Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 56
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِدْرِيْسَ : ادریس اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کرو وہ بھی نہایت سچے نبی تھے
56۔ 57:۔ حضرت ادریس ( علیہ السلام) کے نسب میں علماء کا بڑا اختلاف ہے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول جو بغیر سند کے معلق طور پر بیان کیا گیا ہے 1 ؎۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادریس ( علیہ السلام) اور الیاس ایک ہی پیغمبر کے نام ہیں اس صورت میں حضرت ادریس گویا بنی اسرائیل میں کے ایک پیغمبر ہیں کیونکہ حضرت الیاس تو حضرت ہارون کے پڑپوتے ہیں بعضے مفسر کہتے ہیں کہ حضرت ادریس حضرت آدم ( علیہ السلام) کے پوتے ہیں اس آخری قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے کیونکہ اس معلق قول کی سند قوی نہیں ہے اسی طرح حضرت ادریس کے زندہ آسمان پر جانے میں اور اب ان کے زندہ ہونے میں اور اس میں کہ سورج پر جو فرشتہ متعین ہے اس سے ان کی دوستی ہو کر اس کے ذریعہ آسمان پر گئے۔ علماء کے مختلف قول ہیں حاصل کلام یہ ہے کر مرفوع حدیث تو اس باب میں کوئی نہیں ہے مگر اس اختلاف کے رفع کرنے میں مجاہد بن جبیر کا یہ قول قوی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ادریس زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے 2 ؎۔ لیکن اس اسرائیلی روایت کے متعلق حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے۔ کیونکہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ مجاہد نے تین دفعہ سارا قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے تفسیر سیکھنے کی غرض سے پڑھا ہے اور یہ بھی اوپر گزر چکا ہے کہ متقدمین مفسرین میں سے سفیان ثوری نے یہ فیصلہ کردیا ہے تفسیر کے باب میں مجاہد کا قول سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ رہا مجاہد کے قول میں یہ احتمال کہ مجاہد کی تفسیر کے باب میں جو کچھ روایت ہے وہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے اور تفسیر ابن ابی حاتم میں خود حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے جو اس بات میں روایت ہے وہ کعب احبار کا قول ہے اور اہل کتاب سے روایت کا لینا بخاری وغیرہ میں جو روایت ہے 3 ؎۔ اس سے منع ہے اس کا جواب یہ ہے کہ حرام حلال کے باب میں اہل کتاب سے روایت کا لینا منع ہے جہاں یہ منع کی روایت حدیث بخاری میں ہے وہیں ابن بطال وغیرہ شارحین بخاری نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اس طرح کے تاریخی واقعات اس منع میں داخل نہیں ہے 4 ؎۔ خود اللہ تعالیٰ نے فاسئلوا اھل الذکر فرما کر اسی طرح کی تاریخی روایت کا اہل کتاب سے لینا جائز فرمادیا ہے کس لیے کہ اصلی شان نزول آیت فاسئلوا ھل الذکر کی یہی ہے کہ جس کو شبہ ہو وہ اہل کتاب سے پوچھ لے کہ رسول ہمیشہ سے آدمی ہی آتے رہے ہیں فرشتے کبھی نہیں آئے ادریس (علیہ السلام) کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو یوں قائل کیا ہے کہ یہود کو یہ لوگ اہل کتاب مانتے ہیں اور یہود کی کتاب توریت میں ادریس (علیہ السلام) کے انسان اور نبی ہونے کا ذکر موجود ہے پھر یہ لوگ کس سند سے یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ اللہ کا رسول انسان نہیں ہوسکتا فرشتہ ہونا چاہیے۔ 1 ؎ صحیح بخاری 470 ج کتاب النبیاء۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیرص 162 ج 3۔ 3 ؎ صحیح بخاری ص 194 ج 2۔ 4 ؎ فتح الباری ص 697 ج 6۔
Top