Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 44
وَ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَهُمْ لَا یَنْطِقُوْنَ
وَوَقَعَ : اور واقع (پورا) ہوگیا الْقَوْلُ : وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر بِمَا ظَلَمُوْا : اس لیے کہ انہوں نے ظلم کیا فَهُمْ : پس وہ لَا يَنْطِقُوْنَ : نہ بول سکیں گے وہ
(یہ) کیا (عقل کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کیے دیتے ہو حالانکہ تم کتاب (خدا) بھی پڑھتے ہو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
وَاَنْتُمْ تَعْ ( علیہ السلام) لَمُوْنَ : (حالانکہ تم جانتے ہو) یہ جاننے کی حالت میں کہ تم التباس کرنے والے، چھپانے والے ہو اور یہ ان کے لیے قبیح ترین چیز تھی۔ کیونکہ قبیح سے ناواقفی بسا اوقات مرتکب قبیح کے لیے عذربن جاتی ہے۔ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ : (اور تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو) یعنی مسلمانوں والی نماز و زکوٰۃ رکوع کی مراد : وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ : (اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ) جو ان میں سے رکوع کرنے والے ہیں کیونکہ یہود کی نماز میں رکوع نہ تھا۔ (مگر اس کے لیے ثبوت درکار ہے جبکہ حضرت مریم کو فرمایا یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الرٰکعین فرمایا گیا ہے فافھم) یعنی تم اسلام لا کر اہل اسلام کے اعمال کرو۔ اور یہ بھی درست ہے۔ کہ رکوع سے خود نماز مراد ہو جیسا کہ نماز کو سجود سے تعبیر کیا جاتا ہے اور نمازیوں کے ساتھ نماز کا حکم جماعت کے لیے ہے یعنی نمازیوں کے ساتھ نماز ادا کرو۔ الگ الگ نہیں۔ برّ کا مفہوم : اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ : (کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو) ہمزہ تقریر یہاں تو بیخ کے لیے ہے اور ان کی حالت پر اظہار تعجب مقصود ہے۔ بالبر : بھلائی ونی کی پھیلانے کا اور اسی سے البرّ بمعنی جنگل ہے جو اس کی وسعت کی وجہ سے کہا جاتا ہے البرّہر خیر کو شامل ہے اور اسی سے انکا قول صدقت وبررت ہے۔ احبار یہود اپنے اقارب کو خفیہ نصیحت کرتے تو اتباع محمد ﷺ کی نصیحت کرتے مگر خود اتباع نہ کرتے تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ صدقہ کا حکم دیتے مگر صدقہ نہ کرتے۔ جب ان کو صدقات تقسیم کے لیے دئیے جاتے وہ ان میں خیانت کرتے۔ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ : (اور تم اپنے آپ کو بھلاتے ہو) تم اپنے نفوس سے نیکی چھوڑتے ہو جیسے کوئی بھولی بسری چیزیں ہوتی ہیں۔ وعید یا تبکیت : وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ : (حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو) نمبر 1 : یہ ان کو بطور تبکیت کہا کہ تم تورات پڑھتے ہو حالانکہ اس میں محمد ﷺ کی تعریف موجود ہے۔ نمبر 2 یا : اس میں خیانت پر وعید موجود ہے۔ اور ترک برّ اور قول وعمل کے تضاد پر وعید پائی جاتی ہے۔ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ : (کیا تم سمجھتے نہیں ہو) کیا تم اس کی قباحت نہیں سمجھتے جس کا تم اقدام کرتے ہو۔ تاکہ اس کی قباحت کی اپنے ہاتھوں تصدیق کرو۔ یہ بہت بڑی تو بیخ ہے وَاسْتَعِیْنُوْا : (اور تم مدد لو) تم مدد طلب کرو اپنی ضروریات میں اللہ تعالیٰ سے۔ صبر و استعانت : بِالصَّبْرِوَالصَّلٰوۃِ : (صبرو نماز کے ساتھ) ان دونوں کو جمع کر کے اور نماز کی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے تم نماز پڑھو۔ اس طرح کہ اس کی مشقتیں برداشت کرنے والے ہو۔ اور جو چیزیں اس میں ضروری ہیں۔ جیسے اخلاص قلب۔ دفع وساوس شیطانیہ : وھواجس نفسانیہ اور مراعاۃ آداب۔ خشوع اور اس بات کا استحضار کہ تم جبار السمٰوٰت والارض کے سامنے کھڑے ہو۔ یا مصائب و آفات میں صبر کر کے مدد طلب کرو۔ اور ان مصائب کے وقوع کے وقت نماز کی طرف جھکو۔ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی گھبراہٹ والا معاملہ پیش آتا۔ تو نماز کی طرف جلدی کرتے۔ ( رواہ الطبری فی تفسیرہ ٖ ) حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو قُثَمْ ؓ کی موت کی خبر دوران سفر ملی تو انہوں نے اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھی اور دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر یہ آیت تلاوت کی۔ واستعینوا بالصبروالصلٰوۃ۔ یہ بھی کہا گیا۔ کہ الصبر روزے کو کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ روزہ مفطرات سے اپنے آپ کو روک رکھنے کا نام ہے اور اسی طرح رمضان المبارک کو شہر الصبر فرمایا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ الصلوٰۃ سے دعا مراد ہے یعنی مصائب پر صبر اور دعا کی التجا سے اور اللہ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر اس کے دور کرنے میں مدد حاصل کرو۔ مرجع ضمیر : وَاِنَّھَا : (اور بیشک وہ) نحونمبر 1 : ضمیر نماز کی طرف لوٹ رہی ہے۔ نمبر 2: استعانت کی طرف لوٹ رہی ہے۔ لَکَبِیْرَۃٌ : (البتہ بھاری ہے) شاق اور بھاری ہے جیسا کہ کہتے ہیں کبر علیّ ھذا الامر۔ یہ معاملہ مجھ پر گراں گذرا اِلَّاعَلَی الْخٰشِعِیْنَ : (مگر خاشعین پر) کیونکہ وہ توقع رکھتے ہیں اس اجر کی جو صابرین کے لیے ان کی تھکاوٹوں پر ملے گا۔ پس جنت ان پر آسان ہوجائے گی۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر نگاہ نہیں ڈالتے ؟ اَ لَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَ نَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ : (وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں اپنے رب کی ملاقات کا) اپنے ثواب کو پانے کی توقع رکھتے ہیں۔ اور اس چیز کے پانے کی جو اللہ کے ہاں ہوگی۔ یظنون کی تفسیر عبد اللہ بن مسعود ؓ کی قراءت کی وجہ سے یعلمون ہے یعنی وہ جانتے ہیں جزاء کا ملنا یقینی ہے پس ان کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں۔ باقی جن کو جزاء کا یقین نہیں۔ اور جزاء پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ثواب کے امیدوار ہیں۔ ان پر یہ خالص مشقت ہے۔ الخشوع اخبات۔ التطامن۔ فروتنی و عاجزی۔ الخضوع نرمی۔ انقیاد۔ اطاعت اللقاء کی تفسیر : رؤیت و دیدار یعنی وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ کہ ان کو اس کا بلا کیف دیدار ہوگا۔ وَاَ نَّھُمْ اِلَـیْہِ رٰجِعُوْنَ : (اور بیشک وہ اس کی طرف لوٹنے والے ہیں) ان کے معاملات کا آخرت میں اس کے سواء اور کوئی بھی مختار نہ ہوگا۔
Top