Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 21
یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم ادْخُلُوا : داخل ہو الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ : ارضِ مقدس (اس پاک سرزمین) الَّتِيْ : جو كَتَبَ اللّٰهُ : اللہ نے لکھ دی لَكُمْ : تمہارے لیے وَلَا تَرْتَدُّوْا : اور نہ لوٹو عَلٰٓي : پر اَدْبَارِكُمْ : اپنی پیٹھ فَتَنْقَلِبُوْا : ورنہ تم جا پڑوگے خٰسِرِيْنَ : نقصان میں
اے میری قوم ! اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اس نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھوں پر نہ پھر جاؤ، ورنہ خسارہ اٹھانے والے ہو کر لوٹو گے۔
يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ۔۔ : مراد شام ہے، فلسطین (کنعان) اسی کے ایک علاقے کا نام ہے، کیونکہ یہیں سے بنی اسرائیل مصر گئے تھے اور یہی ان کی آبائی میراث تھی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لکھ دی تھی۔ تورات میں اس وعدے کی صراحتیں موجود ہیں : ”دیکھو میں نے اس ملک کو تمہارے سامنے کردیا ہے، پس جاؤ اور اس ملک کو اپنے قبضہ میں کرلو جس کی بابت خداوند نے تمہارے باپ دادا ابرہام، اور اضحاق اور یعقوب سے قسم کھا کر کہا تھا کہ وہ اسے ان کو اور ان کے بعد ان کی نسل کو دے گا۔“ (استثناء، باب : 8) موسیٰ ؑ کا بنی اسرائیل سے یہ خطاب اس موقع پر ہے جب وہ مصر سے نکلنے کے بعد جزیرہ نمائے سینا میں خیمہ زن تھے اور ان پر من وسلویٰ اتر رہا تھا۔ (ابن کثیر)
Top