Dure-Mansoor - Maryam : 56
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِدْرِيْسَ : ادریس اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں ادریس کو یاد کیجئے بلاشبہ وہ صدیق تھے نبی تھے۔
1:۔ حکم نے سمرہ ؓ سے روایت کیا کہ ادریس (علیہ السلام) سفید لمبے قد کے آدمی تھے پیٹ موٹا، سینہ چوڑا، جسم پر تھوڑے بال اور سر پر زیادہ بال تھے ایک آنکھ دوسری آنکھ سے بڑی تھی اور ان کے سینے پر ایک سفید داغ تھا برص کے علاوہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کا ظلم اور احکام الہی میں حدود سے تجاوز کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو چھٹے آسمان پر اٹھا لیا اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ورفعنہ مکانا علیا “۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن عمر وبن العاص ؓ سے روایت کیا کہ ادریس (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) سے پہلے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ کہیں (لیکن انہوں نے عمل کیا) جو چاہا اور (ماننے سے) انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کی فرشتہ سے ملاقات : 3:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” ورفعنہ مکانا علیا “۔ کے بارے میں روایت کیا کہ ادریس (علیہ السلام) ایک درزی تھے اور سوئی نہیں چبھوتے مگر فرماتے تھے ” سبحان اللہ “ اور وہ شام کرتے تو زمین پر کوئی شخص ان سے افضل عمل کرنے والا نہ ہوتا ایک دن رب کے فرشتوں میں سے ایک فرشتے نے اجازت مانگی اور عرض کیا اے میرے رب ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں ادریس (علیہ السلام) کے پاس نیچے اتروں اس کو اجازت دے دی گئی وہ ادریس (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو سلام کیا اور کہا میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے باتیں کروں انہوں نے فرمایا تو مجھ سے کیسے باتیں کرے گا تو فرشتہ ہے اور میں انسان ہوں پھر ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تیرے اور ملک الموت کے درمیان کوئی تعلق ہے ؟ فرشتے نے کہا کہ موت میں تقدیم اور تاخیر ممکن نہیں لیکن میں عنقریب اس سے تیرے لئے بات کروں گا کہ وہ موت کے وقت تیرے ساتھ نرمی کرے گا فرشتے نے کہا میرے پروں کے درمیان سوار ہوجائیے تو ادریس (علیہ السلام) سوار ہوگئے وہ ان کو اوپر آسمان کی طرف لے گیا اس کے پروں کے درمیان ادریس (علیہ السلام) نے ملک الموت سے ملاقات کی فرشتے نے ملک الموت سے کہا تیری طرف میری ایک حاجت ہے اس نے کہا میں تیری حاجت تو جانتا ہوں تو مجھ سے ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں بات کرے گا اور میں ان کا نام صحیفہ میں سے مٹا چکا ہوں اور ان کی موت صرف ایک آنکھ کے پلک جھپکنے کی دیر رہ گئی اس فرشتے کے پروں کے درمیان ادریس (علیہ السلام) وفات پاگئے۔ 4:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں کعب ؓ سے ادریس (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بارے میں پوچھا (جس کو فرمایا گیا) (آیت) ” مکانا علیا “ تو انہوں نے فرمایا ادریس (علیہ السلام) متقی آدمی تھے ان کے نیک اعمال (اتنے زیادہ) اوپر اٹھائے جاتے تھے کہ اس زمانہ میں زمین والوں میں سے کسی کے اتنے نیک اعمال اوپر نہیں اٹھائے جاتے تھے اس فرشتے نے تعجب کیا جو ان کے نیک اعمال اوپر لے جاتا تھا اس نے اپنے رب سے اجازت لی اور عرض کیا اے میرے رب ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں تیرے بندے کے پاس جاوں اور اس کی زیارت کروں اس کو اجازت دے دی گئی وہ نیچے اترا اور کہا اے ادریس خوشخبری وہ کیونکہ آپ کے نیک اعمال (اتنے زیادہ) اٹھائے جاتے ہیں کہ زمین والوں میں سے کسی کے بھی (اتنے اعمال) نہیں اٹھائے جاتے ادریس (علیہ السلام) نے پوچھا تجھے کیسے علم ہوا ؟ اس نے کہا میں فرشتہ ہوں اور میں اس دروازہ پر ہوتا ہوں کہ جس دروازے سے آپ کے اعمال اوپر جاتے ہیں آپ نے فرمایا اگر تو فرشتہ ہے تو کیا میری ملک الموت سے سفارش کرے گا کہ میری موت کو موخر کردے تاکہ میں شکر اور عبادت زیادہ کرسکوں ؟ فرشتے نے کہا (آیت) ” ولن یوخر اللہ نفسا اذا جاء اجلھا “ (یعنی اللہ تعالیٰ کسی کو موت کو موخر نہیں کرتا جب اس کا وقت آجائے) فرمایا میں (اس بات) کو جانتا ہوں لیکن میں نے اپنے آپ کو تسلی دینے کے لئے ایسا کیا ہے فرشتے نے ان کو پروں پر اٹھایا اور ان کو آسمان کی طرف لے گیا اور کہا اے ملک الموت یہ متقی آدمی ہیں اور نبی ہیں ان کے نیک اعمال (اتنے زیادہ) اوپر چڑھتے ہیں کہ زمین والوں میں سے کسی کے بھی (اتنے اعمال) اوپر نہیں چڑھتے ان کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی مجھے میرے رب نے ان کی پاس اجازت عطا فرمایا جب میں نے اس بات کی ان کو خوشخبری دی تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ میں ان کے لئے تیری طرف سفارش کروں تاکہ تو ان کی موت کو موخر کردے تاکہ یہ شکر اور عبادت میں اور زیادہ ہوجائیں ملک الموت نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ (تیرے ساتھ) اس نے کہا ادریس (علیہ السلام) ہیں ملک الموت نے اپنے ساتھ کتاب میں دیکھا یہاں تک کہ ان کے نام کے ساتھ گذرے تو کہا اللہ کی قسم ادریس (علیہ السلام) کی عمر میں سے کچھ بھی باقی نہیں اس نے اسے مٹا دیا اور اسی جگہ ان کی وفات ہوگئی۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا یا گیا : 5:۔ ابن ابی حاتم نے اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” ورفعنہ مکانا علیا “۔ کے بارے میں فرمایا کہ ان کو چھٹے آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور وہاں ہی وہ وفات پاگئے۔ 6:۔ ترمذی، ابن منذر اور ابن مردویہ نے (ترمذی نے صحیح بھی کہا ہے) قتادہ ؓ سے (آیت) ” ورفعنہ مکانا علیا “۔ کے بارے میں فرمایا کہ ہم کو انس بن مالک ؓ نے بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب مجھے اوپر آسمان پر لے جایا گیا تو میں نے ادریس (علیہ السلام) کو چوتھے آسمان پر دیکھا۔ 7:۔ ابن مردویہ نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (آیت) ” ورفعنہ مکانا علیا “۔ کے بارے میں فرمایا کہ وہ چوتھے آسمان پر ہیں۔ عبد بن حمید نے مجاہد اور ربیع سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ادریس (علیہ السلام) کو اوپر اٹھایا گیا جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھایا گیا اور ان کو موت نہیں آئی۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے سند حسن کے ساتھ ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ادریس (علیہ السلام) ہی الیاس (علیہ السلام) ہیں۔ 10:۔ ابن منذر نے عمر مولی غفرہ سے روایت کیا کہ اور وہ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ ادریس (علیہ السلام) نبی تھے متقی تھے اور گناہوں سے پاک تھے اور انہوں نے اپنے وقت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا تین دن وہ لوگوں کو خیر سکھاتے تھے اور چار دن زمین کی سیاحت کرتے تھے اور اللہ کی خوب عبادت کرتے تھے ان اکیلے کے نیک اعمال سارے انسانوں کے اعمال کے برابر بلند ہوتے تھے اور ملک الموت ان سے اللہ کے لئے محبت کرتے تھے اور ان کے پاس آتے تھے جب آپ سیاحت کے لئے باہر نکلے ملک الموت ان کے پاس آئے اور ان سے کہا اے اللہ کے نبی ! میں چاہتا ہوں کہ مجھے اپنی صحبت ومعیت کی اجازت عطا فرمائیں ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا اور وہ اسکو نہیں پہچانتے تھے کہ تو ہرگز میری صحبت میں رہنے کی طاقت نہیں رکھے گا اس نے کہا کیوں نہیں میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس پر طاقت دیں گے ملک الموت اسی دن آپ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب وہ دن کے آخر میں ایک گڈریے کے پاس سے گذرے ملک الموت نے ادریس (علیہ السلام) سے کہا اے اللہ کے نبی ہم نہیں جانتے کہ کہاں ہم شام کریں گے اگر ہم ان بکریوں میں سے ایک بکری کا بچہ لے لیتے تو ہم اس سے افطار کرلیتے ادریس (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا پھر اس قسم کی بات نہ کرنا تو مجھے ناجائز مال کی دعوت دے رہا ہے ہماری شام جہاں بھی ہوگی وہاں اللہ تعالیٰ ہم کو رزق عطا فرمادے گا جب شام ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس رزق بھیج دیا جو ان کے پاس آیا کرتا تھا ملک الموت سے فرمایا آپ آگے بڑھئے اور کھائیے ملک الموت نے کہا نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبوت کے عزت دی میں خواہش نہیں رکھتا ادریس (علیہ السلام) نے کھایا اور دونوں نماز کی طرف کھڑے ہوگئے ادریس (علیہ السلام) سست پڑگئے تھک گئے اکتاگئے اور اونگھنے لگے اور ملک الموت نہ سست پڑے نہ تھکے اور نہ اونگھے ادر ادریس (علیہ السلام) نے ان پر تعجب کیا اور فرمایا میں تو یہ خیال کرتا تھا کہ میں لوگوں میں عبادت پر سب سے زیادہ طاقتور ہوں اور یہ شخص تو مجھ سے زیادہ طاقتور ہے پاس اپنی عبادت کو حقیر سمجھنے لگے جب اس آدمی کی عبادت کو دیکھا پر دونوں صبح کو چل نکلے جب دن کا آخری حصہ ہوا تو ایک انگور کے باغ سے گذرے ملک الموت نے ادر ادریس (علیہ السلام) سے فرمایا اے اللہ کے نبی اگر ان انگوروں کا ایک گچھا ہم لے لیتے (تو اچھا تھا) کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہم شام کہا کریں گے ادر ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے اس بات سے تجھ کو منع نہیں کیا تھا جہاں ہماری شام ہوگی اللہ تعالیٰ ہمارا رزق بھیج دے گا جب شام ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس رزق کو بھیج دیا جو ان کے پاس آیا کرتا تھا ادر ادریس (علیہ السلام) نے کھایا ملک الموت سے فرمایا آجاؤ کھالو ملک الموت نے فرمایا نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبوت کے ساتھ عزت دی اے اللہ کے نبی ! میں خواہش نہیں رکھتا ادر ادریس (علیہ السلام) حیران ہوئے پھر دونوں نماز کی طرف کھڑے ہوگئے ادر ادریس (علیہ السلام) پھر سست پڑگئے تھک گئے اکتاگئے اور اونگھنے لگے اور ملک الموت نہ سست پڑے نہ تھکے اور نہ اونگھے ادریس (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تو آدم کی اولاد میں سے نہیں ہے ملک الموت نے کہا ہاں میں آدم کی اولاد میں سے نہیں ہوں ادریس (علیہ السلام) نے پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں ملک الموت ہوں ادریس (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا میرے بارے میں کوئی حکم دیا گیا ہے ؟ ملک الموت نے کہا اگر آپ کے بارے میں کوئی حکم دیا جاتا تو میں آپ کو مہلت نہ دیتا لیکن میں آپ سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں اور میں آپ کی صحبت میں رہوں گا ادریس (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اے ملک الموت تو میرے ساتھ تین دن رات رہا تو نے مخلوق میں سے کس کی روح قبض نہیں کی اس نے کہا کیوں نہیں ؟ اس ذات کی قسم جس نے نبوت کے ساتھ آپ کو عزت دی اے اللہ کے نبی جس وقت سے آپ دیکھ رہے ہیں میں آپ کے ساتھ ہوں اور میں جانوں کو بھی قبض کرتا ہوں جس کا حکم دیا جاتا ہے خواہ زمین کی مشرقوں اور اس کی مغربوں میں سے ہو اور ساری دنیا میرے سامنے ایک دسترخوان کی طرح ہے جو آدمی کے آگے ہو اپنے ہاتھ کو بڑھاتا ہوں تاکہ اس میں سے جو چاہوں لے لوں ادریس (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اے ملک الموت میں آپ سے سوال کرتا ہوں اس ذات کے واسطے سے کہ جس کی وجہ سے تو نے مجھ سے محبت کی مگر یہ کہ میری حاجت کو پورا کر کہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ملک الموت نے ان سے کہا مجھ سے سوال کیجئے اے اللہ کے نبی جو آپ چاہتے ہیں ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ تو مجھے موت کا مزہ چکھا اور میری روح اور میرے جسم کے درمیان جدائی ڈال دے یہاں تک کہ میں موت کا مزہ پاوں پھر میری روح کو میری طرف لوٹا دینا ملک الموت نے کہا میں اس پر قدرت نہیں رکھتا مگر یہ کہ اس بارے میں میرا رب مجھے اجازت دے ادریس (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا اس بارے میں اجازت لے لو ملک الموت اپنے رب کے پاس اوپر چڑھ گئے ان کو اجازت دے دی گئی انہوں نے ان کی جان قبض کرلی اور ان کی روح اور ان کے جسم کے درمیان جدائی ڈال دی ادریس (علیہ السلام) مر کر گرپڑے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو ان کی طرف لوٹا دیا ملک الموت ان کے چہرہ کو پونچھنا شروع کیا اور وہ فرما رہے تھے اے اللہ کے نبی میرا یہ ارادہ نہیں تھا کہ میری صحبت میں آپ کو ایسا حصہ ملے جب افاقہ ہوا تو ملک الموت نے پوچھا اے اللہ کے نبی موت کا ذائقہ کیسے پایا ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا اے ملک الموت جو میں کہتا اور سنتا تھا یہ تو میرے بیان کرنے اور سننے سے بہت عظیم ہے پھر فرمایا اے ملک الموت مجھے آپ سے ایک اور کام ہے پوچھا وہ کیا ہے ؟ فرمایا تو مجھ کو آگ دکھا یہاں تک کہ میں اس کو سرسری نظر سے دیکھ لوں ملک الموت نے ان سے فرمایا آپ کا آگ سے کی تعلق ؟ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس کو نہ دیکھیں گے اور آپ آگ والوں میں سے نہیں ہیں فرمایا کیوں نہیں لیکن میں اس کا ارادہ رکھتا ہوں تاکہ میں ہوجاوں سخت ڈرانے والا اور خوف کرنے والا اس سے ملک الموت جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کی طرف چلے کسی داروغہ کو آواز دی تو انہوں نے اس کا جواب دیا اور انہوں نے پوچھا تو کون ہے ؟ فرمایا میں ملک الموت ہوں تو دوزخ کے داروغوں پر کپکپی طاری ہوگئی کہنے لگے کیا ہمارے بارے میں کوئی حکم دیا گیا ہے ملک الموت نے فرمایا اگر تمہارے بارے میں حکم دیا جاتا تو میں تم کو مہلت نہ دیتا لیکن اللہ کے نبی ادریس (علیہ السلام) نے مجھ سے سوال کیا کہ تم اسے ایک نظر جہنم دکھاؤ انہوں نے آپ کے لئے سوئی کے ناکے کے برابر کھولا تو اس کی اتنی گرمی اور لو آپ کو لگی کہ آپ بےہوش ہوگئے ملک الموت نے کہا اس کو بند کردو تو انہوں نے دوزخ کو بند کردیا ملک الموت نے ان کے چہرے کو پونچھا اور فرما رہے تھے اے اللہ کے نبی بس اس بات کو پسند نہیں کرتا تھا کہ آپ کو میری صحبت سے ایسا نصیب ؍حصہ ملے جب ان کو افاقہ ہوا تو ملک الموت نے ان سے فرمایا اے اللہ کے نبی آپ نے کیسے دیکھا ؟ فرمایا اے ملک الموت میں دوزخ کے متعلق کہتا اور سنتا تھا اچانک وہ بہت بڑی تھی ان باتوں سے جو میں کہتا اور سنتا تھا ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا اے ملک الموت میری ایک اور حاجت باقی ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور باقی نہیں ہے پوچھا وہ کیا ہے ؟ فرمایا تو مجھے جنت میں سے ایک سرسری نظر دکھادے ملک الموت نے ان سے فرمایا اے اللہ کے نبی آپ خوش ہوجائیے بلاشبہ آپ اگر اللہ نے چاہا تو آپ اس کے رہنے والے بہترین لوگوں میں سے ہیں اور بلاشبہ اگر اللہ نے چاہا آپ کی آرام گاہ اور لوٹنے کی جگہ وہی ہوگی فرمایا اے ملک الموت میں پسند کرتا ہوں کہ میں اس کی طرف دیکھوں اور شاید وہ میرے شوق میری حرص اور میری طلب کو اور زیادہ کرنے والی بن جائے تو ملک الموت جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کی طرف گئے اور ان کے بعض نگرانوں کو آواز دی انہوں نے ان کو جواب دیتے ہوئے پوچھا تو کون ہے ؟ فرمایا ملک الموت ہوں (یہ سن کر) ان پر کپکپی طاری ہوگئی اور کہنے لگے کیا تم کو ہمارے بارے میں کوئی حکم دیا گیا فرمایا اگر مجھے تمہارے میں کوئی حکم دیا گیا ہوتا تو میں تم کو مہلت نہ دیتا لیکن اللہ کے نبی ادریس (علیہ السلام) نے سوال کیا ہے کہ وہ جنت کو ایک نظر دیکھ لیں فرشتوں نے جنت کا دروازہ کھول دیا جب دروازہ کھول دیا گیا تو آپ کو اس کی ٹھنڈک اور اس کی پاکیزگی اور اس کی خوشبو آپ کے دل کو بہا گئی کہ فرمایا اے ملک الموت میں محبت کرتا ہوں کہ میں جنت میں داخل ہوجاوں اور ایک لقمہ اس کے پھلوں میں سے کھاوں اور ایک گھونٹ اس کے پانی میں سے پیوں شاید کہ یہ بات میرے لئے میری طلب میری رغبت اور میرے حرص کو اور زیادہ کردے انہوں نے فرمایا داخل ہوجائیے آپ جنت میں داخل ہوگئے اس کے پھلوں میں سے کھایا اس کے پانی میں سے پیا ملک الموت نے ان سے فرمایا اے اللہ کے نبی اب باہر نکلئے آپ نے اپنی ضرورت کو پورا کرلیا یہاں تک کہ آپ کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوسرے انبیاء کے ساتھ (یہاں) لوٹا دیں گے (مگر) ادریس (علیہ السلام) جنت کے درخت کے تنے کے ساتھ لیٹ گئے اور فرمایا میں اس سے نہیں نکلوں گا اگر تو چاہے تو میں تیرے ساتھ جھگڑا کروں گا اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کی طرف وحی بھیجی کہ ان سے جھگڑے کا فیصلہ کردو ملک الموت نے ان سے فرمایا اے اللہ کے نبی کس چیز کے ساتھ آپ مجھ سے جھگڑا کریں گے آپ کے ساتھ کیا دلیل ہے ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” کل نفس ذائقۃ الموت “ تو میں موت کا مزہ چکھ چکا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر لکھ دیا ہے ایک مرتبہ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وان منکم الا واردھا، کان علی ربک حتما مقضیا “ اور تحقیق میں اس میں وارد ہوچکا کیا میں بار بار جن ہم پر وارد ہوں گا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اس پر ایک مرتبہ وارد ہونا لکھ دیا ہے اور جنت والوں کے لئے فرمایا (آیت) ” وما ھم منھا بمخرجین ‘۔ (کہ وہ لوگ اس سے نہیں نکلیں گے) کیا میں اس جگہ کو چھوڑ کر چلا جاوں جس کو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمادیا ہے اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کی طرف وحی بھیجی تیرا جھگڑا لو میرا بندہ ادریس (علیہ السلام) ہے میری عزت اور میری جلال کی قسم میرے علم میں تھا اس کے تخلیق کرنے سے پہلے کہ ان پر موت نہیں آئے گی مگر صرف ایک مرتبہ جو یہ مرچکے ہیں اور یہ جہنم نہیں دیکھے گا مگر ایک مرتبہ جو یہ حاصل کرچکے ہیں اور وہ جنت میں اس گھڑی داخل ہوں گے جس گھڑی یہ داخل ہوئے اور یہ جہنم نہیں دیکھے گا مگر ایک مرتبہ جو یہ حاصل کرچکے ہیں اور وہ جنت میں ایک گھڑی داخل ہوں گے جس گھڑی یہ داخل ہوئے اور یہ اس سے نکلنے والے نہیں ہیں اے ملک الموت اس کو چھوڑ دے اس نے تجھ سے جھگڑا کیا اور تجھ پر ایک مضبوط دلیل کے ساتھ غالب آگئے جب ادریس (علیہ السلام) نے جنت میں قرار پکڑ لیا اور اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے پہلے ان کا داخل ہونا لازم کردیا تو فرشتوں نے اپنے رب کی طرف تعجب کرتے ہوئے عرض کیا اے ہمارے رب آپ نے ہم کو ادریس (علیہ السلام) سے ایک ہزار سال پہلے پیدا فرمایا اور ہم نے پلک جھپکنے تک آپ کی نافرمانی نہیں کی اور آپ نے ادریس (علیہ السلام) کو تھوڑا عرصہ ہوا پیدا فرمایا اور اس کو ہم سے پہلے جنت میں داخل فرما دیا اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اے میرے فرشتوں کہ میں نے تم کو اپنی عبادت اور تسبیح کے لئے پیدا کیا اور میں نے اس میں تمہاری لذت رکھ دی اور میں نے تمہاری لذت کو کھانے پینے وغیرہ میں نہیں رکھا اور میں نے تم کو ان چیزوں پر خود قوت بھی دی ہے اور میں نے زمین میں زینت کو شہوت کو لذات کو گناہ کو اور حرام کردہ چیزوں کو رکھ دیا اور یہ بندہ خدا ان سب چیزوں سے میری وجہ سے بچتا رہا اور میری خواہش کو اپنی خواہش پر ترجیح دی پس تم سے جو ادریس (علیہ السلام) کی جگہ پہنچنا چاہتا ہجے تو اس کو چاہئے کہ وہ زمین پر اتر جائے اور اس کو چاہئے کہ وہ ادریس (علیہ السلام) کی طرح عبادت کرے اور ادریس (علیہ السلام) جیسے نیک عمل کرے جس کا عمل ادریس (علیہ السلام) کی طرح ہوگا تو میں اس کو ادریس (علیہ السلام) کے داخل ہونے کی جگہ میں داخل کردوں گا اور اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس پر ظالمین کا ٹھکانا لازم ہوگا فرشتوں نے کہا اے ہمارے رب ہم ثواب کو طلب کرنے والے ہیں اور ہم سزا نہیں چاہتے ہم اپنے مکان اور رتبہ پر راضی ہیں جو آپ نے ہم کو عطا کیا ہے ہمارے رب ہم اس پر خوش ہیں جو آپ کی طرف سے جو ہم کو فضیلت ملی ہے (ہم اس پر خوش ہیں) اور تین فرشتے ھاروت ماروت اور ایک دوسرا فرشتہ زمین پر آنے کے لئے راضی ہوگئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ جب تم نے اتفاق کرلیا اس (معاملہ) پر تو اس سے بچو کہ تمہارا نفع بچنے میں ہے اور میں تم کو ڈراتا ہوں تو جان لو کہ سب سے بڑے گناہ میرے نزدیک چار ہیں اگر ان کے علاوہ تم کوئی عمل کروگے تو میں تم کو معاف کردوں گا اور اگر تم نے (بڑے) گناہوں کو کرلیا تو میں تم کو معاف نہیں کروں گا انہوں نے پوچھا وہ (بڑے گناہ) کیا ہیں ؟ فرمایا کہ تم بتوں کی پوجا نہ کرنا کوئی (ناحق) خون نہ بہانا شراب نہ پینا اور حرام کاری (یعنی زنا کاری) نہ کرنا یہ تینوں فرشتے یہ تمام احکام لے کر نیچے اتر آئے اور یہ زمین میں ان کاموں پر تھے جن پر ادریس (علیہ السلام) تھے وہ چار دن سیاحت کرتے اور تین دن لوگوں کو خیر سکھاتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کی طرف بلاتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو زھرہ (ایک عورت) کے ساتھ مبتلا کردیا جو عورتوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی جب فرشتوں نے اس عورت کی طرف دیکھا تو فریفتہ ہوگئے کیونکہ اس کی رسوائی پہلے ہی سے پوری ہوگی لیکن میرا خاوند ہے میں تمہاری خواہش اس وقت تک پوری نہیں کرسکتی جب تک تم میرے خاوند کو قتل نہیں کردیتے تو پھر میں تمہاری ہوجاوں گی فرشتے ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم کسی کا خون نہیں بہائیں گے اور کسی حرام عورت سے بدکاری نہیں کریں گے لیکن ایسا کرنے کے بعد ہم ان سب گناہوں سے توبہ کرلیں گے جب تیسرے فرشتے نے محسوس کیا (عورت کے) فتنے کو اللہ تعالیٰ نے اس کو بچا لیا ان سب گناہوں سے آسمان کے ذریعہ وہ آسمان میں چلا گیا اور نجات پا گیا ہاروت اور ماروت زمین پر ٹھہرے رہے کیونکہ انکی تقدیر میں یہ عمل لکھا جاچکا تھا ہاروت، ماروت نے اس کے شوہر پر سختی کی اور اس کو قتل کردیا جب انہوں نے اس عورت کا ارادہ کیا اس نے کہا میرا ایک بت ہے میں اس کی عبادت کرتی ہوں اور میں ناپسند کرتی ہوں اس کی نافرمانی کو اگر تمہارا ارادہ ہے تو اس (بت) کو ایک سجدہ کرلو اس عورت نے انکو ایک اور فتنہ کی طرف بلایا اس میں ایک نے دوسرے سے کہا ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم خون نہ بہائیں اور حرام عورت سے بدکاری نہ کریں لیکن ہم یہ سارے عمل کرنے کے بعد توبہ کرلیں گے تو انہوں نے سجدہ کرلیا جب ان دونوں نے (اس عورت کا) ارادہ کیا اور ان کو کہنے لگی میری ایک حاجت اور ہے انہوں نے کہا وہ کیا ہے ؟ اس عورت نے کہا میرے پاس ایک مشروب ہے اس کے بغیر مجھے زندگی اچھی نہیں لگتی فرشتوں نے کہا وہ کیا ہے زہرہ نے کہا وہ شراب ہے فتنہ نے ان کو اس کے ارتکاب پر آمادہ کیا ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم شراب نہ پئیں دوسرے نے کہا ہم کو حکم دیا گیا تھا کہ ہم خون کو نہ بہائیں اور ہم کسی حرام عورت سے بدکاری نہ کریں لیکن ہم یہ سب کچھ کرنے کے بعد ان سب سے توبہ کرلیں گے اس کے بعد دونوں نے شراب پی لی جب ان دونوں نے اس عورت کا ارادہ کیا تو اس عورت نے کہا اب صرف میری ایک خواہش ہے دونوں نے کہا وہ کیا ہے ؟ کہنے لگی مجھے وہ کلمات سکھاؤ جس کے ذریعہ تم آسمان پر چڑھ جاتے ہو فرشتوں نے وہ بھی اس کو سکھا دیئے جب اس نے یہ کلمات کہے تو آسمان کی طرف چڑھ گئی جب آسمان کی طرف پہنچی تو اس کو ایک ستارہ بنادیا گیا جب فرشتے (گناہوں میں) مبتلا ہوگئے تو وہ آسمانوں کیطرف چڑھے تو آسمانوں کے دروازے بند کردیئے گئے اور ان دونوں سے کہا گیا کہ آسمان میں کوئی گناہ گار داخل نہیں ہوسکتا جب دونوں کو آسمان کے اندر جانے سے منع کردیا گیا اور انہوں نے جان لیا کہ وہ فتنہ میں مبتلا کئے گئے تھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور تضرع وزاری کی اور روئے اور گڑگڑائے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی طرف پیغام بھیجا کہ میرا غضب تم پر آچکا ہے جو کچھ تم نے کیا ہے اس کی وجہ سے تم میری ناراضگی کے مستحق ہوچکے ہو اور تم دونوں میرے فرشتوں کے ساتھ رہتے تھے میری اطاعت میں اور میری عبادت میں یہاں تک کہ تم نے نافرمانی کی اور میری معیت کو حکم عدولی کی وجہ سے اس منزل پر پہنچ گئے اب تم چن لو اگر تم چاہو دنیا کے عذاب کو اور یا آخرت کے عذاب کو (اختیار کرلو) انہوں نے اس بات کو جان لیا کہ دنیا کا عذاب اگرچہ لمبا ہو بالآخر اس نے ختم ہونا ہے لیکن آخرت کے عذاب کو زوال نہیں اور نہ وہ کبھی ختم ہوگا تو انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کرلیا پس دونوں بابل کے کنویں میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں قیامت کے دن تک اسی طرح رہیں گے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے داود بن ابی ھند (رح) کے طریق سے روایت کیا کہ انہوں نے بعض اصحاب سے روایت کیا کہ ملک الموت ادریس (علیہ السلام) کے دوست تھے ایک دن ادریس (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا اے ملک الموت اس نے کہا میں حاضر ہوں (فرمائیے) فرمایا مجھے موت دے دے میں دیکھوں گا موت کس طرح ہوتی ہے ؟ـ ملک الموت نے ان سے عرض کیا سبحان اللہ اے ادریس ! آسمانوں اور زمین والے موت سے بھاگتے ہیں اور آپ مجھ سے سوال فرما رہے ہیں کہ میں آپ کو دکھاوں میں موت کیسی ہے ؟ ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا میں محبوب رکھتا ہوں کہ میں اس اس کو دیکھوں جب انہوں نے اس پر مجبور کیا تو ملک الموت نے فرمایا اے ادریس میں آپ کی طرح حکم کا پابند ہوں اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے تو ملک الموت اوپر چڑھ گئے اور عرض کیا اے میرے رب تیرے بندے نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ میں اس کو موت دکھاوں وہ کیسی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اس کو موت دے دو ملک الموت نے کہا اے ادریس کہ ساری مخلوق موت سے بھاگتی ہے اور آپ فرماتے ہیں مجھ کو دکھاؤ جب آپ کی وفات ہوگئی اب ملک الموت روح کو ان کی طرف دوبارہ نہیں لوٹا سکتے تھے عرض کیا اے میرے رب آپ دیکھ رہے ہیں کہ جس کیفیت میں