Anwar-ul-Bayan - Maryam : 56
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِدْرِيْسَ : ادریس اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں ادریس کو یاد کیجیے بلاشبہ وہ صدیق تھے نبی تھے
پھر فرمایا (وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابْ اِدْرِیْسَ ) (اور کتاب میں ادریس کا ذکر کیجیے) (اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبْیًّا) (بلاشبہ وہ بڑے سچے تھے نبی تھے) (وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا) (اور ہم نے ان کو بلند مرتبہ پر اٹھا دیا) اس میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کو صدیق اور نبی بتایا اور یہ بتایا کہ ہم نے انھیں بلند مرتبہ پر اٹھا دیا بلند مرتبہ کا کیا مطلب ہے اس کے بارے میں عام طور سے مشہور ہے کہ انھیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور ایک قول یہ ہے کہ آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے بعد وہاں ان کی موت ہوگئی مفسر ابن کثیر ؓ نے صفحہ 126 ج 3 پر حضرت مجاہد (رح) سے نقل کیا ہے کہ ادریس رفع لم یمت کما رفع عیسیٰ اور حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رفع الی السماء السادسۃ فمات بھا لیکن اس سلسلہ کی جو روایات ہیں اول تو مرفوع نہیں ہیں دوسرے ان کی اسانید ذکر نہیں کی گئیں اور رفع الی السماء کے قصے کعب الاحبار سے منقول ہیں جو سراپا اسرائیلیات میں ہیں۔ اگرچہ روح المعانی صفحہ 106 ج 16 میں بحوالہ ابن منذر حدیث کو مرفوعاً بھی بیان کیا لیکن حدیث کے الفاظ میں رکاکت ہے جو افصح الفصحاء ﷺ کے الفاظ نہیں ہوسکتے دوسرے قصہ اسی طرح نقل کیا ہے جیسے کعب وغیرہ سے منقول ہے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے معروف قصہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کردیا۔ صاحب روح المعانی نے بھی قال رسول اللہ ﷺ کہنے کی ہمت نہیں کی یرفع الحدیث الی النبی ﷺ کہہ کر گزر گئے اور آخیر میں لکھ دیا واللّٰہ اعلم بصحتہ وکذا بصحۃ ما قبلہ من خبر کعب محققین کا کہنا ہے کہ (وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا) سے حضرت ادریس (علیہ السلام) کا مرتبہ بلند کرنا مراد ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت عطا فرمائی اور اپنا مقرب بنایا یہ سب علو مرتبہ میں آتا ہے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا زمانہ اور بعض خصوصی احوال صاحب روح المعانی نے مستدرک حاکم سے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) سے ایک ہزار سال پہلے تھے اور ان کا نام اخنوخ بتایا، پھر چار واسطوں سے حضرت شیث بن آدم ( علیہ السلام) تک ان کا نسب بیان کیا ہے پھر لکھا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) سب سے پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے نجوم یعنی ستاروں کا مطالعہ کیا اور حساب جاری کیا اور سب سے پہلے لکھنا شروع کیا اور سب سے پہلے سلے ہوئے کپڑے پہنے، وہ کپڑے سینے کا شغل رکھتے تھے اور ان سے پہلے لوگ کھالوں کے کپڑے پہنتے تھے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر تیس صحیفے نازل فرمائے اور انھوں نے سب سے پہلے ناپنے اور تولنے کے پیمانے جاری کیے اور ہتھیار بنائے، معالم التنزیل میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے کافروں سے قتال کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ انھیں ادریس اس لیے کہا گیا کہ وہ کثرت سے کتاب اللہ کا درس دیا کرتے تھے، صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ اکثر علماء کا قول ہے کہ یہ لفظ سریانی ہے عربی نہیں ہے اور درس سے مشتق نہیں ہے کیونکہ یہ کلمہ غیر منصرف ہے (غیر منصرف ہونا اسی وجہ سے ہے کہ اس میں عجمہ اور علم ہے) پھر لکھتے ہیں کہ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ سریانی زبان میں بھی اس لفظ کا معنی اسی معنی کے قریب ہو جو عربی میں بولا جاتا ہے لہٰذا اکثر دروس کی وجہ سے انھیں ادریس کا لقب دے دیا گیا ہو۔
Top