Mutaliya-e-Quran - Maryam : 56
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِدْرِيْسَ : ادریس اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا
[وَاذْكُرْ : اور یاد کرو ] [فِي الْكِتٰبِ : اس کتاب میں ] [اِدْرِيْسَ : ادریس (علیہ السلام) کو ] [انهٗ : بیشک وہ ] [كَان : تھے ] [صِدِّيْقًا نَّبِيًّا : سچے نبی ] نوٹ۔ 2: حضرت ادریس (علیہ السلام) کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل سے بھی پہلے گزرے ہیں۔ کوئی حدیث ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعین میں کوئی مدد ملتی ہو۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ نوح (علیہ السلام) سے پہلے ہیں۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ انبیاء جن کا ذکر گزرا ہے، آدم (علیہ السلام) کی اولاد، نوح (علیہ السلام) کی اولاد، ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد اور اسرائیل (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ ، عیسیٰ اور موسٰی علیھم السلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں، حضرت اسمٰعیل، اسحاق اور یعقوب علیھم السلام اولاد ابراہیم (علیہ السلام) سے ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اولاد نوح (علیہ السلام) سے ہیں۔ ان کے بعد صرف حضرت ادریس (علیہ السلام) ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اولاد آدم (علیہ السلام) سے ہیں۔ اور وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کا سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ح (علیہ السلام) ضرت ادریس (علیہ السلام) کو بلند مرتبہ عطا کیا تھا۔ لیکن اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر یہ بات ہمارے ہاں بھی مشہور ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا۔ (تفہیم القرآن)
Top