Tafseer-e-Jalalain - Maryam : 7
یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ اِ۟سْمُهٗ یَحْیٰى١ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا
يٰزَكَرِيَّآ : اے زکریا اِنَّا : بیشک ہم نُبَشِّرُكَ : تجھے بشارت دیتے ہیں بِغُلٰمِ : ایک لڑکا اسْمُهٗ : اس کا نام يَحْيٰى : یحییٰ لَمْ نَجْعَلْ : نہیں بنایا ہم نے لَّهٗ : اس کا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل سَمِيًّا : کوئی ہم نام
اے زکریا ! ہم تم کو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا
آیت نمبر 7 تا 15 ترجمہ : اے زکریا ہم تجھے ایک فرزند کی خوشخبری دیتے ہیں جو تیری درخواست کے مطابق وارث ہوگا اس کا نام یحییٰ ہوگا اس کا ہمنام پہلے ہم نے کسی کو نہیں کیا یعنی یحییٰ کا ہم نام تو زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار میرے لڑکا کس طرح ہوگا حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہائی درجہ کو پہنچ گیا ہوں عِیِّیًّا عَتَا سے ماخوذ ہے بمعنی یَبِسَ یعنی عمر کے آخری مرحلہ میں پہنچ چکا ہوں جو ایک بیس سال ہے اور میری بیوی 98 سال کی ہوچکی ہے عِتِیٌ اصل عُتُوْوٌ بروزن قُعُوْدٌ تخفیف کے لئے تا کو کسرہ دے دیا اور اول واو کو کسرہ کی مناسبت سے ی سے بدل دیا اور پھر دوسرے واو کو بھی ی سے بدل کر یا کو یا میں ادغام کردیا پھر عین کلمہ کے ضمہ کو بھی تا کی موافقت کے لئے کسرہ سے بدل دیا عِتِیًّا ہوگیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں سے لڑکے کی پیدائش کا معاملہ اسی (موجودہ) حالت میں ہوگا تیرے رب کا فرمان ہے کہ یہ (امر) میرے لئے آسان ہے یعنی یہ کہ میں تجھ میں قوت جماع لوٹا دوں اور استقرار حمل کے لئے تیری بیوی کے رحم کو کھول دوں اور میں نے تم کو پیدا کیا حالانکہ تمہارا اپنی پیدائش سے پہلے وجود بھی نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی قدرت عظیمہ کے اظہار کے لئے (بچے) کے سوال کا خیال حضرت زکریا (علیہ السلام) کے دل میں ڈالا تاکہ اس کے جواب میں ایسا معاملہ کرے جو اس کی قدرت پر دلالت کرے، اور جب زکریا (علیہ السلام) کا دل بعجلت مبشربہ (فرزند) کے لئے مشتاق ہوا تو زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب میرے لئے کوئی علامت مقرر فرما دیجئے یعنی میری بیوی کے حاملہ ہونے کی کوئی نشانی (بتا دیجئے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا حاملہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ تم لوگوں سے کلام نہ کرسکو گے یعنی تم تین دن اور تین راتوں تک لوگوں سے کلام کرنے پر سوائے ذکر اللہ کے صحیح سالم ہونے کے باوجود کلام کرنے پر قادر نہ ہوگی، جیسا کہ آل عمران میں ثلٰثۃ ایام کی (صراحت) موجود ہے سَوِیًّا تُکَلِّمُ کے فاعل سے حال ہے یعنی بلا کسی مرض کے (کلام نہ کرسکو گے) پس حجرے سے اپنی قوم کے روبروبرآمد ہوئے یعنی مسجد سے اور لوگ مسجد کے کھلنے کے منتظر تھے تاکہ حسب معمول ان کے حکم کے مطابق اس میں عبادت کی جاسکے، اور لوگوں سے اشارہ سے کہا کہ تم لوگ صبح وشام خدا کی پاکی بیان کیا کرو نماز پڑھا کرو، یعنی حسب معمول دن کے اول اور آخری حصہ میں اس کی بندگی کیا کرو چناچہ لوگوں سے کلام نہ کرسکنے کی وجہ سے حضرت زکریا کو اپنی بیوی کے یحییٰ کے ساتھ حاملہ ہونے کا علم ہوگیا یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے یحییٰ سے فرمایا اے یحییٰ کتاب یعنی تورات