Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 59
یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ١ؕ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
يَتَوَارٰى : چھپتا پھرتا ہے مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم (لوگ) مِنْ : سے بسبب سُوْٓءِ : برائی مَا : جو بُشِّرَ بِهٖ : خوشخبری دی گئی جس کی اَيُمْسِكُهٗ : یا اس کو رکھے عَلٰي هُوْنٍ : رسوائی کے ساتھ اَمْ : یا يَدُسُّهٗ : دبا دے (دفن کردے) فِي التُّرَابِ : مٹی میں اَلَا : یاد رکھو سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کرتے ہیں
لوگوں سے چھُپتا پھرتا ہے کہ اِس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟۔۔۔۔دیکھو ، کیسے بُرے حکم ہیں جو یہ خُدا کے بارے میں لگاتے ہیں۔52
سورة النَّحْل 52 یعنی اپنے لیے جس بیٹی کو یہ لوگ اس قدر موجب ننگ و عار سمجھتے ہیں، اسی کو خدا کے لیے بلا تامل تجویز کردیتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا بجائے خود ایک شدید جہالت اور گستاخی ہے، مشرکین عرب کی اس حرکت پر یہاں اس خاص پہلو سے گرفت اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ کے متعلق ان کے تصور کی پستی واضح کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ مشرکانہ عقائد نے اللہ کے معاملے میں اب جو جس قدر جری اور گستاخ بنادیا ہے اور وہ کس قدر بےحس ہوچکے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے کوئی قباحت تک محسوس نہیں کرتے۔
Top