Mafhoom-ul-Quran - Al-Fath : 22
وَ لَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
وَلَوْ قٰتَلَكُمُ : اور اگر تم سے لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لَوَلَّوُا : البتہ وہ پھیرتے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ : پھر وہ نہ پاتے وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ کوئی مددگار
اور اگر تم سے کافر لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر کسی کو دوست نہ پاتے اور نہ مددگار۔
کامیابیاں مسلمانوں کی ہی ہوں گی تشریح : ان آیات میں اللہ کی ان نعمتوں برکتوں اور حکمتوں کا ذکر بڑی وضاحت سے کیا گیا ہے جو صلح حدیبیہ کی صورت میں مسلمانوں پر ظاہر ہوئیں۔ اگر اس وقت جنگ ہوجاتی تو بھی حق کو ہی فتح ہونی تھی کیونکہ اللہ حق کا ساتھ دینے کا وعدہ کرچکا ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو اخلاقی تربیت بھی دی گئی ہے۔ جذبات پر قابو رکھنا غصہ کو دبانادور اندیشی سے کام لینا اور ظاہری فائدہ کی خاطر رسول ﷺ اور اللہ کے احکامات کے خلاف کام نہ کرنا۔ ہر صورت توحید، ایمان، مستقل مزاجی اور اتباع رسول ﷺ کو زندگی کا حصہ بنائے رکھنا ضروری ہے۔ صلح حدیبیہ کا واقعہ پورے کا پورا اسی حقیقت کے گرد گھومتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو بندوں کے سامنے ظاہر کرتا رہتا ہے۔ نبی مکرم ﷺ کا عمرہ کے لیے جانا اس کی بنیاد بنا۔ حرم میں داخلہ سے منع کرنا ان کے اصول کے خلاف تھا مگر انہوں نے صرف نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں سے دشمنی کی وجہ سے یہ اپنے ہی اصول کے خلاف کام کیا جو خود ان کے حق میں ہی ہر طرح سے ناکامی اور شکست کا باعث بن گیا۔ مثلاً انہوں نے آزاد مسلم قوم کا اقرار خود کرلیا یہ پہلی کامیابی ہوئی۔ دوسری وہ مسلمانوں کے رعب میں آگئے اور خود صلح کی درخواست کی اور اس طرح مسلمانوں کو ہی فائدہ ہوا۔ ایک یہ کہ مکہ میں رہنے والے ایسے مسلمان قتل ہونے سے بچ گئے جنہوں نے قبول اسلام کا اعلان نہ کیا تھا بلکہ مخفی طور پر مسلمان ہوچکے تھے۔ تیسرا۔ کچھ ایسے لوگ قتل ہونے سے بچ گئے جن کے دل ایمان کی طرف مائل ہوچکے تھے جو کچھ مہلت ملنے پر بہترین صاحب ایمان ثابت ہوئے مثلاً حضرت خالد ؓ حضرت عمر وبن العاص ؓ اور بہت سے لوگ جو صلح کے بعد ایمان لائے اور بہترین جرنیل اور سیاستدان کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ چوتھا۔ عام میل ملاقات شروع ہوگئی جس سے دین اسلام کی خوبیاں تمام خلقت پر ظاہر ہونے لگیں اور لوگ دھڑا دھڑ مسلمان ہونے لگے۔ سب کو معلوم ہوگیا کہ اسلام امن اور محبت کا دین ہے۔ پانچواں۔ یہاں مسلمان کی تعریف ملتی ہے۔ جو ہمیشہ مثبت رد عمل کا ثبوت دیتا ہے یعنی اس کا سلوک دوسروں کے ساتھ عام حالات میں تو بہترین ہوتا ہی ہے لیکن جب کوئیـ اس کے ساتھ زیادتی کرے تب بھی وہ ایک بااصول خدا پرست انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا۔ بلکہ صبرو تحمل اور عفو و برداشت سے کام لے کر کوئی بہترین راستہ تلاش کرتا ہے اور یہ اللہ کو بےحد پسند ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو اپنے خاص محبوب ترین بندے کہتا ہے ان کی ہر صورت مدد فرماتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا ” اے اللہ میرے دل کو ہدایت دے اور میری زبان کو قول سدید کی توفیق دے “۔ (از ابو داؤد، الترمزی، احمد) ظاہر ہوا کہ قول سدید (درست قول یا بات) کسی انسان کے مومن ہونے کا ثبوت ہے الحمد للہ کہ ہم مسلمان ہیں اللہ ہمیں بہترین مسلمان ہونے کی توفیق دے۔ (آمین)
Top