Tadabbur-e-Quran - Maryam : 7
یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ اِ۟سْمُهٗ یَحْیٰى١ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا
يٰزَكَرِيَّآ : اے زکریا اِنَّا : بیشک ہم نُبَشِّرُكَ : تجھے بشارت دیتے ہیں بِغُلٰمِ : ایک لڑکا اسْمُهٗ : اس کا نام يَحْيٰى : یحییٰ لَمْ نَجْعَلْ : نہیں بنایا ہم نے لَّهٗ : اس کا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل سَمِيًّا : کوئی ہم نام
اے زکریا ہم تمہیں ایک فرزند کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی نظیر نہیں بنایا
يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا۔ سچی دعا اور اس کی قبولیت : جب دعا صحیح وقت پر، صحیح مقصد کے لیے، سچے جذبے کے ساتھ اور صحیح الفاظ میں کی جائے تو اس میں اور اس کی قبولیت میں کوئی فاصلہ نہیں رہ جاتا۔ اس کے لیے اسباب کے تمام پردے اٹھا دیے جاتے ہیں۔ ہر طرف تاریکی اور مایوسی ہوتی ہے، اسباب و حالات بالکل نامساعد نظر آتے ہیں، کسی طرف سے بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی لیکن بندہ جب اس امید کے ساتھ اپنے آپ کو اپنے رب کے دروازے پر ڈال دیتا ہے کہ بہرحال میرے لیے یہی دروازہ ہے، میں نے جو کچھ پایا ہے یہیں سے پایا ہے اور جو کچھ پاؤں گا یہیں سے پاؤں گا تو بالآخر اس کے لیے خدا کی رحمت اس گوشہ سے نمودار ہوتی ہے جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا اور اس شان سے نمودار ہوتی ہے کہ اسباب و ظواہر کے غلام اس کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ حضرت زکریا کی یہ دعا بھی ٹھیک مقصد کے لیے، ٹھیک وقت پر اور سچے جذبہ کے ساتھ تھی اس وجہ سے الفاظ زبان سے نکلے نہیں کہ اس کی قبولیت کی بشارت نازل ہوگئی۔ فرمایا کہ اے زکریا ہم تمہیں ایک فرزند کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا۔ " سمی " کے معنی نظیر و مثال کے ہیں۔ اس سورة میں آگے آیت 65 میں ہے۔ " ھل تعلم لہ سمیا " کیا تم خدا کی کسی نظیر سے آشنا ہو۔ یہ حضرت زکریا کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہرچند تم بوڑھے ہو اور تمہاری بیوی بانجھ ہے، بوڑھے مرد اور بانجھ بیوی کے ہاں اولاد کی کوئی نظیر موجود نہیں لیکن ہماری مرضی یہی ہے کہ ہم تمہیں ایسی ہی بےنظیر اولاد دیں۔
Top