ادریس (علیہ السلام) ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو ان کی طرف لوٹا دیا تو اللہ تعالیٰ نے جب تک چاہا وہ زندہ رہے پھر فرمایا اے موت کے فرشتے مجھے جنت میں داخل کردے تاکہ میں اس کی طرف لوٹا دیا تو اللہ تعالیٰ نے جب تک چاہا وہ زندہ رہے پھر فرمایا اے موت کے فرشتے مجھے جنت میں داخل کردے تاکہ میں اس کی طرف دیکھ لوں ملک الموت نے کہا اے ادریس میں آپ کی طرح ایک غلام بندہ ہوں میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے جب انہوں نے اس پر اصرار کیا تو ملک الموت نے فرمایا اے میرے رب کہ تیرے بندے نے مجھ کو مجبور کیا ہے اور مجھ سے سوال کیا ہے کہ میں اس کو جنت دکھاوں تاکہ وہ اس کو دیکھ لے اور میں نے ان سے یہ کہا ہے کہ میں تو تمہاری طرح حکم کا بندہ ہوں میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کو جنت میں داخل کردو اور فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں جان لیا جو میں نے نہیں جانا ملک الموت نے ان کو اٹھایا اور جنت میں داخل کردیا جب تک اللہ نے چاہا وہ وہیں رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے کہا ان کو نکالئے ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا میں نہیں نکلوں گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” افما نحن بمیتین (58) الا موتتنا الاولی “ (الصافات آیت 59) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وما ھم منھا بمخرجین “ (الحجر آیت 48) اور میں اس سے نہیں نکلوں گا ملک الموت نے فرمایا اے میرے رب آپ نے سن لیا جو تیرا بندہ ادریس (علیہ السلام) کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا میرے بندے نے سچ کہا وہ تجھ سے زیادہ جانتا ہے پس تم خود جنت سے باہر چلے جاؤ اور میرے بندے کو یہاں رہنے دو (پھر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ورفعنہ مکانا علیا “۔ 12:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے واذکر فی الکتب ادریس، انہ کان صدیقا نبیا (56) ورفعنہ مکانا علیا “ کے بارے میں فرمایا کہ ادریس (علیہ السلام) پہلے وہ نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھیجا اور آپ (نیک) عمل کرتے تھے اور آپ کے اعمال بلند ہوتے تھے تمام لوگوں کے اعمال کے نصف کے برابر پھر فرشتوں میں سے ایک فرشتہ آپ سے محبت کرتا تھا اس نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لی کہ میں ان کے پاس جاوں اس کو اجازت دے دی گئی وہ فرشتہ ان کے پاس آیا اور آپ کی اللہ کے نزدیک بڑی عزت تھی اس کا تذکرہ کیا ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا اے فرشتے مجھ کو خبر دے کہ میری کتنی عمر باقی ہے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے عمل میں اور محنت کروں اس نے کہا اے ادریس اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تو اس کی طاقت رکھتا ہے کہ آسمان کی طرف مجھے اوپر لے جائے اس نے کہا نہیں مگر یہ کہ میں تیری سفارش کرسکتا ہوں سفارش کی گئی تو اسے حکم مل گیا اس فرشتے نے ان کو اپنے پروں میں اٹھالیا اور آپ کو اوپر لے گیا یہاں تک کہ جب چھٹے آسمان پر پہنچے تو ملک الموت نے اللہ کے حکم کے مطابق کرتے ہوئے استقبال کیا ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا اے ملک الموت تو کہاں کا ارادہ رکھتا ہے اس نے عرض کیا کہ میں ادریس (علیہ السلام) کی روح قبض کرنی ہے پوچھا کہاں حکم دیا گیا ہے ؟ کہ اس کی روح کو قبض کرنے کا، ملک الموت نے کہا چھٹے آسمان میں (اب) ملک الموت نے ادریس (علیہ السلام) کی طرف دیکھنا شروع کیا کہ اچانک آپ کے پاوں حرکت کررہے تھے اور وہ وفات پاگئے تو اس فرشتے نے ان کو چھٹے آسمان میں رکھ دیا۔
Top