Anwar-ul-Bayan - Maryam : 7
یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ اِ۟سْمُهٗ یَحْیٰى١ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا
يٰزَكَرِيَّآ : اے زکریا اِنَّا : بیشک ہم نُبَشِّرُكَ : تجھے بشارت دیتے ہیں بِغُلٰمِ : ایک لڑکا اسْمُهٗ : اس کا نام يَحْيٰى : یحییٰ لَمْ نَجْعَلْ : نہیں بنایا ہم نے لَّهٗ : اس کا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل سَمِيًّا : کوئی ہم نام
اے زکریا بیشک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں اس کا نام یحییٰ ہے۔ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔
بیٹے کے لیے زکریا (علیہ السلام) کی دعا اور یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت حضرت زکریا (علیہ السلام) انبیاء بنی اسرائیل میں سے تھے جب ان کی عمر خوب زیادہ ہوگئی بال اچھی طرح سفید ہوگئے تو یہ خیال ہوا کہ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی کتاب توریت شریف اور دینی علوم و اعمال کو کون سنبھالے گا اور ان کی تبلیغ و ترویج میں کون لگے گا خاندان میں جو لوگ تھے ان سے اندیشہ تھا کہ دین کو ضائع کردیں، چونکہ اب تک ان کے ہاں کوئی ایسا لڑکا نہ تھا جو آپ کے علوم اور حکمت اور اعمال دینیہ کا وارث ہوتا لہٰذا انھوں نے اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں خفیہ طور سے دعا کی (جیسا کہ دعا کا ادب ہے) کہ اے میرے رب میری ہڈیاں کمزور ہوگئیں سر میں خوب سفیدی آگئی (اندازہ ہے کہ اب میرا چل چلاؤ ہے) اگر میں اسی حالت میں دنیا سے چلا گیا کہ کوئی میرا دینی وارث نہیں ہے اور ساتھ ہی مجھے اپنے موالی (یعنی چچا کے بیٹوں) سے خوف ہے کہ دین کو محفوظ نہ رکھیں گے تو دینی علوم و اعمال کا بقا کس طرح رہے گا ؟ لہٰذا آپ مجھے ایک بیٹا عنایت فرمایئے، جو میرا ولی ہو وہ میرا بھی وارث ہو اور یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کا بھی وارث ہو اور آپ اس سے راضی ہوں۔ میرے بڑھاپے کا تو یہ حال ہے جو اوپر بیان کیا اور میری بیوی بانجھ ہے تاہم مجھے آپ بیٹا عطا فرما ہی دیں اور ساتھ ہی یوں بھی عرض کیا کہ میں کبھی دعا کر کے محروم نہیں رہا آپ نے ہمیشہ میری دعا قبول فرمائی ہے یہ دعا بھی قبول فرمایئے۔ اپنی میراث سے میراث نبوت اور میراث علم مراد ہے اور آل یعقوب کی میراث سے دینی سیادت مراد ہے حضرت زکریا (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے نبی تو تھے ہی اپنے زمانہ کے احبار کے سردار بھی تھے مطلب یہ تھا کہ یہ علمی اور عملی سرداری جو ہمارے خاندان میں جاری ہے یہ باقی رہے۔ قال البغوی فی معالم التنزیل والمعنی انہ خاف تضییع بنی عمہ دین اللہ وتغییر احکامہ علی ما کان شاھدہ من بنی اسرائیل من تبدیل الدین و قتل الانبیاء فسال ربہ ولدا صالحا یا منہ علی امتہ و یرث نبوتہ و عملہ لئلا یضیع الدین اللہ تعالیٰ شانہ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور بشارت دے دی کہ ہم تمہیں ایسا لڑکا دیں گے جس کا نام یحییٰ ہوگا اور اس سے پہلے ہم نے اس کا کوئی ہم نام پیدا نہیں کیا۔ (لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا) کا ترجمہ بعض مفسرین نے شبیھا و مثیلا کیا ہے کہ اس سے پہلے ہم نے اس جیسا لڑکا پیدا نہیں کیا اور بعض حضرات نے فرمایا ہے اس سے سید اور حصور ہونا مراد ہے جس کا سورة آل عمران میں ذکر ہے۔
Top