Tafseer-e-Haqqani - Al-Kahf : 24
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا كَيْفَ : کیسی ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : مثال كَلِمَةً طَيِّبَةً : کلمہ طیبہ (پاک بات) كَشَجَرَةٍ : جیسے درخت طَيِّبَةٍ : پاکیزہ اَصْلُهَا : اس کی جڑ ثَابِتٌ : مضبوط وَّفَرْعُهَا : اور اس کی شاخ فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان
(اے مخاطب ! ) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ پاک کی ایسی مثال بیان کی ہے کہ گویا وہ ایک پاک درخت ہے کہ جس کی جڑ مستحکم اور اس کی شاخ آسمان میں ہے
ترکیب : کلمۃ موصوف طیبۃ صفت بدل ہے مثلاً سے اور کشجرۃ الخ کلمۃ کی لغت اور بعض نے کلمۃ کو مرفوع پڑھا ہے کہ کشجرہ کو خبر مانا ہے تؤتی لغت ہے فی الحیوٰۃ الدنیا متعلق ہے یثبت سے اور ممکن ہے کہ کشجرۃ خبر ہو مبتدا مخدوف کی ای ہے اور پھر طیبۃ اور اصلہا و توتی یہ سب شجرہ کی لغت ہوں اور جملہ بدل ہو مثلاً سے تفسیر : اشقیاء اور سعداء کا حال بیان فرما کر ان کے حال کی زیادہ تشریح کرنے کو ایک مثال بیان فرماتا ہے اور وہ یہ ہے کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ شجرہ طیبہ یعنی پاک یا اچھے اور عمدہ پیڑ کے چار وصف بیان فرما کر کلمہ طیبہ کو اس کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے اول 2 ؎ صفت طیبۃ ہونا یعنی اچھا ہونا خواہ باعتبار شکل و صورت کے ہو خواہ باعتبار اس کے پھل پھولوں کی عمدگی کے ہو کہ خوشبودار اور شیریں اور لذیذ ہوں خواہ باعتبار اس کے منافع کے ہو۔ دوم اصلہا ثابت کہ وہ اس خوبی کے ساتھ ایسا نہیں کہ یونہی ہوا یا اور کسی تھوڑے سے صدمہ سے اکھڑ جاوے تاکہ رنج کا باعث ہو بلکہ اس کی جر قائم اور مستحکم ہو جو زوال پذیر نہیں۔ سوم فرعہا فی السماء کہ اس کی شاخیں مرتفع اور بلند ہوں جس سے پیڑ کی مضبوطی اور جڑ کا قیام اور اس کے پھلوں کا قاذورات اور زمین کے عفونات سے پاک ہونا معلوم ہوتا ہے۔ چہارم اس کے پھل ہمیشہ آتے ہیں اور ہر وقت موجود رہتے ہیں اور درختوں کی طرح نہیں۔ اب اس درخت مرغوب الطبع کے ساتھ کلمہ طیبہ کو تشبیہ دیتا ہے خواہ ایسا درخت دنیا میں کوئی موجود ہو یا نہ ہو خواہ اس کو کھجور کے درخت سے تعبیر کرو یا انگور سے یا کسی اور سے کلمہ طیبہ کیا ہے جس میں یہ چار وصف پائے جاتے ہیں وہ بقول اکثر مفسرین کلمہ توحید لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے سو یہ کلمہ طیبہ ہے اس کی عمدگی یہ ہے کہ انسان کے دل میں اس سے معرفتِ الٰہی کا ایک عمدہ پیڑ لگتا ہے کہ جس کی خوبی دنیا کی تمام خوبیوں سے بڑھ کر ہے کس لئے کہ لذت ادراک ملائم کا نام ہے جماع اکل و شرب میں حواس مدرک اور دنیا کی تاریک چیزیں مدرک اس پر یہ لذت۔ پھر جہاں روح مدرک اور حق سبحانہ مدرک ہو تو پھر اس لذت کے 2 ؎ خلاصہ یہ کہ ایمان اور خدا پرستی جس کی کج کی کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے وہ ایسے درخت کی مانند ہے کہ جس کی جڑ مضبوط اور بلند دررخت ہے اور جس کے نیک پھل ہر وقت دنیا و آخرت میں ملتے رہتے ہیں اور کلمہ خبیثہ یعنی کفر و بد اعتقادی و بدکاری کا قولاً و فعلاً عمل میں لانا ایسے کمزور پیڑ سے مشابہ ہے کہ جس کی کچھ بھی اصل نہیں۔ 12 منہ کیا کہنے ہیں ؟ اس کے علاوہ لذائذِ دنیا تکلیف پر مبنی ہیں بھوک نہ ہو تو کھانے میں مزہ نہ آوے ‘ پیاس نہ لگے تو سرد پانی سے حظ نہ پاوے۔ برخلاف روحانی لذات کے اور نیز جسمانی لذتیں ایک ساعت کے بعد جاتی رہتی ہیں۔ برخلاف روحانی لذت کے دوسری صفت بھی اس میں موجود ہے کیونکہ اس شجر کی جڑیں نفس قدسیہ میں گڑی ہوئی ہیں اور نفس جوہر مجرد ہے فساد سے پاک ہے تغیر و فنا سے بری ہے اور نیز اس کی جڑوں میں حق نورالنور اور مبدء ظہور کی تجلیات کا پانی دیا جاتا ہے۔ تیسری صفت بھی اس میں عمدہ طرح سے پائی جاتی ہے اس شجرہ معرفت کی دو شاخیں ہیں ایک ہوائِ الٓہی میں اور دوسری ہوائِ ، عالم جسمانی میں اٹھی ہوئی ہے نوع اول کے بہت سے اقسام ہیں مگر انکا عطردوبات میں (اول التعظیم لامر اللہ) اس میں یہ چیزیں ہیں خدا تعالیٰ کی معرفت کے دلائل میں تامل کرنا جو عالم اجسام اور عالم افلاک اور عالم سفلی میں موجود ہیں اور اسی کے شوق اور محبت میں رہنا ‘ اسی کو یاد کرنا ‘ اسی پر اعتماد کلی کرنا وغیرہ وغیرہ۔ دوسری شاخ کہ جس کو آنحضرت ﷺ نے (والشفقۃ علی خلق اللہ) سے تعبیر کیا ہے اس میں مخلوق پر رحم کرنا ‘ انتقام سے درگزکر نا ‘ برائی کے مقابلہ میں بھلائی کرنا بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ تیسری صفت اس کا مرتفع ہونا سو وہ بھی ظاہر ہے چوتھی صفت ہر وقت پھل لانا سو یہ بھی اس شجرہ میں ظاہر ہے جس کے دل میں یہ شجرہ ہوگا وہ اس سے ہر وقت منتفع رہے گا اچھے نتائج دیکھے گا اور اس میں الہامات نفسانیہ اور ملکات روحانیہ کی طرف سے بھی اشارہ ہے جو وقتاً فوقتاً روح پر پیدا ہوتے ہیں پھر اس کو نیک کاموں پر برانگیختہ کرتے ہیں اس کے مقابلہ میں کفر کو شجرہ خبیثہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور کلمہ خبیثہ کفر اور اس کی نافرمانی کرنا ہے۔ اس کے بعد کلمہ طیبہ کی مضبوطی بیان فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر دنیا و دین میں ایمانداروں کو ثابت قدم رکھے گا دنیا کا ثبات تو ظاہر ہے آخرت کی اول منزل قبر ہے وہاں بھی اس پر یہ ثابت رہے گا منکر نکیر کو جواب شافی دے گا جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ ایمانداروں کو ثابت رکھنا گمراہوں کو گمراہی میں ٹکرانا اس قادر مطلق کا خود اختیاری فعل ہے جس سے کوئی بازپرس نہیں کرسکتا۔
Top