Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 59
یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ١ؕ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
يَتَوَارٰى : چھپتا پھرتا ہے مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم (لوگ) مِنْ : سے بسبب سُوْٓءِ : برائی مَا : جو بُشِّرَ بِهٖ : خوشخبری دی گئی جس کی اَيُمْسِكُهٗ : یا اس کو رکھے عَلٰي هُوْنٍ : رسوائی کے ساتھ اَمْ : یا يَدُسُّهٗ : دبا دے (دفن کردے) فِي التُّرَابِ : مٹی میں اَلَا : یاد رکھو سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کرتے ہیں
اور اس خبر بد سے (جو وہ سنتا ہے) لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے
یتواری من القوم من سوء ما بشر بہ اور جس چیز (لڑکی) کی اس کو اطلاع دی جاتی ہے ‘ اس کی عار سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ الْقَوْم سے مراد ہے : اپنے لوگ۔ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب (تردد میں پڑجاتا ہے) کہ اس کو ذلت کی حالت میں (اپنے پاس) روکے رکھے یا مٹی میں اس کو (زندہ) گاڑ دے۔ یَدُسُّ چھپا دے ‘ دفن کر دے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ قبیلۂ مضر اور بنی خزاعہ اور بنی تمیم لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ ایک تو ان کو ناداری کا اندیشہ ہوتا تھا (کہ لڑکیاں تو صرف کھانے پہننے کی ہیں ‘ لوٹ مار کر کے کہیں سے کچھ لا نہیں سکتیں) دوسرے یہ کہ (ناداری کو دیکھ کر) غیر کفو کہیں ان سے نکاح کرنے کا لالچ نہ کرنے لگیں۔ عرب کے بعض لوگوں کا دستور تھا کہ جب لڑکی پیدا ہوتی اور وہ اس کو زندہ رکھنا چاہتا تو ان کو اون کا یا بالوں کا کرتہ پہنا کر جانور چرانے کی خدمت پر لگا دیتا تھا اور اگر قتل کردینا چاہتا تو چھ سال کی عمر تک اس کو چھوڑے رکھتا۔ جب وہ چھ سال کی ہوجاتی تو اس کی ماں کو کہتا : اس کو بنا سنوار کر تیار کر دے۔ پھر اس کو کہیں جنگل میں لے جاتا ‘ وہاں پہلے سے ایک گہرا گڑھا کھود کر تیار رکھتا۔ جب لڑکی کو لے کر وہاں پہنچتا تو لڑکی سے کہتا : دیکھ تو اس گڑھے میں کیا ہے۔ لڑکی دیکھنے کو جونہی جھکتی ‘ یہ سنگدل باپ پیچھے سے اس کو دھکادے دیتا اور اوپر سے مٹی ڈال کر زندہ دفن کردیتا اور گڑھے کو ہموار کردیتا۔ فرزوق کے دادا صعصعہ کو اگر کہیں اس کی سن گن مل جاتی تو لڑکی کے باپ کے پاس لڑکی کے عوض کچھ اونٹ بھیج دیتا اور اس طرح لڑکی کی گلوخلاصی ہوجاتی۔ فرزوق نے بطور فخر اسی واقعہ کی طرف ذیل کے شعر میں اشارہ کیا ہے : میرا دادا وہ تھا جس نے زندہ دفن کرنے والوں کو زندہ دفن کرنے سے روکا اور زندہ درگور ہونے والی کو زندگی عطا کی۔ الا سآء ما یحکمون خوب سن لو ‘ ان کی یہ تجویز بہت ہی بری ہے۔ اللہ جو ہر طرح کی اولاد سے پاک ہے ‘ اس کیلئے تو ایسی اولاد تجویز کرتے ہیں جو صنف ادنیٰ ہے اور اپنے لئے لڑکوں کو پسند کرتے ہیں۔ دوسری آیت میں اس کو ناانصافی کی تقسیم قرار دیا ہے۔ فرمایا ہے : اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰی تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی۔
Top