Al-Qurtubi - An-Nahl : 59
یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ١ؕ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
يَتَوَارٰى : چھپتا پھرتا ہے مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم (لوگ) مِنْ : سے بسبب سُوْٓءِ : برائی مَا : جو بُشِّرَ بِهٖ : خوشخبری دی گئی جس کی اَيُمْسِكُهٗ : یا اس کو رکھے عَلٰي هُوْنٍ : رسوائی کے ساتھ اَمْ : یا يَدُسُّهٗ : دبا دے (دفن کردے) فِي التُّرَابِ : مٹی میں اَلَا : یاد رکھو سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کرتے ہیں
اور اس خبر بد سے (جو وہ سنتا ہے) لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ آیا ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے۔
آیت نمبر 59 قولہ تعالیٰ : یتواری من القوم یعنی لوگوں کی نظروں سے چھپتا پھرتا ہے اور غائب رہتا ہے۔ من سوٓء ما بشربہ یعنی اس غم، ندامت اور شرم و حیا کے سبب جوا سے بیٹی کے سبب لاحق ہوگا۔ ایمس کہ ضمیر کو مذکر ذکر کیا کیونکہ وہ ما کی طرف لوٹائی گئی ہے۔ علی ھون یعنی ذلت و رسوائی کے ساتھ (کیا اسے اپنے پاس رکھے) اور اسی طرح عیسیٰ ثقفی نے علی ھوان پڑھا ہے۔ اور الھون اور الھوان لغت قریش کے مطابق ہیں، یہ یزیدی نے کہا ہے، اور اسے ابوعبید نے کسائی سے بیان کیا ہے۔ اور فراء نے کہا ہے : یہ تھوڑا سا لغت تمیم کے مطابق ہے۔ اور کسائی نے کہا ہے : اس سے مراد بلاء (مصیبت و تکلیف) اور مشقت ہے۔ اور حضرت خنساء (رح) نے کہا ہے : نھین النفوس وھون النفوس یوم الکریھۃ أبقی لھا (اس میں ھون کا لفظ ابتلاء اور مشقت کے معنی میں استعمال ہوا ہے) اور اعمش نے أیمس کہ علی سوء پڑھا ہے، اسے نحاس نے ذکر کیا ہے، اور کہا ہے : جحدری نے ام یدسھا فی التراب پڑھا ہے اور وہ اسے قول باری تعالیٰ بالانثی کی طرف لوٹاتے ہیں۔ اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ أیمسکھا پڑھا جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الھوان (ذلت و رسوائی) بیٹی (البنت) کی طرف راجع ہے، یعنی أیمسکھا وھی مھانۃ عندہ (کیا وہ اسے روکے رکھے اس حال میں کہ وہ اس کے پاس ذلیل و رسوا ہو) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ اس کی طرف لوٹ رہی ہے جس کی ولادت اس کے پاس ہوگی، أیمس کہ علی رغم أنفہ أم یدسہ فی التراب (کیا وہ اسے اپنی ناک خاک آلود کرکے روکے رکھے یا اسے مٹی میں گاڑ دے) اور یہ وہی ہے جو وہ بیٹی کو زندہ دفن کرنے کا عمل کرتے تھے۔ حضرت قتادہ نے کہا ہے : مضر اور خزاعہ قبیلے کے لوگ اپنی بچیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے اور اس بارے میں ان سے زیادہ سخت تمیم تھے۔ انہوں نے گمان کیا کہ ان پر ظلم اور غلبے کا خوف اور غیر کفو کا طمع اور حرص انہیں (بچیوں) میں ہے۔ اور صعصعہ بن ناجیہ جو کہ ردق کا چچا تھا جب اس میں سے کوئی شے محسوس کرتا تو وہ بچی کے والد کی طرف اونٹ بھیجتا اور اس کے ساتھ وہ اس بچی پر شرم و حیا محسوس کرتا، پس فرزدق نے فخر کرتے ہوئے کہا ہے : وعمی الذی منع الوائداث وأحیا الوئید فلم یوأد اور یہ بھی کہا گیا ہے : دسھا کا معنی اسے لوگوں سے چھپانا ہے تاکہ اس کی پہچان ہی نہ ہو، جیسا کہ مدسوس فی التراب یعنی مٹی میں گاڑ دیا جاتا اس نظروں سے چھپانے کے لئے ہے اور اس کا احتمال بھی ہے۔ مسئلہ : صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا : میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، تو اس نے مجھ سے مانگا، سوال کیا اور میں نے اپنے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ پایا۔ پس میں نے وہ کھجور اسے دے دی، اس نے اسے لیا اور اسے اپنی دونوں بچیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور خود اس سے کچھ بھی نہ کھایا، پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کو ساتھ لے کر نکل گئی، میرے پاس حضور نبی مکرم ﷺ تشریف لائے اور میں نے اس کا واقعہ آپ کو عرض کیا، تو حضور نبی رحمت ﷺ نے فرمایا : ” جسے بیٹیوں میں سے کسی سے آزمایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو وہ اس کے لئے آتش جہنم سے پردہ بن جائیں گے “۔ تو یہ حدیث اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ بیٹیاں آزمائش ہیں، پھر آپ نے یہ خبر بھی دی ہے کہ ان کے بارے صبر کرنے میں اور ان کے ساتھ احسان اور نیکی کرنے میں اتنا اجر ہے جو آتش جہنم سے بچا لے گا۔ اور حضرت عائشہ ؓ سے یہ روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میرے پاس ایک مسکین عورت آئی وہ اپنے ساتھ دو بچیوں کو اٹھائے ہوئے تھی، تو میں نے اسے تین کھجوریں عطا کیں تو اسنے ان میں سے ہر ایک کو ایک کھجور دی، اور ایک کھجور اپنے منہ کی طرف اٹھائی تاکہ اسے کھائے اتنے میں اس کی دونوں بچیوں نے وہ مانگ لی پس اس نے اس کھجور کو دو حصوں میں تقسیم کیا جسے وہ کھانا چاہتی تھی اور دونوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا، پس اس کی اس کیفیت اور طرز عمل نے مجھے بہت متعجب کیا، تو جو عمل اسنے کیا تھا میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک اللہ عزوجل نے اس کے بدلے اس کے لئے جنت واجب کردی ہے یا اس کے عوض اسے جہنم سے آزاد کردیا ہے “۔ اور حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے دو بچیوں کی کفالت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح ہوں گے “۔ اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا۔ ان دونوں روایتوں کو امام مسلم (رح) نے بھی نقل کیا ہے۔ اور حافظ ابو نعیم نے اعمش کی حدیث نقل کی ہے حضرت ابو وائل، حضرت عبد اللہ سے بیان کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ جس کی ایک بیٹی ہو پس اس نے اسے ادب سکھایا اور اسے خوب اچھی طرح ادب سکھایا اور اسے تعلیم دلائی اور اسے خوب اچھی طرح تعلیم دلائی اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں اسے عطا کیں جو اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمائیں تو وہ اس کے لئے آتش جہنم سے ستر اور حجاب ہوگی “۔ عقیل بن علفہ کی طرف اس کی بیٹی جرباء کے بارے پیغام نکاح بھیجا گیا تو اس نے کہا : إنی وإن سیق إلی المھر ألف وعبدان وخور عشر أحب أصھاری إلی القبر اور عبد اللہ بن طاہر نے کہا ہے : لکل أبی بنت یراعی شؤونھا ثلاثۃ اصھار اذا حمد الصھر فبعل یراعیھا وخدر یکنھا وقبر یوارھا وخیرھم القبر الا سآء ما یحکمون یعنی بیٹیوں کی نسبت اپنے خالق کی طرف اور بیٹوں کی اضافت اپنی طرف کرنے میں (کتنا غلط فیصلہ وہ کرتے ہیں) اس کی نظیر یہ ہے : الکم الذکر ولہ الانثی۔ (النجم) (کیا تمہارے لئے تو بیٹے ہیں اور اللہ کے لئے نری بیٹیاں۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی۔ (النجم) (یہ تقسیم تو بڑی ظالمانہ ہے) ۔ یعنی یہ ظلم کرنے والی ہے، اس کا بیان آگے آئے گا۔
Top