحو اللہ ما یشآء وئثبت اللہ جو کچھ چاہتا ہے ‘ مٹاتا اور جو کچھ چاہتا ہے ‘ ثابت (برقرار) رکھتا ہے۔ (1) [ طبرانی نے ضعیف سند سے بیان کیا کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا ‘ آپ فرما رہے تھے : اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے قائم رکھتا ہے ‘ سوائے بدبختی اور خوش بختی اور زندگی اور موت کے (یعنی ان چاروں چیزوں کو نہیں بدلتا) ابن مردویہ نے حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت سے حضرت رباب کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ رزق (کی وسعت و کثرت) کو مٹا بھی دیتا ہے اور رزق میں زیادتی بھی کردیتا ہے اور عمر (کی میعاد) کو مٹا بھی دیتا ہے اور اس میں زیادتی بھی کردیتا ہے۔ ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے آیت یمحو اللہ ما یشاء الخ کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا : یہ ہر شب قدر میں ہوتا ہے۔ اللہ (مرتبہ) اٹھاتا ہے اور پناہ (یعنی دوزخ سے پناہ) دیتا ہے اور رزق دیتا ہے ‘ سوائے زندگی اور موت اور شقاوت وسعادت کے کہ ان میں تبدیلی نہیں کرتا (از مؤلف (رح) ) ۔] اس آیت کے مطلب میں اختلاف ہے۔ سعید بن جبیر اور قتادہ نے فرمایا : جن فرائض و احکام کو اللہ چاہتا ہے ‘ منسوخ کردیتا ہے اور بدل دیتا ہے اور جن کو چاہتا ہے ‘ منسوخ نہیں کرتا۔ آیت لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ کا یہی مطلب مناسب ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : لوح محفوظ میں سے جو کچھ چاہتا ہے ‘ مٹا دیتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے ‘ اس میں ثبت کردیتا ہے۔ لوح محفوظ کی جو تحریر مٹانے کے قابل ہوتی ہے جس کو تقدیر معلق کہا جاتا ہے ‘ اس کو مٹا دیتا ہے اور اس کی جگہ دوسری چیز پیدا کردیتا ہے خواہ اس قضاء کا معلق ہونا لوح محفوظ میں درج ہو یا نہ ہو ‘ صرف اللہ کے علم میں پوشیدہ ہو اور تحریر لوح مٹانے کے قابل نہیں ہوتی جس کو تقدیر مبرم کہتے ہیں ‘ اس کو نہیں مٹاتا۔ قضاء مبرم رد نہیں ہوتی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ جو چاہتا ہے ‘ مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے ‘ قائم رکھتا ہے سوائے رزق اور عمر اور سعادت و شقاوت کے ‘ یعنی یہ امور نہیں بدلے جاتے۔ بغوی نے لکھا ہے : ہم کو حضرت حذیفہ بن اسید کی روایت سے یہ فرمان رسول پہنچا ہے کہ استقرار نطفہ کے چالیس یا پینتالیس دن کے بعد ایک فرشتہ داخل ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے : اے میرے رب ! یہ شقی ہے یا سعید ؟ یہ دونوں باتیں لکھ دی جاتی ہیں ‘ پھر فرشتہ کہتا ہے : اے رب ! یہ نر ہے یا مادہ ؟ یہ دونوں امور بھی لکھ دئیے جاتے ہیں۔ پھر اس کا عمل ‘ اثر ‘ عمر اور رزق لکھ دیا جاتا ہے ‘ پھر یہ تحریریں لپیٹ دی جاتی ہیں جن کے اندر اس کے بعد نہ زیادتی ہوتی ہے نہ کمی۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعود کی روایت سے آیا ہے کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور آپ سچے تھے اور اللہ کی طرف سے آپ کو سچا بنایا گیا تھا کہ آدمی کی بناوٹ ماں کے پیٹ میں چالیس روز تک بصورت نطفہ ‘ پھر اتنے ہی روز بصورت علقہ (لوتھڑا ‘ خون جما ہوا) پھر اتنی ہی مدت بصورت مضغہ (گوشت کی بوٹی) رہتی ہے ‘ پھر اللہ اس کی طرف ایک فرشتہ چار باتوں کیلئے بھیجتا ہے۔ فرشتہ اس کا عمل ‘ اس کی زندگی ‘ اس کا رزق اور اس کا شقی (دوزخی) یا سعید (جنتی) ہونا لکھ دیتا ہے ‘ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ بغوی نے حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود کا قول نقل کیا ہے ‘ دونوں حضرات نے فرمایا : اللہ سعادت و شقاوت کو بھی مٹا دیتا ہے اور رزق و مدت حیات کو بھی اور کچھ ثابت رکھتا ہے۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر کعبہ شریف کا طواف کرنے میں رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے : اے اللہ ! اگر تو نے مجھے اہل سعادت میں لکھا ہے تو ان میں قائم رکھ (میرا نام ان کی فہرست سے نہ مٹا) اور اگر تو نے میرے لئے شقاوت لکھ دی ہے تو میرا نام (اہل شقاوت کی فہرست سے) مٹا دے اور اہل سعادت و مغفرت میں لکھ دے۔ بلاشبہ تو جو کچھ چاہے ‘ مٹا دیتا ہے اور جو کچھ چاہے ‘ قائم رکھتا ہے۔ تیرے ہی پاس ام الکتاب (اصلی کتاب ‘ ہر چیز کا تحریر نامہ) ہے۔ ایسی ہی روایت حضرت ابن مسعود سے بھی آئی ہے۔ بعض آثار میں آیا ہے : کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض آدمیوں کی عمر کے تیس سال باقی ہوتے ہیں لیکن جب وہ قرابت کو قطع کرتا ہے (قطع رحم کرتا ہے) تو لوٹا کر تیس سال کے تین دن کر دئیے جاتے ہیں اور بعض آدمیوں کی عمر کے تین دن باقی رہتے ہیں اور وہ کنبہ کی پرداخت (صلۂ رحمی) کرتا ہے تو تین دن کھینچ کر تیس سال کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ اثر نقل کرنے کے بعد بغوی نے حضرت ابو درداء کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (آدمی کی عمر کے جب صرف تین گھنٹے رہ جاتے ہیں تو) اللہ رات کے آخری تین گھنٹوں میں نزول اجلال فرماتا ہے اور کتاب مندرج شدہ کو پہلے گھنٹہ میں ملاحظہ فرماتا ہے کہ اس کے سوا کوئی بھی اس کتاب کو نہیں دیکھ سکتا۔ پس جو کچھ چاہتا ہے ‘ مٹا دیتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے ‘ ثبت فرما دیتا ہے (یا برقرار رکھتا ہے) ۔ ابن مردویہ راوی ہیں کہ حضرت علی نے اس آیت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : میں اس کی تفسیر کر کے تیری آنکھیں ٹھنڈی کروں گا اور اپنے بعد آنے والی اپنی امت کی آنکھیں بھی اس کی تشریح سے ٹھنڈی کر دوں گا۔ صدقہ کرنا ‘ صحیح طور پر ماں باپ سے اچھا سلوک اوراقسام خیر ‘ بدبختی کو نیک نصیبی سے بدل دیتے ہیں اور عمر بڑھا دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں : حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود کی روایت کے مطابق مقامات مجددیہ میں ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ ایک شخص ملاّ طاہر لاہوری تھے ‘ حضرت مجدد صاحب (رح) کے دونوں صاحبزادگان حضرت محمد سعید اور حضرت محمد معصوم کے معلم تھے۔ حضرت مجدد قدس سرہٗ نے بنظر کشف ملاحظہ فرمایا کہ ملاّ طاہر کی پیشانی پر لکھا ہے : مُلاّ طاہر لاہوری شقی۔ حضرت نے اس کا ذکر اپنے لڑکوں سے کردیا (یا صاحبزادگان تو ملاّ طاہر کے شاگرد تھے ہی ‘ اسلئے انہوں نے حضرت سے درخواست کی کہ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ اللہ اس شقاوت کو مٹا کر سعادت سے بدل دے۔ حضرت نے فرمایا : میں نے لوح محفوظ میں لکھا دیکھا ہے کہ یہ قضاء مبرم ہے جس کو بدلا نہیں جاسکتا۔ لڑکوں نے دعا کرنے کیلئے اصرار کیا تو حضرت مجدد نے فرمایا : مجھے یاد آیا کہ حضرت غوث الثقلین شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی نے فرمایا تھا : میری دعا سے قضاء مبرم بھی بدل دی جاتی ہے ‘ اس لئے میں دعا کرتا ہوں اور بارگاہ الٰہی میں عرض کرتا ہوں : اے اللہ ! تیری رحمت وسیع ہے ‘ تیرا فضل کسی ایک پر ختم نہیں ہوجاتا ‘ میں تجھ سے امید کرتا ہوں اور تیرے ہمہ گیری فضل سے درخواست کرتا ہوں کہ میری دعا قبول فرما لے اور ملاّ طاہر کی پیشانی سے شقاوت کی تحریر مٹا کر اس کی جگہ سعادت کے نقوش ثبت کر دے ‘ جیسے تو نے میرے آقا (حضرت غوث اعظم) کی دعا قبول فرمائی تھی۔ حضرت مجدد قدس سرہٗ کا بیان ہے : اس دعا کے بعد وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آگیا کہ گویا میری نظر کے سامنے لفظ شقی ملاّ طاہر کی پیشانی سے مٹا کر اس کی جگہ سعید لکھ دیا گیا اور اللہ کیلئے یہ بات دشوار نہیں۔ حضرت مفسر کا بیان ہے : اس تقریر کے بعد میرے دل میں ایک اشکال پیدا ہوگیا کہ کسی کی دعا سے قضاء مبرم کے ٹل جانے کا معنی ہی کیا ہوسکتا ہے ؟ اگر قضاء مبرم بھی ٹل جاتی ہے تو وہ مبرم ہی کب ہوئی ‘ ایسی قضاء کو مبرم کہنا ہی غلط ہے۔ اس اشکال کا جواب اللہ نے میرے دل میں اس طرح القاء کیا کہ قضاء معلق دو طرح کی ہوتی ہے : ایک وہ جس کا معلق ہونا لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے ‘ دوسری وہ قضاء جس کا مبرم ہونا لوح محفوظ میں درج نہیں ‘ اس کا معلق یا مبرم ہونا صرف اللہ کے علم میں ہے۔ لوح محفوظ میں چونکہ اس کی تعلیق مکتوب نہیں ‘ اسلئے (تحریر لوح کے اعتبار سے) اس کو قضاء مبرم کہا جاتا ہے۔ حضرت غوث الثقلین نے جس قضاء مبرم کا اپنی دعا سے بدل جانا ذکر کیا ہے ‘ اس سے مراد یہی قضا ہے جو لوح محفوظ میں (مبرم یعنی) غیر معلق ہے اور علم الٰہی میں معلق (غیر مبرم) ہے۔ مُلاّ طاہر کی بدبختی بھی اسی قسم کی تھی۔ لوح میں غیر معلق یعنی مبرم تھی ‘ لیکن اللہ کے علم میں معلق (غیر مبرم) تھی ‘ اسلئے بدل دی گئی۔ وا اللہ اعلم ضحاک اور کلبی نے آیت یَمْحُوْ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَئثْبِتُ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ کراماً کاتبین آدمی کے تمام افعال و اقوال اپنے رجسٹروں میں لکھ لیتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے اعمال و اقوال بھی ہوتے ہیں جن کا نہ کوئی ثواب ہوتا ہے نہ عذاب۔ مثلاً کوئی کہتا ہے : میں نے کھالیا ‘ میں نے پی لیا ‘ میں وہاں گیا ‘ میں گھر سے نکلا۔ یہ کلام اگر سچا ہوتا ہے تو اس پر نہ ثواب مرتب ہوتا ہے نہ عذاب اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو موجب ثواب و عذاب ہوتے ہیں۔ اوّل قسم کی اندراجات کو اللہ کراماً کاتبین کے رجسٹروں سے مٹا دیتا ہے اور دوسری قسم کی تحریروں کو قائم رکھتا ہے۔ کلبی نے اتنا مزید بیان کیا کہ جمعرات کے دن ایسے لاحاصل اعمال و اقوال مٹائے جاتے ہیں۔ عطیہ نے حضرت ابن عباس کا قول تشریح آیت کے ذیل میں اس طرح بیان کیا کہ جو شخص اللہ کی اطاعت کرتا ہے ‘ لیکن آخر میں نافرمانی کرنے لگتا ہے اور اسی گمراہی پر مرجاتا ہے تو اللہ اس کے سابق نیک اعمال مٹا دیتا ہے اور جو شخص مرتے دم تک اطاعت پر قائم رہتا ہے ‘ اللہ اس کی نیکیاں قائم رکھتا ہے۔ مسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمام آدمیوں کے سارے دل ایک آدمی کے دل کی طرح رحمن کی ایک چٹکی میں ہیں ‘ جس طرح چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ پھر حضور ﷺ نے یہ دعا کی : اے اللہ ‘ اے دلوں کو پھیر دینے والے ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے (یعنی اپنی طاعت پر قائم رکھ) ۔ حسن نے آیت کی تفسیر اس طرح کی : جس کی موت کا وقت آجاتا ہے ‘ اللہ اس کو لے جاتا ہے ‘ یعنی (اس کی زندگی کا نقش) مٹا دیتا ہے اور جس کی موت کا وقت نہیں آیا ہوتا ‘ اس کو قائم رکھتا ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : اللہ اپنے بندوں کے جو گناہ چاہتا ہے معاف کردیتا ہے ‘ مٹا دیتا ہے اور جو گناہ چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ‘ معاف نہیں کرتا۔ عکرمہ نے کہا : اللہ اپنے بندوں کے جو گناہ توبہ سے معاف کرنا چاہتا ہے ‘ مٹا دیتا ہے اور گناہوں کے بدلے نیکیاں ثبت کردیتا ہے۔ اس نے خود دوسری آیت میں فرمایا ہے : اُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّءَاتِھُمْ حَسَنَاتٍ ۔ مسلم نے حضرت ابوذر کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن بعض آدمیوں کی پیشی ہوگی تو حکم ہوگا : اس کے سامنے اس کے صغیرہ گناہ رکھو۔ حسب الحکم صغیرہ گناہ اس کے سامنے لائے جائیں گے اور کبیرہ گناہ مخفی رکھے جائیں گے اور کہا جائے گا : فلاں دن تو نے یہ یہ کام کئے تھے۔ وہ شخص اقرار کرتا جائے گا ‘ انکار نہیں کرے گا مگر کبائر سے خوف زدہ رہے گا۔ کبائر اس سے پوشیدہ رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ہر گناہ کی جگہ اس کو ایک نیکی دے دو ۔ بندہ عرض کرے گا : میرے گناہ تو اور بھی تھے جو میں یہاں نہیں دیکھتا۔ راوی کا بیان ہے : یہ فرمانے کے وقت میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہنس دئیے کہ آپ کی کچلیاں بھی نمودار ہوگئیں۔ مؤلف نے کہا میں کہتا ہوں : شاید یہ عمل ان لوگوں کیلئے ہوگا جو محبوبیت کے سمندر میں غرق ہیں ‘ صاف بدن ‘ عالی قدر صوفی ہیں۔ سدی نے کہا : (مطلب یہ ہے کہ) اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے ‘ یعنی چاندنی کو مٹا دیتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے ثابت کرتا ہے ‘ یعنی سورج یا دھوپ کو لے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کا اس آیت میں اظہار کیا ہے ‘ فرمایا ہے : فَمَحَوْنَآ ٰایَۃَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَآ ٰایَۃَ النَّھَارِ مُبْصِرَۃً ہم نے رات کی نشانی (یعنی چاندنی) مٹا دی اور ہم دن کی نشانی نظروں کے سامنے لے آئے۔ ربیع نے کہا : اس آیت کے مطلب کا تعلق ارواح سے ہے۔ اللہ سونے کی حالت میں ارواح کو قبض کرلیتا ہے ‘ اس کے بعد جس کو موت دینا چاہتا ہے ‘ اس کی روح کو روک لیتا ہے اور جس کو زندہ رکھنا چاہتا ہے ‘ اس کی روح واپس لوٹا دیتا ہے۔ اللہ نے خود فرمایا ہے : اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِی لَمْ تَمتْ فِیْ مَنَامِھَاالخ۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے : جو اعمال ریاکاری اور شہرت کے حصول کیلئے کئے جاتے ہیں ‘ اللہ ان کو کراماً کاتبین کے رجسٹر سے مٹا دیتا ہے اور جو اعمال خالص اللہ کیلئے کئے جاتے ہیں ‘ ان کو قائم رکھتا ہے۔ بعض علماء نے یہ مطلب بیان کیا کہ اللہ ایک قوم کو مٹاتا ہے اور دوسری قوم کو قائم رکھتا ہے۔ وعندہ ام الکتب اور اسی کے پاس اُمّ الکتاب ہے۔ اُمّ الکتاب ‘ کتاب کی اصل (جڑ) اُمّ الکتاب سے مراد ہے : ا اللہ کا علم۔ حضرت ابن عباس نے جب حضرت کعب سے اُمّ الکتاب کا معنی دریافت کیا تو حضرت کعب نے فرمایا : علم الکتاب (یعنی اللہ کا علم) عکرمہ نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ کے پاس دو کتابیں ہیں : ایک کتاب تو وہ ہے جس میں محو و اثبات ہوتا ہے (کچھ برقرار رکھا جاتا ہے ‘ کچھ مٹا دیا جاتا ہے) دوسری اُمّ الکتاب ہے ‘ اس کے مندرجات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ بغوی نے کہا : اُمّ الکتاب لوح محفوظ ہے جس کے مندرجات میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ عطاء نے کہا کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ کی ایک لوح محفوظ ہے (اتنی بڑی کہ) بقدر پانچ سو برس کی راہ کے (اس کی لمبائی ہے) یا سفید موتی کی بنی ہوئی ہے ‘ اس کے دونوں پٹھے یاقوت کے ہیں۔ اللہ روزانہ تین سو تیس بار اس کو ملاحظہ فرماتا ہے ‘ جو کچھ چاہتا ہے ( اس میں سے) مٹا دیتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے۔
Top