Ruh-ul-Quran - Maryam : 56
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِدْرِيْسَ : ادریس اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں حضرت ادریس کو یاد کیجیے، بیشک وہ صدیق اور نبی تھے۔
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ ز اِنَّـہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔ وَّرَفَعْنٰـہُ مَکَانًا عَلِیًّا۔ (مریم : 56، 57) (اور کتاب میں حضرت ادریس کو یاد کیجیے، بیشک وہ صدیق اور نبی تھے۔ اور ہم نے انھیں رتبہ بلند پر پہنچایا۔ ) حضرت ادریس (علیہ السلام) کا ذکر یہاں جس اہتمام کے ساتھ سلسلہ انبیاء کی تاریخ بیان کرتے ہوئے حضرت ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر انھیں جن خطابات سے نوازا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عظیم رسول تھے اور ان کی زندگی میں یقینا ایثار و قربانی، تبلیغ و دعوت سرفروشی کے عظیم کارنامے درخشندہ تھے۔ انھیں دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ان کا ذکر یقینا تورات میں کہیں نہ کہیں موجود ہوگا۔ لیکن آج جب ہم اسفارِ یہود اور بائیبل ہسٹری کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے بارے میں کوئی چیز نہیں ملتی۔ قرآن کریم سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عظیم نبی تھے اور ساتھ ہی ساتھ صدیق بھی تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح صدیق کا خطاب اس لیے دیا گیا تھا کہ انھیں بہت ساری آزمائشوں سے گزارا گیا اور وہ ہر آزمائش میں پورے اترے۔ تب اللہ تعالیٰ نے انھیں صدیق کہہ کر خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ آپ ( علیہ السلام) نے واقعی ہر امتحان میں اپنے آپ کو سچا ثابت کر دکھایا۔ سورة انبیاء میں ان کا ذکر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ کیا گیا ہے اور سابقہ آیت کریمہ میں بھی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس کی زندگی میں یقینا کوئی اہم مشابہت ہے جس وجہ سے دونوں کو صابرین میں سے قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے ایک بہت بڑے امتحان کے وقت صبر دکھایا، اسی طرح حضرت ادریس (علیہ السلام) نے بھی صبر کے ساتھ زندگی گزاری اور آپ ( علیہ السلام) کی زندگی کا اہم عنوان بھی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی طرح صابر اور صادق الوعد ہی رہا۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہمیں قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ سے کوئی صحیح حدیث ہم کو ایسی نہیں ملی جن سے ان کی شخصیت کے تعین میں کوئی مدد ملتی ہو۔ البتہ ! قرآن کریم سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور حضرت نوح (علیہ السلام) سے متقدم ہیں کیونکہ اوپر جن انبیاء کرام کا ذکر ہوا ہے ان کے حوالے سے بعد والی آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ انبیاء کرام حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم اور حضرت اسرائیل کی اولاد میں سے ہیں۔ جب ہم ان انبیاء کرام کی ترتیب کو دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ حضرت یحییٰ ، حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ تو اسرائیل یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے بعد صرف حضرت ادریس (علیہ السلام) ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ روح المعانی نے مستدرک حاکم کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کے اجداد میں سے ہیں اور یہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے ایک ہزار سال پہلے ہوئے ہیں۔ حضرت ابوذر ( رض) کے حوالے سے زمحشری نے لکھا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی اور رسول ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے 30 صحیفے نازل فرمائے اور جدید تحقیق یہ ہے کہ بحرمردار کے غاروں میں سے کچھ کتابیں دستیاب ہوئی ہیں جن کے بارے میں گمان ہے کہ یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) پر نازل ہونے والے صحیفے ہیں، لیکن ان کی زبان چونکہ مردہ زبانوں میں شمار ہوتی ہے اس لیے پڑھی نہیں جاسکی۔ تو جب تک اسے پڑھا نہ جائے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کتابیں کیسی ہیں اور کس پر نازل ہوئی تھیں۔ بحر محیط میں لکھا گیا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے قلم سے لکھنا شروع کیا اور کپڑا سینا ایجاد کیا۔ اس سے پہلے لوگ عموماً جانوروں کی کھال لباس کے طور پر پہنتے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے ناپ تول کے طریقے آپ ( علیہ السلام) نے ہی ایجاد کیے اور اسلحہ کی ایجاد بھی آپ ( علیہ السلام) سے شروع ہوئی اور آپ ( علیہ السلام) نے اسلحہ تیار کرکے بنوقابیل سے جہاد کیا۔ (بحرِ محیط، قرطبی، مظہری، روح المعانی) لیکن ان باتوں میں سے کسی بات کو تاریخی سند کا درجہ حاصل نہیں۔ اسرائیلی روایات میں رطب و یابس سب کچھ موجود ہے۔ خود تورات کا حال یہ ہے کہ وہ کئی مرتبہ دنیا سے غائب ہوئی اور کئی مرتبہ اسے زبانی روایات کے ذریعہ سے مرتب کیا گیا۔ اس وجہ سے اس کے نسخوں میں اختلاف بھی ہوا اور اس کے اندر برابر کمی بیشی بھی ہوتی رہی۔ تو جو باتیں بائبل میں بیان ہوئی بھی ہیں ان کی ثقاہت کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ مفسرین کا عام خیال یہ ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک بتایا گیا ہے وہی حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں۔ ان کے متعلق بائبل کا بیان یہ ہے کہ (اور حنوک 65 برس کا تھا جب اس سے متوسلح پیدا ہوا اور متوسلح کی پیدائش کے بعد حنوک 300 برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا… اور وہ غائب ہوگیا، کیونکہ خدا نے اسے اٹھا لیا) ۔ (پیدائش باب 5 آیت 21۔ 24) تلمود کی اسرائیلی روایات میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بتائے گئے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے پہلے جب بنی آدم میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی تو اللہ کے فرشتے نے حنوک کو جو لوگوں سے الک تھلگ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے، پکارا کہ ” اے حنوک ! اٹھو ! گوشتہ عزلت سے نکلو اور زمین کے باشندوں میں چل پھر کر ان کو وہ راستہ بتائو جن پر ان کو چلنا چاہیے۔ اور وہ طریقے بتائو جن پر انھیں عمل کرنا چاہیے “۔ یہ حکم پا کر وہ نکلے اور انھوں نے جگہ جگہ لوگوں کو جمع کرکے وعظ و تلقین کی اور نسل انسانی نے ان کی اطاعت قبول کرکے اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرلی۔ حنوک 353 برس تک نسل انسانی پر حکمران رہے۔ ان کی حکومت انصاف اور حق پرستی کی حکومت تھی۔ ان کے عہد میں زمین پر اللہ کی رحمتیں برستی رہیں۔ (تفہیم القرآن) وَرَفَعْنٰـہُ مَکَانًا عَلِیًّا کا مفہوم آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ” ہم نے اسے بلند مقام پر اٹھا لیا “ جس کے ذہن میں کوئی پیچیدگی نہ ہو یا پہلے سے آسمان پر اٹھائے جانے کا عقیدہ دماغ میں نہ ہو تو وہ یقینا یہ سمجھتا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان کے صبر اور آزمائشوں میں ثابت قدمی کی وجہ سے وہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا جو رسالت کے بعد صدیقیت کا مرتبہ ہے، جس پر اس سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فائز کیا گیا تھا۔ لیکن ذہنی اپچ کے مریضوں کو تو کوئی عجوبہ ملنا چاہیے اور اتفاق سے اسرائیلی روایات میں پہلے سے ایسی خرافات موجود تھیں، انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا اور اس جملے کا یہ مفہوم پیدا کردیا کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے چوتھے آسمان پر اٹھالیا اور مزید اس بات سے انھیں تصدیق مل گئی کہ آنحضرت ﷺ کی معراج کی رات چوتھے آسمان پر ان سے ملاقات ہوئی تھی حالانکہ ملاقات تو آپ ﷺ کی اور بھی رسولانِ گرامی سے ہوئی تو کیا انھیں بھی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر زندہ اٹھایا تھا۔ مجھے تو حیرانی ایک جدید مفسر صاحب پر ہوئی جو ماشاء اللہ شیخ الحدیث بھی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مَکَاناً عَلِیًّاکا معنی اس کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ ( علیہ السلام) کو کسی بلند جگہ پر اٹھایا گیا حالانکہ معمولی عربی جاننے والا جو محاورات کی زبان سے بالکل بیخبر نہ ہو وہ بھی جانتا ہے کہ یہ لفظ مقام و مرتبہ کے معنی میں ہمیشہ استعمال ہوتا ہے، بشرطیکہ اس سے مختلف معنی پر کوئی قرینہ موجود نہ ہو اور یہاں اس کے حق میں قرینہ تو کیا ہوگا البتہ ! اس کے خلاف پر قرینہ موجود ہے، وہ اس طرح کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کو قرآن کریم نے واضح طور پر اہتمام کے ساتھ بیان کیا اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات نے اس میں کوئی اخفاء باقی نہیں رہنے دیا۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا آسمان پر زندہ اٹھایا جانا بھی ایک غیرمعمولی بات تھی اور دنیا کی ہر علمی کتاب کا یہ طریقہ ہے کہ ہر غیرمعمولی بات پر دلیل پیش کی جاتی اور اسے اہتمام سے بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ جملہ ایک سپاٹ جملہ ہے جو محاورہ کے مفہوم کو متضمن ہے اس لیے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے رسول ہونے کے ساتھ ساتھ صدیق کے بلند مرتبے پر بھی فائز فرمایا تھا۔ ویسے بھی تلمود نے جن الفاظ میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کو ذکر کیا ہے ان میں جو غرابت اور رکاکت پائی جاتی ہے وہ بجائے خود اس کے ناقابلِ قبول ہونے کا قرینہ ہے۔ تلمود میں ایک طویل قصہ بیان ہوا ہے جس کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ ” حنوک ایک بگولے میں آتشیں رتھ اور گھوڑوں سمیت آسمان پر چڑھ گئے۔ “
Top