Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور یہ (قرآن خدائے) پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے
(192 تا 203) حکم الٰہی کی مخالفت کے سبب سے پچھلے چند قومیں جو ہلاک ہوئیں ان کے ذکر کے بعد قریش کو قرآن کی مخالفت سے ڈرانے کے لیے ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے یہ قرآن اللہ رب العالمین نے تم پر اتارا ہے اور جبرئیل (علیہ السلام) اس کو لے کر اترے ہیں جو بڑے معتبر فرشتے ہیں عبداللہ بن عباس ؓ اور قتادہ وسدی کا یہ قول ہے کہ روح الامین سے یہاں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ عزت والے فرشتے نے قرآن کو اتارا ہے جو خدا کے نزدیک معتبر ہے اس نے قرآن میں کچھ بڑھایا گھٹایا نہیں ہے جوں کا توں ہے اور یہ قرآن اس واسطے اتارا ہے کہ ڈرا اسے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اس کو کہ جس نے حکم الٰہی کو جھٹلایا اور اس کا خلاف کیا پھر فرمایا اتارا قرآن شریف کو عربی زبان میں جو نہایت فصیح ہے اور اس قرآن شریف کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے پھر فرمایا مکہ کے کافروں کو کیا یہ گواہی کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے عالم اس قرآن شریف کو اپنی کتابوں میں لکھا ہوا پاتے ہیں جن کو وہ رات دن پڑھا کرتے ہیں پھر قریش کے سخت نافرمان ہونے کا ذکر فرمایا کہ اگر قرآن شریف کو ہم کسی ایسے آدمی پر نازل کرتے کہ جس کی زبان عربی نہ ہوتی اور وہ ان کے سامنے قرآن پڑھتا تو بھی یہ کافر مکہ اس پر ایمان نہ لاتے اب آگے فرمایا کہ اسی طرح کے جھٹلانے پر مجرموں کے دل مائل ہوگئے ہیں اس لیے یہ لوگ حق بات کو اس قوت تک نہیں مانتے جب تک دیکھیں عذاب دردناک اور جب دیکھیں گے عذاب تو اس وقت ان کا عذر کچھ فائدہ نہ دے گا بلکہ خدا کا عذاب ان پر اچانک آجائے گا کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی پھر اس وقت کہیں گے کہ اگر تھوڑی سی بھی ہم کو مہلت دی جاوے تو ہم اللہ تعالیٰ کی فرما نبرداری اور بندگی کرلیں جیسا کہ سورة ابراہیم میں فرمایا وانذ دالناس یوم تایتھم العذاب فیقول الذین ظلمولولا اخد تنا الی اجل قریب نجب دعوتک ونتبع الرسل جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ہر کافر جب خدا کا عذاب دیکھے گا تو بہت پچھتاوے گا اور اس پچتاوے کے وقت حکم الٰہی کے موافق دنیا نیک وبد کے متحان کے لیے پیدا کی گئی ہے ایسی بےبسی کے وقت وہ امتحان کا موقع نہیں رہتا چناچہ سورة یونس میں گزر چکا ہے کہ ڈوبنے کے وقت فرعون نے راہ راست پر آنے کا اقرار کیا اور اس کا وہ اقرار بےمحل قرار بےمحل قرار پایا صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث 1 ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر شخص کو اس وقت تک نیک عمل کی کوشش کرنی چاہیے کہ موت بالکل سامنے نہ آجائے یا مثلا سورج مغرب سے نہ نکلے حاصل یہ ہے کہ سورة یونس کا فرعون کا قصہ اور حدیث بےبسی کے وقت نیک عمل کے قبول نہ ہونے کی تفسیر ہے جن کے حاصل یہ ہے کہ ایسی بےبسی کے وقت شریعت کا کوئی حکم انسان کے ذمہ باقی نہیں رہتا اس واسطے اس وقت کا کوئی نیک کام مقبول نہیں سورة بقر میں گزر چکا ہے کہ جو اوصاف دین محمدی کے قرآن میں ہیں وہی اوصاف پہلی کتابوں میں تفصیل سے تھے اس لیے اہل کتاب نبی آخرالزمان ﷺ کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے تھے غرض سورة بقر کی آیت الذین آیتنا ھم الکتاب یعر فونہ کما یعرفون ابناء ھم آیت وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِالْاَ وَّلِیْنَ کی گویا تفسیر ہے علمائے بنی اسرائیل سے مطلب عبد اللہ 1 بن سلام ابن یامین 2 ثعلبہ 3 اسد 4 اور راسید 5 ہیں 1 ؎ جنہوں نے قرآن کو کتاب آسمانی جانا اور اسلام اختیار کیا۔ صحیح بخاری ومسلم 2 ؎ میں یعلی ؓ بن امیہ کا جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یعلی بن امیہ ؓ حضرت عمر ؓ سے کہا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ پر جس وقت وحی نازل ہوتی ہے اب وقت کی آپ ﷺ کی حالت کبھی مجھ کو دکھاؤ یعلی بن امیہ ؓ کی اس خواہش کے موافق سند میں جعرانہ مقام کی وحی کی حالت جو حضرت عمر ؓ نے یعلی بن امیہ ؓ کو دکھائی تو اللہ کے رسول ﷺ کے دل پر وحی کا ایسا اثر پڑا تھا کہ اس وقت آپ ﷺ کی حالت غش کی سی ہوگئی تھی حاصل کلام یہ ہے کہ وحی کے نازل ہونے کے وقت اللہ کے رسول ﷺ کے دل پر جو اثر پڑا کرتا تھا اس جتلانے کے لیے ان آیتوں میں علیٰ قلبک کا لفظ فرمایا ہے مشرکین مکہ کہتے تھے کہ محمد ﷺ کی زبان بھی عربی ہے اور قرآن بھی عربی میں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن محمد ﷺ خو دبنا لیتے ہیں اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن عربی زبان میں اس لیے اتارا گیا ہے کہ اس کا مطلب لوگوں کی سمجھ میں آجاوے لیکن جن لوگوں کے دل میں علم الٰہی کے موافق اصلی گمراہی لکھی ہوئی ہے وہ لوگ کسی دوسری زبان کا قرآن سن کر بھی راہ راست پر آنے والے نہیں چناچہ سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ ان ازلی گمراہوں کی آنکھوں کے سامنے آسمان سے فرشتے اتر آویں یا زمین کے مردے قبروں میں سے اٹھ کر ان کو سمجھاویں جب بھی یہ ازلی گمراہ راہ راست پر نہ آویں گے۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 95 ج 75 ) (2 ؎ صحیح بخاری ص 208 ج 1 باب غسل الخلوق ثلاث مرات من الثیاب )
Top