Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 59
یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ١ؕ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
يَتَوَارٰى : چھپتا پھرتا ہے مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم (لوگ) مِنْ : سے بسبب سُوْٓءِ : برائی مَا : جو بُشِّرَ بِهٖ : خوشخبری دی گئی جس کی اَيُمْسِكُهٗ : یا اس کو رکھے عَلٰي هُوْنٍ : رسوائی کے ساتھ اَمْ : یا يَدُسُّهٗ : دبا دے (دفن کردے) فِي التُّرَابِ : مٹی میں اَلَا : یاد رکھو سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کرتے ہیں
جس بات کی اس کو خبر دی گئی ہے ایسی برائی کی بات ہوئی کہ لوگوں سے چھپتا پھرے ذلت قبول کر کے بیٹی کو لیے رہے یا مٹی کے تلے گاڑ دے افسوس ان پر ! کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں
بیٹی کی خبر سن کر لوگوں سے چھپتے پھرنا کتنی بڑی جہالت ہے : 67۔ مشرکین مکہ نے جن بتوں کے نام لات ‘ منات ‘ عزی وغیرہ رکھا تھا وہ کیا تھے ؟ اللہ کی نیک بندیاں ہی تو تھیں ، جب وہ اس دنیا سے اٹھالی گئیں تو انہوں نے ان کے بت بنا کر رکھ لئے اور ان کی پرستش کرتے ‘ کن کی ؟ ان بتوں کی ، نہیں وہ اس دانیا سے اٹھالی گئیں تو انہوں نے ان کے بت بنا کر رکھ لئے اور ان کی پرستش کرتے ‘ کن کی ؟ ان بتوں کی ۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ان لوگوں کی جن کے یہ بت بنائے گئے تھے ، ظاہر ہے کہ وہ عورتیں ہی تو تھیں پھر انہوں نے ان کی پرستش کیوں شروع کردی ؟ اس لئے کہ ان کے آباء و اجداد کے تخیل میں وہ اللہ کی بندیاں یا اس کی بیٹیاں ہی ہوں گی خواہ وہ انسانوں میں سے تھیں ‘ یا فرشتوں میں سے ‘ ان کا تعلق انہیں نے جوڑ رکھا تھا ، فرمایا یہ لوگ کیسے ہیں کہ ” انہوں نے فرشتوں کو جو خدائے رحمن کے خاص بندے ہیں عورتیں قرار دے لیا ہے ‘ کیا ان کے جسم کی ساخت انہوں نے دییھ ہے ؟ اچھا ان کی یہ گواہی لکھ لی گئی ہے اور انہیں اس کی جوابدہی کرنا ہوگی ۔ “ (الزخرف : 43 : 20) ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینے والے اپنے پاس دو دلیلیں رکھتے تھے اور دونوں ہی من گھڑت تھیں ، دلیل تو وہ ہوتی ہے جس میں کوئی وزن ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو یا کم از کم اللہ کے کسی رسول کی طرف سے اور اس کو دلیل نقلی کہیں گے اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ایسی دلیل ہو جس کو انسانی عقل قبول کرے اور اس کا کوئی عقلی جواب موجود نہ ہو اور اس کو عقلی جواب موجود نہ ہو اور اس کو عقلی دلیل کے نام سے بیان کیا جاتا ہے اب ان کی دلیل سنو وہ کہتے تھے کہ ” اگر خدائے رحمن نہ چاہتا کہ ہم ان کی عبادت کریں تو ہم کبھی ان کو پوجتے ؟ “ (الزخرف 43 : 20) اور اس کا جواب ان کو نقد بنقد خود اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے رسول کے ذریعہ سے سنا دیا کہ ” یہ اس معاملہ کی حقیقت کو قطعا نہیں جانتے محض تیرت کے لڑاتے ہیں۔ “ (الزخرف : 43) غور کرو کہ جو جواب انہوں نے دیا اس کا تو صاف مطلب یہ بنتا ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ کوئی کرتا ہے خواہ وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو میں نہ کرتا کیا میں اس سے زیادہ زور آور ہوں کہ میں نے اس کی مرضی کے خلاف کیا ہے ۔ چناچہ خود اللہ نے ان سے یہ بات فرما دی کہ ایسے تیر تکے نہ چلاؤ کوئی علم کی بات کرو ” کیا ہم نے اس سے پہلے کوئی کتاب ان کو دی تھی جس کی سند کے تحت یہ لوگ ملائکہ پرستی کرتے اور ان کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں ؟ “ (الزخرف 43 : 21) نہیں اور ہرگز نہیں یعنی کوئی نقلی دلیل تو ان کے پاس نہیں ہاں ! ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ” ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسے کرتے پایا ہے اور ہم انہیں کے نقش قدم پر چل رہے ۔ “ (الزخرف : 43 : 22) اور یہ دلیل ان کی پہلی دلیل سے بھی گئی گزری ہے غور کرو کہ چور ‘ ڈاکو ‘ زانی ‘ شرابی اور قاتل سے اگر پوچھا جائے کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو اس کا صرف یہ کہہ دینا کہ میں نے چوری اس لئے کی ہے کہ اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے دیکھا ہے وقس علی ہذا تو کیا یہ دلیل اس کی دلیل ہوگی حالانکہ اتنی بات تو آپ کو بھی تسلیم ہے کہ چوریاں ‘ ڈاکے ‘ زنا ہوتے چلے آتے ہیں اور لوگ شراب پیتے رہے اور لوگوں کو قتل کرنے والے بھی بہرحال قتل کرتے ہی رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس دلیل کو کوئی دلیل نہیں کہہ سکتا ۔ اس مضمون کو پیچھے سورة الانعام آیت 107 ‘ 112 ‘ 137 ‘ 148 ‘ 149 جلد سوم تفسیر ” عروۃ الوثقی “ میں بڑی تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیں۔
Top