Asrar-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور یقینا یہ (قرآن) پروردگار عالم نازل فرمایا ہوا ہے
آیات نمبر 192 تا 227: اسرار و معارف اسی طرح انسانیت کی ہدایت کے لیے پروردگار عالمین نے یہ قرآن اتارا ہے جسے نہایت ایماندار فرشتہ لے کر نازل ہوا ایسا کوئی احتمال نہیں کہ دورانِ نزول کوئی کمی بیشی ہوئی ہو پھر اس کا نزول آپ ﷺ قلب اطہر پہ ہوا کہ مضامین عقل محض تعمیر و اصلاح بدن کے لیے ہوتے ہیں جو کفار اور بدکاروں کی عقول میں بھی آتے ہیں اور انہیں کے بل پر وہ مادی مشینیں ایجاد کرتے ہیں تجارت کاروبار اور عالمی سیاست چلاتے ہیں مگر اس کتاب کے مضامین تو قلب میں وارد ہوئے جو کافر یا بدکار کو نصیب نہیں کہ اس کا قلب تو مردہ ہوتا ہے نیز اس میں صرف دنیا کے کمالات نہیں بلکہ امور دنیا میں اللہ کی معرفت و عظمت اور کاروبار حیات میں آخرت کی فلاح اور دارین کی کامیابی سمو دی گئی ہے اس سے ثابت ہے کہ معرف الہی کا محل قلب ہے جب تک قلب ذاکر نہ ہوگا محض باتیں ہوتی رہیں گی ان پر اللہ کی معرفت مرتب نہ ہوگی اور نہ ہی ان خوبصورت باتوں سے اصلاح احوال ہوسکے گی یہ کلام آپ کے قلب پر اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ آپ بھی پہلے انبیاء کی طرح لوگوں کو برے اعمال کے برے انجام سے خبردار کریں اور اسے واضح عربی نازل کیا گیا ہے اس سے علماء نے استدلال فرمایا ہے کہ : قرآن صرف عربی متن کا نام ہے : قرآن صرف متن کا نام ہے اردو انگریزی یا دوسری زبانوں کے تراجم نہ تو قرآن کہلائیں گے نہ وہ قرآن کی جگہ نماز میں پڑے جاسکیں گے سوائے اس کے کہ کوئی نومسلم ہو اور قرآن کا حرف بھی نہ پڑھ سکتا ہو تو چند روز سیکھنے تک کسی زبان کا سہارا لے پھر اس کے مضامین مثلاً توحید و رسالت حشر نشر وغیرہ وہی تو ہیں جو پہلی کتابوں میں بھی تھے اور خود اس عظیم الشان نبی کی بعثت اور قرآن کے نزول کی خبر بھی پہلی کتابوں میں موجود ہے یا یہ بجائے خود بہت بڑی دلیل نہیں کہ بنی اسرائیل کا ہر پڑھا لکھا بندہ اس سے واقف ہے۔ یہ تو محض عناد کے باعث نہیں مان رہے جو اس قدر سخت ہے کہ اگر یہ قرآن کسی غیر عرب پر بھی نازل ہوتا اور وہ ان کے سامنے پڑھ دیتا جس کا عربی بولنا بھی معجزہ ہوتا تو بھی یہ نہ مانتے اس لیے کہ ان کی بدکاری اور گناہ کی شامت کے طور پر ہم نے ان کے دلوں میں انکار کو دھنسا دیا ہے ۔ مسلسل گناہ قلب سے قبولیت کی استعداد ختم کردیتا ہے : ثابت ہے کہ مسلسل گناہ آلود زندگی قلب سے قبولیت کی استعداد ضائع کردیتی ہے اور حق کا انکار اس میں جم جاتا ہے۔ ہاں یہ مجبور ہو کر مانیں گے جب عند الموت یا آخرت میں عذاب ان کے سامنے آجائے گا در آں حال کہ یہ اس کی امید نہ کرتے ہوں گے اچانک دیکھ کر چیخ اٹھیں گے کہ اگر اب مہلت مل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے مگر تب مہلت نہ ملے گی۔ یہ اب تو کہتے ہیں آپ عذاب لائیے مگر انہیں عذاب کی جلدی کیا ہے وہ تو انہیں اگر برسوں بھی مہلت ملتی رہی تب بھی آخر واقع ہو کر رہے گا اور مہلت بھی کفر میں ضائع کردی تو محض لمبی عمر انہیں فائدہ دے گی نہ دولت دنیا عذاب کو ٹال سکے گی اور یہ تو قانون قدرت ہے کہ ہر قوم کو مہلت دی جاتی رہی جو قومیں تباہ ہوئیں انہیں مہلت بھی ملی اور ان کے پاس نصیحت کرنے والے یعنی انبیاء بھی آئے کہ اللہ اس سے پاک ہیں کہ کسی کو گمان گزرے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ نیز کفار کا یہ الزام کہ یہ باتیں ان کو شیطان پڑھاتا ہے بھی کسی طور قابل غور نہیں ہوسکتا کہ شیطان برائی اور کفر و شرک کی تعلیم دیتا ہے جس پر وہ خود عمل کر رہے ہیں بھلا توحید اور اخلاق عالیہ کی تعلیم شیطان کیونکر دے گا یہ تو اس کا کام ہی نہیں اور قرآن تو ایسا کلام ہے کہ شیطان تو اس کے سننے تک کی تاب نہیں لاسکتا اس کی آواز سے بھاگتا ہے لہذا اے مخاطب کبھی بھی اللہ کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کر کہ ایسا کرنے والا آخر عذاب میں گرفتار ہوتا ہے کہ یہ شیطانی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اور آپ اپنے قریبی اعزہ کو کفر و شرک کے انجام بد سے ڈرائیں کہ قریبی عزیز دوسروں سے زیادہ مستحق ہیں پھر دوسروں تک بات پہنچائیں اور جو بھی قبول کرلے اس پر شفقت فرمائیں جو قبول نہ کرے اسے واضح کردیجیے کہ میں تمہارے اعمال و کردار سے بیزار ہوں صرف ان لوگوں کو ساتھ رکھیے جو صدق دل سے ایمان لائیں محض کثرت کی ضرورت نہیں بلکہ افراد کی بجائے اللہ پر بھروسہ کیجیے جو زبردست قوت والا اور رحم کرنے والا ہے وہ آپ کو ہر حال میں نگاہ میں رکھتا ہے جب آپ اس کی عبادت کرتے ہیں تب بھی اور جب دوسرے عبادت گزاروں ہوتے ہیں تب بھی وہ سننے والا بھی ہے اور ہر حال سے واقف بھی۔ دنیا داروں کے نزدیک امیر اور غریب دو الگ قومیں ہیں اور سب بھلائیاں امارت میں اور ساری رذالت غربت میں نظرآتی ہے جبکہ اللہ کے نزدیک بھلائی اور خوبی اطاعت میں ہے خواہ غریب کرے یا امیر اور رذالت نافرمانی میں ہے چناچہ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہارا یہ خیال درست نہیں کہ اعمال کا حساب تو اللہ کو لینا ہے اور وہ ہی دلوں کے حال سے بھی واقف ہے رہی یہ بات کہ میں انہیں نکال باہر کروں تب تم ایمان لاؤ گے تو میں ایسا نہیں کرسکتا کہ ایمان لا چکے تم بھی چاہو تو ان کے ساتھ شامل ہوجاؤ ورنہ تمہاری مرضی کہ میرا منصب برے کاموں اور غلط عقائد کے انجام بد کی خبر دینا ہے جو میں تم سب کو پہنچا رہا ہوں اس سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرنا تمہارا کام ہے ۔ ان کھری کھری باتوں پہ وہ اور بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ آپ یہ سب کچھ کہنا اور کرنا بند کیجیے اور ہمارے معاشرے کے خلاف کوئی نئی راہ مت کھولیے ورنہ ہم بطور سزا آپ کو سنگسار کردیں گے ایک بہت لمبے عرصے بعد ان سے ناامید ہو کر آپ نے دعا کی بار الہا اب میری قوم نے میری اور مومنین کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیا ہے اور میں اپنی بات منوانے سے ناامید ہوچکا ہوں اب میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیجیے کہ یہ تباہ و برباد ہو کر مٹ جائیں اور مجھے اور میرے ساتھ ایمان لانے والوں کو ان سے اور عذاب الہی سے بھی نجات دیجیے۔ چناچہ اللہ کا عذاب نازل ہوا جس میں صرف نوح (علیہ السلام) اور ان کی کشتی میں سوار لوگ تو محفوظ رہے باقی سب کے سب غرق ہو کر تباہ ہوگئے۔ یہ سب قصہ بھی اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اس میں بہت بڑی عبرت ہے اور انبیاء کی نافرمانی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے یہ بات سامنے آجاتی ہے مگر اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان سے محروم رہتے ہیں جبکہ اللہ ان سب کی ہلاکت پہ بھی قادر ہے مگر وہ رحیم ہے کہ مہلت دے رکھی ہے۔ عامل کس طرح کے لوگ ہوتے ہیں : آپ کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ شیطانی اعمال کرنے والے لوگ کیسے ہوتے ہیں جن پر شیطان اور اس کے مضامین نازل ہوتے ہیں وہ لوگ سخت جھوٹے اور بدکار ہوتے ہیں کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے ویسی ہی صفات ضروری ہوتی ہیں جیسی دینے والے میں ہوں شیطان بھی سنی سنائی اور جھوٹی بات ان سے کہتا ہے اس میں پھر وہ اپنے پاس سے جھوٹ ملاتے ہیں اور یوں کوئی ایک ادھ بات اتفاقاً سچ اور باقی فسانہ جھوٹ ہوتا ہے جبکہ آپ کا کردار اور گفتار دونوں اس سے پاکیزہ تر ہیں۔ شعر کی اصطلاحی تعریف : کفار کا یہ کہنا کہ یہ باتیں شاعرانہ ہیں ، بھی درست نہیں۔ اصطلاح میں شعر محض خیالی باتوں کو کہا جاتا ہے مسجع و مقفی عبارت کو نہیں اگر غزل و نظم کو بھی شعر کہا جانے لگا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اکثر کلام محض خیالی اور عملی دنیا میں ناممکن و غلط باتوں پر مبنی ہوتا ہے اور شاعروں کی باتوں میں آ کر ان کے پیچھے چلنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں نیز شاعر محض خیالی وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں جبکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ نہ کرتے ہیں اور نہ کرنا ممکن ہوتا ہے سوائے ان شاعروں کے جو ایمان سے مالا مال ہوئے اور نیک اعمال اپنائے یعنی شعروں میں بھی نیکی اللہ کی تعریف اور رسول اللہ ﷺ کی نعت اور اطاعت کی بات کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں قلبی ، عملی اور زبانی ہر طرح سے کہ ان کا شعر بھی اللہ کی یاد دلاتا ہے اور کفار کے مقابلہ میں ظلم کا جواب دینے کے لیے جنہوں نے شعر کہے یہ ان کا حق تھا کہ ان پر ظلم کیا گیا تھا لہذا آپ کے متبع تو دنیا کے مثالی انسان ہیں۔ بھلا آپ کو شاعر یا آپ کے ارشادات کو شاعرانہ کہنا ہرگز درست نہیں اور ایسا کہنے والے ظالم بہت جلد دیکھ لیں گے کہ وہ کس انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔ الحمد للہ سورة شعراء تمام ہوئی اللہ کریم قبول فرما کر تکمیل تفسیر کی توفیق بخشیں آمین۔
Top