Al-Quran-al-Kareem - Al-Kahf : 77
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ اِ۟سْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ١ؕ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَآ اَتَيَآ : جب وہ دونوں آئے اَهْلَ قَرْيَةِ : ایک گاؤں والوں کے پاس اسْتَطْعَمَآ : دونوں نے کھانا مانگا اَهْلَهَا : اس کے باشندے فَاَبَوْا اَنْ : تو انہوں نے انکار کردیا کہ يُّضَيِّفُوْهُمَا : وہ ان کی ضیافت کریں فَوَجَدَا : پھر انہوں نے پائی (دیکھی) فِيْهَا جِدَارًا : اس میں (وہاں) ایک دیوار يُّرِيْدُ : وہ چاہتی تھی اَنْ يَّنْقَضَّ : کہ وہ گرپڑے فَاَقَامَهٗ : تو اس نے اسے سیدھا کردیا قَالَ : اس نے کہا لَوْ شِئْتَ : اگر تم چاہتے لَتَّخَذْتَ : لے لیتے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : اجرت
پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے انکار کردیا کہ ان کی مہمان نوازی کریں، پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے تو اس نے اسے سیدھا کردیا۔ کہا اگر تو چاہتا تو ضرور اس پر کچھ اجرت لے لیتا۔
اسْـتَطْعَمَآ اَهْلَهَا : بعض صوفیوں نے اس آیت سے گدائی کے مستحب ہونے کا استدلال کیا ہے اور اسے باقاعدہ سالک کے آداب میں شمار کیا ہے، اس لیے عموماً صوفی لوگ روزی کمانے کے بجائے گدائی کو اور دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کو کمال ولایت و توکل سمجھتے ہیں اور اس کام میں مہارت رکھتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی جہالت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَا زَال الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰی یَأْتِيَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ فِيْ وَجْھِہِ مُزْعَۃُ لَحْمٍ) [ بخاري، الزکوٰۃ، باب من سأل تکثرًا : 1474۔ مسلم : 104؍ 1040 ] ”آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی بوٹی نہیں ہوگی۔“ ان دونوں انبیاء نے اپنے حق کا سوال کیا ہے جو بطور ضیافت بستی والوں پر فرض تھا۔ عقبہ بن عامر ؓ نے بیان کیا کہ ہم نے نبی ﷺ سے عرض کیا : (إِنَّکَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ لَا یَقْرُوْنَنَا، فَمَا تَرَی فِیْہِ ؟ فَقَالَ لَنَا إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍِ فَأُمِرَ لَکُمْ بِمَا یَنْبَغِيْ للضَّیْفِ فَاقْبَلُوْا، فَإِنْ لَّمْ یَفْعَلُوْا فَخُذُوْا مِنْھُمْ حَقَّ الضَّیْفِ) [ بخاري، المظالم، باب قصاص المظلوم إذا وجد مال ظالمہ : 2461۔ مسلم : 1727 ] ”آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور ہم کسی قوم کے پاس جاتے ہیں اور وہ ہماری ضیافت نہیں کرتے، تو آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟“ آپ ﷺ نے ہمیں فرمایا : ”اگر تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور تمہارے لیے ان چیزوں کا حکم دیا جائے جو مہمان کے لیے چاہییں تو قبول کرلو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا حق لے لو۔“
Top