کو مضبوطی سے تھام لو اور ہم نے ان کو لڑکپن ہی میں حکمت نبوت عطا کی یعنی تین سال کی عمر میں اور خاص اپنے پاس سے لوگوں کے لئے رحم دلی عطا کی اور ان کو لوگوں کے لئے وقف کردیا اور وہ (فطری طور پر) پرہیزگار تھے، اور روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کبھی جرم کا ارتکاب نہیں کیا اور نہ کبھی جرم کا قصد کیا اور اپنے والدین کے خدمت گذار تھے یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے تھے سرکش متکبر اور نافرمان نہیں تھے یعنی اپنے رب کی خلاف ورزی کرنے والے نہیں تھے اور اس پر ہماری طرف سے سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن ان کو زندہ کر کے اٹھایا جائے گا، یعنی ان تینوں ہولناک دنوں میں کہ جن میں (انسان) وہ چیزیں دیکھتا ہے جو اس سے پہلے نہیں دیکھی ہوتیں (یعنی ان تینوں دنوں میں ایسی چیزوں سے سابقہ پڑتا ہے کہ اس سے پہلے نہیں پڑا ہوتا) تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد یَحْییٰ (س) حَیَاۃ مضارع مثبت واحد مذکر غائب بمعنی جیتا رہے یحییٰ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے صاحبزادے کا نام ہے چونکہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے ان کی والدہ کا رحم زندہ ہوگیا (یعنی بانجھ پن ختم ہوگیا) اسی لئے ان کا نام یحییٰ (علیہ السلام) رکھا، یحییٰ (علیہ السلام) کی علمیت اور عجمہ کی وجہ سے غیر منصرف ہے قولہ اسمہ یحییٰ غلام کی صفت ہے لم نَجْعَلْہٗ لہ الخ یا تو غلام کی صفت ثانی ہے یا پھر غلام سے حال ہے قولہ عِتِیًّا یہ عَتَا یَعْتُوْ کا مصدر ہے، اس کے معنی اکڑ جانا، نہایت بوڑھا ہونا جوڑوں اور ہڈیوں میں خشکی کا پیدا ہوجانا (1) عِتِیَّا بلغتُ کا مفعول بہ ہے (2) بلغتُ کے معنی کے لئے مصدر مؤکد ہو اس لئے کہ بُلُوْغُ الکِبَرِ عِتِیّا کے معنی میں ہے (3) عِتِیَّا مصدر موقع میں بلغت کے فاعل سے حال واقع ہے، ای بلغت عَاتِیًا (4) تمیز ہونے کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے قولہ ھَیّنٌ ھَوْنٌ سے صفت مشبہ بمعنی آسان أنّی بمعنی کیف یہ حصول دلد کی کیفیت سے سوال ہے نہ کہ بعید اور محال سمجھنے کی وجہ سے، اور استفہام تعجبی بھی ہوسکتا ہے قولہ عِتِیًّا کی تفسیر نھایۃ السن سے تفسیر بالازم ہے قولہ ثلٰث لیال کے بعد باَیَّامِھا کے اضافہ کا مقصد اس آیت اور آل عمران کی آیت میں تطبیق دینا ہے اس لئے کہ وہاں ایام کا ذکر ہے اور یہاں لیال کا ذکر ہے قولہ تاقت (ن) توقًا تُؤقًا وتَوْقَا ناً مشتاق ہونا قولہ وقد خَلَقْتُکَ غلیّ کی ضمیر سے حال ہے، ولم تکُ خلقتکَ کے کاف سے حال ہے سَوِیًّا لا تکَلِّمُ کی ضمیر سے حال ہے قولہ المحراب مسجد، شیطان سے لڑنے کی جگہ قولہ حَنَانًا اس کا عطف الحکم پر ہے حنان بمعنی رحمت، رقتِ قلب قولہ بعد ودلادتِہٖ الخ کے مقدر ماننے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یا یحییٰ محذوف پر مرتب ہے اس لئے کہ یحییٰ کے علوق کی خوشخبری دینے کے بعد فوراً ہی یحییٰ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا ہے حالانکہ وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تو معلوم ہوا کہ کلام میں حذف ہے جس کو مفسر علام نے بعد ولادتہٖ سے ظاہر کردیا۔ یٰذَکَرِیَّا اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ الآیۃ یہ خوشخبری ملائکہ کے ذریعہ دی تھی جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا فَنَادَتْہٗ المَلاَئِکَۃ وَھُوَ قَائِم یُصَلِّیْ فِی المِحْرَابِ أنَّ اللہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ ولادت فرزند کی خوشخبری سنائی بلکہ اس کا نام بھی خود ہی تجویز کردیا اور نام بھی ایسا نرالہ کہ ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں۔ نکتہ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یکتا اور نرالا نام رکھنا محمود ہے بشرطیکہ اس کے معنی نامناسب نہ ہوں اس لئے کہ یہاں نام کی یکتائی کو مقام مدح میں بیان کیا گیا ہے سَمِیًّا کے دوسرے معنی مثل اور مشابہ کے بھی آتے ہیں اگر دوسرے معنی مراد لئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ بعض صفات اور حالات ان کے ایسے ہیں جو انبیاء سابقین میں سے کسی کے نہیں تھے ان صفات خاصہ میں وہ بےمثیل تھے مثلاً ان کا حصور ہونا اس لئے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) تمام انبیاء سابقین سے افضل ہوں کیونکہ ان میں حضرت خلیل اللہ اور حضرت کلیم اللہ کا ان سے افضل ہونا مسلم اور معروف ہے (مظہری) اس لئے کہ جزئی فضیلت سے کلی فضیلت لازم نہیں آتی۔ قَالَ رَبِّ اَنّٰی یکونُ لِی غُلامٌ یہ استفہامِ تعجب و سرور ہے، یا حصول ولد کی کیفیت معلوم کرنے کے لئے ہے یعنی میرے فرزند ہونے کی صورت کیا ہوگی آیا ہم دونوں کی جوانی لوٹا دی جائے گی یا مجھے نکاح ثانی کرنا ہوگا یا بحالت موجودہ ہی اولاد ہوگی حالانکہ ظاہری تمام اسباب مفقود ہیں اس کے بعد حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنی بیوی کے بانجھ ہونے اور اپنے ضعف اور پیری کا ذکر فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا قَالَ کَذٰلِکَ یعنی موجودہ حالت ہی میں اولاد ہوگی میری قدرت کے لئے اسباب عادیہ کی ضرورت نہیں ہے میری قدرت اسباب عادیہ سے وراء الوراء ہے، میرے لئے بغیر اسباب عادیہ کے فرزند عطا کردینا بالکل آسان ہے، اور اسباب عادیہ کے ختم ہوجانے کے بعد دوبارہ لوٹا دینا بھی میرے لئے آسان ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی یعنی حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا نام اشاع ہے جو کہ حضرت عمران کی صاحبزادی ہیں حضرت عمران کی دوسری صاحبزادی کا نام مریم ہے جو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ہیں اس طرح حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں اور حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خالو ہوتے ہیں، یہ قول زیادہ راجح ہے گو اس کے علاوہ بھی ایک قول خالہ زاد بھانجہ ہونے کا ماسبق میں گذر چکا ہے مگر وہ مرجوح ہے۔ قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِیْ آیَۃ ً اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتہ کے ذریعہ فرزند کی خوشخبری سن کر حضرت زکریا (علیہ السلام) مارے خوشی اور مسرت کے بیتاب ہوگئے تو سوال کر بیٹھے کہ اس کی علامت اور نشانی بتا دیجئے تاکہ اس علامت کو دیکھ کر میں سمجھ سکوں کہ اب فرزند کی ولادت کا وقت قریب آگیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود لوگوں سے تین دن اور تین رات گفتگو نہ کرسکو گے اور یہ کیفیت کسی مرض کی وجہ سے نہ ہوگی بلکہ یہ حالت معجزہ اور نشانی کے طور پر ہوگی یہی وجہ ہے کہ تم ذکر و تسبیح بلا کسی رکاوٹ کے کرسکو گے۔ چناچہ جب مذکورہ علامت ظاہر ہوئی تو سمجھ گئے کہ اب فرزند کی ولادت کا زمانہ قریب ہے تو اپنے حجرے سے نکلے اور لوگ نماز پڑھنے کے لئے حجرے کا دروازہ کھلنے کے منتظر تھے، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اشارہ سے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ حسب معمول صبح وشام یعنی فجر اور عصر کی نماز پڑھتے رہو (ان پر یہی دو نمازیں فرض تھیں) یَا یَحْیٰی خُذِ الکِتَابَ بِقُوَّۃٍ یہ محذوف پر مرتب ہے جیسا کہ مفسر علام نے تقدیر عبارت کی جانب اشارہ کردیا ہے یعنی حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی وہ بڑے ہوئے اور ان کے اندر مخاطب بننے کی صلاحیت نمودار ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یَا یَحْیٰی خُذِ الکِتَابَ بِقُوَّۃٍ کتاب سے مراد تو رات ہے اور قوت سے پکڑنے کا مطلب اس پر عمل کے لئے پوری کوشش کرنا ہے۔ وَآتَیْنَاہٗ الحُکْمَ صَبِیَّا اور ہم نے اس کو بچپن ہی میں نبوت عطا فرما دی مفسر علام نے اعطاء نبوت کے وقت تین سال کی عمر بیان فرمائی ہے، حکم سے کیا مراد ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا حکم سے مراد نبوت ہے، اور بعض حضرات نے فہم کتاب مراد لیا ہے اور بعض نے حکمت اب رہا یہ سوال کہ صرف تین سال کی عمر میں فہم کتاب اور علم حکمت کی باتیں کس طرح ممکن ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصلاّ نبوت کا معاملہ ہی خرق عادت کے طور پر ہے لہٰذا صغر سنی، نبوت اور فہم کتاب کے لئے مانع نہ ہوگی، اور ہم نے ان کو اپنے والدین کے لئے اور دیگر لوگوں کے لئے مشفق اور رقیق القلب بنایا اور یہ سب کچھ ہمارے خصوصی فضل سے ہوا اور ہم نے اس کو نفس کی آلائشوں اور گناہوں کی نجاستوں سے پاکیزگی اور طہارت عطا فرمائی، اور وہ اپنے والدین کا فرمانبردار اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا تھا اور نہ تو وہ لوگوں کے لئے جبار اور متکبر تھا اور نہ اپنے پروردگار کا نافرمان وہ متقی اور صالح شخص تھا، حتی کہ اس کے پاکیزہ قلب میں معصیت اور نافرمانی کے وہم کا بھی گذر نہیں ہوا، تین مواقع انسان کے لئے سخت وحشتناک ہوتے ہیں (1) جب انسان رحم مادر سے باہر آتا ہے (2) جب موت کا شکنجہ اسے اپنی گرفت میں لیتا ہے (3) جب اپنی قبر سے زندہ کر کے اٹھا یا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان تینوں موقعوں میں ہماری طرف سے اس کے لئے سلامتی اور امان ہے بعض اہل بدعت اس آیت سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں اگر بالفرض اس آیت سے عید میلاد ثابت ہوتی ہے تو پھر عید وفات بھی ثابت ہوتی ہے یہ کیسی بات ہے کہ آیت کے ایک جز پر تو عمل کریں اور دوسرے جز کو نظر انداز کردیں اَفَتُو ْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الکِتابِ وتکفُرُوْنَ بِبَعْض۔ فائدہ : حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بشارت کا ظہور بشارت کے تیرہ سال بعد ہوا تھا، اس لئے کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کے پاس جو کہ ابھی بچی تھیں اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کی پرورش میں تھیں، بےموسمی پھل دیکھے تو ان کو ہمت ہوئی کہ اگرچہ ہمارے اولاد ہونے کا موسم اور زمانہ ختم ہوگیا ہے مگر خدا کی قدرت سے بعید نہیں کہ مجھے بھی بےموسم لڑکا عطا فرمادے چناچہ بارگاہ خداوندی میں دعا کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت دی، حضرت یحییٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے چھ ماہ چھوٹے ہیں۔
Top