Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 36
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : آیا ان کے پاس مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : ہماری نشانیوں کے ساتھ بَيِّنٰتٍ : کھلی۔ واضح قَالُوْا : وہ بولے مَا هٰذَآ : نہیں ہے یہ اِلَّا : مگر سِحْرٌ : ایک جادو مُّفْتَرًى : افترا کیا ہوا وَّ : اور مَا سَمِعْنَا : نہیں سنا ہے ہم نے بِهٰذَا : یہ۔ ایسی بات فِيْٓ : میں اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِيْنَ : اپنے اگلے باپ دادا
پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) کھلی نشانیوں کے ساتھ ( فرعون کے پاس) آئے تو کہنے لگا کہ یہ تو ایک گھڑا ہوا جادو ہے۔ اور ہم نے ایسی بات اپنے گذرے ہوئے باپ دادا سے بھی نہیں سنی۔
لغات القرآن : آیت نمبر 36 تا 42 : مفتری (گھڑا گیا۔ بنایا گیا) ‘ ماسمعنا (ہم نے نہیں سنا) ‘ عاقبۃ الدار (آخرت کا گھر) اوقد ( بھڑکادے۔ جلادے) الطین (مٹی۔ گارا) ‘ صرح ( بلند محل۔ اونچی بلڈنگ) ‘ اطلع (میں جھانکتا ہوں) نبذنا ( ہم نے پھینک دیا) ‘ المقبوحین ( بد حال لوگ) ۔ تشریح : آیت نمبر 36 تا 42 : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھلی نشانیوں یعنی معجزات کے ساتھ فرعون کے بھرے دربار میں پہنچے تو معجزات کو دیکھ کر فرعون کہنے لگا کہ یہ معجزات نہیں ہیں بلکہ خود سے گھڑا ہواوہ جادو ہے جس کے ذریعہ وہ لوگوں کے دل جیتنا چاہتا ہے۔ حالانکہ ایسی باتیں ہم نے پہلے تو کبھی بھی نہ دیکھیں نہ سنیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے جتنی نشانیاں پیش کی ہیں ان پر میرا پروردگار گواہ ہے۔ وہ رب خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے۔ البتہ ایک بات مجھے معلوم ہے کہ اے فرعون تو جس تکبر اور غرور کے راستے پر چل رہا ہے وہ ظلم ہے اور اللہ کا دستور یہ ہے کہ ظالم کو کبھی فلاح اور کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ تکبر اور غرور سے فرعون کہنے لگا کہ اے درباریو ! مجھے تو زمین پر اپنے سوا کوئی دوسرا معبود معلوم نہیں ہے۔ مذاق اڑاتے ہوء کہنے لگا شاید آسمان پر ہو تو اے ہامان پکی اینٹوں کی ایک ایسی مضبوط اور اونچی بلڈنگ بنادے جس پر چڑھ کر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے معبود کو دیکھ سکوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور یہ جھوٹے لوگوں میں سے ہیں۔ فرعون اور اس کے لشکریوں کا غرور و کتبر بڑھتا چلا گیا اور وہ اس تصرو سے بےنیاز ہو کر چلتے رہے کہ ان کو آخر کار ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ فرمایا جب فرعون اور اس کے ماننے والوں کا ظلم و ستم اور نافرمانی حد سے بڑھ گئی تب ہم نے فرعون اور اس کے لشکریوں کو سمندر میں غرق کردیا اور قیامت تک آنے والی نسلوں کو بتادیا کہ ظالموں کا انجام کس قدر بھیانک ہوا کرتا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے ان ظالموں کو پیشوائی اور عظمت کا مقام عطا کیا تھا مگر انہوں نے لوگوں کو عدل و انصاف کے بجائے کفر اور ظلم کی طرف بلایا جس نے ان کو جہنم کے کنارے تک پہنچادیا جس سے ان کے چہرے بگڑ کر رہ گئے۔ چہر سیاہ اور آنکھیں نیلی پڑگئیں اور ایسے قابل لعنت بن گئے کہ اس دنیا میں اور آخرت میں وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے اور ہر ایک کے نزدیک لعنت و ملامت کا نشان بن کر رہ گئے۔
Top