Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 36
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : آیا ان کے پاس مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : ہماری نشانیوں کے ساتھ بَيِّنٰتٍ : کھلی۔ واضح قَالُوْا : وہ بولے مَا هٰذَآ : نہیں ہے یہ اِلَّا : مگر سِحْرٌ : ایک جادو مُّفْتَرًى : افترا کیا ہوا وَّ : اور مَا سَمِعْنَا : نہیں سنا ہے ہم نے بِهٰذَا : یہ۔ ایسی بات فِيْٓ : میں اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِيْنَ : اپنے اگلے باپ دادا
اور جب موسیٰ ان کے پاس ہماری کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے جو اس نے بنا کھڑا کیا ہے اور یہ (باتیں) ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو (کبھی) سنیں نہیں
36۔ 37 جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس معجزات لے کر گئے تو انہوں نے سرکشی کی راہ سے ان معجزات کو یہ کہا کہ یہ جادو جوڑا ہوا ہے اور ہم نے اپنے باپ دادا سے کبھی یہ نہیں سنا کہ فرعون کے سوا اور کوئی خدا ہے اسی کی عبادت چاہیے ہم نے تو یہی بات ہیمشہ دیکھی کہ لوگ فرعون کو خدا جانتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میرا پروردگار ایسے شخص کی عقبے کی بہتری کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لایا یہ یاد رہے کہ مشرک لوگ جو بڑے ظالم ہیں کبھی فلاح نہ پاویں گے میرے تمہارے درمیان میں پروردگار جلد فیصلہ کرے گا۔ یہ اوپر ایک جگہ گزچکا ہے کہ فرعون کے زمانہ میں جادو کا بڑا زور تھا اس لیے فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کو جادو ٹھہرایا ‘ سورة الشعرا میں گذر چکا ہے کہ فرعون اپنے کو خدا کہلواتا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ فرعون کے سوا کوئی دوسرا خدا تم قرار دوگے تو تم کو قید کردیا جائے گا اسی طرح آگے آتا ہے کہ فرعون نے اپنے دربار والوں سے کہا ما علمت لکم من اٰلہ غیری جس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون اپنے آپ کو خدا جانتا تھا اور اپنے دربار والوں سے اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا اسی واسطے ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی وحدانیت کی نصیحت کو سن کر اسے ایک اچنبھے کی بات قرار دیا۔ فرعون اتنی بات میں تو دہر یہ تھا کہ دہر یہ فرقہ کی طرح وہ خدا کی ہستی کا قائل نہیں تھا لیکن اس میں یہ بات دہر یہ فرقہ سے بڑھ کر تھی کہ وہ اپنے آپ کو خدا کہتا تھا۔ فرعون اور فرعونیوں کی گمراہی کی باتوں کا جو جو اب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیا اس کا حاصل وہی ہے جو سورة نمل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق ان لوگوں کی دلی حالت کو ظاہر کر کے ان کی گمراہی کی باتوں کا جواب دیا ہے کہ جادو گروں کے ہار جانے اور قحط وغیرہ آفتوں کے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ٹل جانے کے سبب سے ان لوگوں کے دلوں میں تو یہ بات جم گئی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی خلاف عادت باتیں نہ جادو ہیں نہ فرعون کو خدا کو خدائی میں دخل ہے لیکن اپنی ناانصافی اور سرکشی کے سبب سے یہ لوگ ایسی بتایں کرتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی مختصر طور پر یہی جواب دیا کہ دل میں جم جانے والی اور ناانصافی کی باتوں کا اللہ تعالیٰ کو خوب خیال معلوم ہے مگر یہ یاد رکھو کہ عادت الٰہی کے موافق بےانصاف لوگ کبھی بھلائی کو نہیں پہنچتے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے ہونے سے پہلے جو لوگ علم الٰہی میں گمراہ اور دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پاچکے ہیں وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ویسے ہی کام کرتے ہیں اور وہی کام ان کو اچھے نظر آتے ہیں۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے متواتر معجزے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کی قدرت اور موسیٰ (علیہ السلام) کی پیغمبری ان سب باتوں کا یقین تو فرعون اور ان کی ساتھیوں کے دلوں میں پیدا ہوگیا تھا لیکن یہ لوگ علم الٰہی میں گمراہ اور دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پاچکے تھے اس لیے اپنی گمراہی کی باتوں سے باز نہ آئے آخر اللہ کہ رسول کی پیشین گوئی کے موافق دونوں جہان میں بھلائی سے محروم رہے دینا میں نہایت بےکسی سے ڈوب کر ہلاک ہوئے اور عقبیٰ کا عذاب جدا بھگتنا پڑا۔
Top