Mazhar-ul-Quran - Maryam : 56
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِدْرِيْسَ : ادریس اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور اس کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ ایک سچا نبی تھا
حضرت ادریس (علیہ السلام) کا بیان اور ان سے شروع ہونے والے علوم وفنون کا بیان حضرت ادریس (علیہ السلام) کا نام اخنوخ ہے، اور آپ حضرت نوح (علیہ السلام) کے والد کے دادا ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ آپ کے والد حضرت شیث بن آدم ہیں۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں۔ کپڑوں کے سینے اور سلے ہوئے کپڑوں کے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی۔ آپ سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے ، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے، اور علم نجوم و حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں۔ یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازل کئے، اور کتب الہیہ کی کثرت درس کے باعث آپ کا نام ادریس ہوا، اور آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب معراج میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کو آسمان چہارم پر دیکھا ۔ حضرت کعب احبار وغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) نے ملک الموت سے فرمایا کہ میں موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں ، کیا ہوتا ہے۔ تم میری روح قبض کر کے دکھاؤ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے روح قبض کر کے اسی وقت آپ کی طرف لوٹا دی، آپ زندہ ہوگئے۔ فرمایا کہ اب مجھے جہنم دکھاؤ تاکہ خوف الہی زیادہ ہو۔ چناچہ یہ بھی کیا گیا، جہنم دیکھا ۔ پھر آپ نے مالک داروغہ سے فرمایا کہ دروازہ کھولو میں اس سے گزرنا چاہتا ہوں چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر سے گزرے۔ پھر آپ نے ملک الموت سے فرمایا کہ مجھے جنت دکھاؤ۔ وہ آپ کو جنت میں لے گئے۔ آپ دروازہ کھول کر جنت میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر انتظار کر کے ملک الموت نے کہا کہ آپ اپنے مقام پر تشریف لے چلئے، فرمایا :" اب میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کل نفس ذائقۃ الموت تو وہ تو میں چکھ ہی چکا ہوں، اور یہ بھی فرمایا ہے وان منکم الا واردھا کہ ہر شخص کو جہنم پر سے گزرنا ہے تو میں گزر چکا۔ اب جنت میں پہنچ گیا اور جنت میں پہنچنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ جنت سے نکالے نہیں جائیں گے۔ اب مجھے جنت سے چلنے کے لئے کیوں کہتے ہو " اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو وحی فرمائی کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) نے جو کچھ کہا میرے اذن سے کہا، اور وہ میرے اذن سے جنت میں داخل ہوئے، انہیں چھوڑ دو وہ جنت میں ہی رہیں گے، چناچہ آپ وہاں زندہ ہیں۔
Top