Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 180
وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَجَآءَ : اور آئے اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ : شہر والے يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوشیاں مناتے
اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں، انھیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى: ”الْحُسْنٰى“ یہ ”اَلْأَحْسَنُ“ کی مؤنث ہے، سب سے اچھے نام۔ ”لِلّٰهِ“ خبر کو پہلے لانے سے حصر پیدا ہوگیا کہ سب سے اچھے نام اور صفات صرف اور صرف اللہ کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ پچھلی آیت میں مذکور ضلالت اور جہنم سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انھی ناموں کے ساتھ اسے پکارو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ اسْمًا، مِاءَۃً إِلَّا وَاحِدَۃً ، مَنْ أَحْصَاھَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ)”بیشک اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ہیں، جو ان کا احصاء کرلے جنت میں داخل ہوگا۔“ [ بخاری، الشروط، باب ما یجوز من الاشتراط۔۔ : 2736، عن أبی ہریرہ ؓ ] احصاء کا معنی یاد کرنا، شمار کرنا اور حفاظت کرنا سبھی آتے ہیں، یعنی ان کے معانی پر ایمان لائے، برکت اور ثواب کے لیے اخلاص کے ساتھ انھیں گن گن کر پڑھے، انھیں حفظ کرے اور ان کے تقاضوں کے مطابق اپنے عمل کو ڈھالے۔ حدیث کے جو الفاظ اوپر ذکر ہوئے ہیں وہ تو بہت سی روایات میں صحیح سندوں کے ساتھ آئے ہیں، البتہ ترمذی کی ایک روایت میں ان ننانوے ناموں کی تصریح بھی کردی گئی ہے، مگر اہل علم کا تقریباً اتفاق ہے کہ یہ نام بعض راویوں نے قرآن مجید سے ترتیب دے کر روایت میں شامل کردیے ہیں، ورنہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت روایت میں یہ نام نہیں ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ناموں کے سوا اللہ تعالیٰ کے اور نام نہیں بلکہ قرآن و حدیث میں کئی اور نام بھی آئے ہیں۔ علماء نے اسمائے حسنیٰ پر کتابیں لکھی ہیں، بعض علماء نے قرآن و حدیث سے ہزار سے زیادہ اسمائے حسنیٰ نکالے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی صفات کا شمار نہیں تو اس کے اسماء کا شمار بھی نہیں ہوسکتا۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کئی نام ایسے ہیں جو اس نے کسی کو بھی نہیں بتائے، عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جس شخص کو جب بھی کوئی فکر یا غم لاحق ہو وہ یہ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا غم و فکر دور کردیتا ہے۔“ آپ سے عرض کیا گیا : ”یا رسول اللہ ! ہم اسے سیکھ نہ لیں ؟“ فرمایا : ”جو بھی اسے سنے اسے اس کو سیکھ لینا چاہیے۔“ دعا یہ ہے : (اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ عَبْدُکَ وَ ابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ ، مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُ کَ اَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَکَ اَوْ عَلَّمْتَہُ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِیْ کِتَابِکَ اَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَ نُوْرَ صَدْرِیْ وَجَلَاءَ حُزْنِیْ وَ ذَھَابَ ھَمِّیْ)”اے اللہ ! بیشک میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تیرا فیصلہ مجھ پر نافذ ہے، تیرا فیصلہ میرے بارے میں عین انصاف ہے، میں تیرے ہر نام کے وسیلے سے جسے تو نے خود اپنا نام رکھا ہے، یا اسے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے، یا اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا تو نے اسے علم غیب میں اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے، میں تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غم کا ازالہ اور میرے فکر کو دور کرنے کا ذریعہ بنا دے۔“ [ أحمد : 1؍391، ح : 3711 ] ابن حبان : (972) اور ابو یعلٰی (9؍198، 199، ح : 5297) میں الفاظ میں کچھ فرق ہے۔ اس مبارک دعا میں اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء کے واسطے سے دعا کی گئی ہے اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام صرف ننانوے تک محدود نہیں ہیں۔ حدیث شفاعت میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضری کی اجازت ہوگی اور آپ سجدے میں گرجائیں گے تو اس وقت آپ اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد و ثنا کریں گے جو صرف اسی وقت اللہ تعالیٰ آپ کو سکھائے گا۔ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : (وجوہ یومئذ ناضرۃ۔۔) : 7440۔ مسلم : 194 ] فَادْعُوْهُ بِهَا ۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ : اللہ کا ذاتی نام ایک ہی ہے اور وہ اللہ ہے، باقی صفاتی نام ہیں۔ فرمایا ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں کج روی اختیار کرتے، یعنی سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں۔ سیدھے راستے سے ہٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس سے اس کا کوئی نام رکھ لے، یا ایسے لفظ سے پکارے جس سے اللہ تعالیٰ کی شان میں کمی ہوتی ہو۔ بعض قوموں میں اللہ تعالیٰ کے ایسے نام رائج ہیں جو ایک سے زائد معبودوں میں سے کسی ایک پر بولے جاتے ہیں، مثلاً یزدان، بھگوان اور رام وغیرہ، ایسے نام اللہ تعالیٰ پر بولنے سے بچنا فرض ہے۔ سیدھے راستے سے ہٹنے کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کو بگاڑ کر بتوں کے نام رکھے جائیں، جسے اللات، العزیٰ اور منات کہ یہ لفظ اللہ، عزیز اور منان کی بگاڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ (ابن کثیر) شاہ عبد القادر ؓ نے کج روی کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے : ”اللہ تعالیٰ کے اسماء کو ٹونے ٹوٹکوں میں استعمال کیا جائے، ایسے لوگوں کو دنیوی مطلب اگرچہ حاصل ہوجائے مگر سزا ان کو ضرور ملے گی۔“ (موضح) اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ان کے واضح معنی سے انکار کردیا جائے (یہ تعطیل ہے) ، یا تحریف کردی جائے اور اسے تاویل کا نام دیا جائے، یا ان کو مخلوق کے مشابہ سمجھا جائے (یہ تشبیہ ہے) ، یا کہا جائے کہ معلوم ہی نہیں ان کا معنی کیا ہے (یہ تفویض ہے) بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان صفات پر مشتمل الفاظ کا جو معنی ہے وہ سب کو معلوم ہے، مثلاً ”سَمِیْعٌ“ کا معنی سننے والا ہے، مگر وہ اس طرح ہے جس طرح اللہ کی شان کے لائق ہے۔ رہا یہ کہ وہ کیسے ہے ؟ اس کی کیفیت کیا ہے ؟ یہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردی جائے۔ عربی زبان میں اللہ تعالیٰ کے کسی صفاتی نام کا اگر ترجمہ اپنی زبان میں کردیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، مثلاً رب کو پروردگار، یا پالنے والا، رزاق کو روزی دینے والا کہہ دیا جائے تو یہ جائز ہے۔
Top