Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
کیا لوگوں کو تم (اے بنی اسرائیل) نیکی کرنا بتلاتے ہو اور اپنی خبر نہیں رکھتے حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو پھر کیوں نہیں سمجھتے
ترکیب : اَ استفہامیہ داخل ہے جملہ تامرون الناس الخ پر اور یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسا نہ کرو تامرون الناس الخ جملہ معطوف علیہ وتنسون الخ دوسرا جملہ اس پر معطوف وانتم تتلون الکتاب جملہ اسمیہ حال ہے ضمیر فاعل تنسون سے افلاتعقلون جملہ استفہامیہ بمعنی توبیخ یہاں تک یہ جملہ معترضہ سا تھا اس کا شان نزول ابن 1 ؎ عباس ؓ سے یوں منقول ہے کہ علمائِ یہود اپنے ان اقارب سے جو مسلمان ہوگئے تھے یہ کہتے تھے کہ اسی دین پر قائم رہو کیونکہ یہ حق ہے اور از خود اسلام میں داخل نہ ہوتے تھے (جلالین) بعض کہتے ہیں کہ اوروں کو صدقہ اور خیرات کا حکم دیتے تھے اور خود نہ کرتے تھے (بیضاوی) واستعینوا الخ معطوف ہے اذکروا پر یا آمنوا پر بالصبر والصلوۃ معطوف علیہ اور معطوف متعلق ہیں استعینوا سے وانھا ای الصلوٰۃ لکبیرۃ جملہ مستثنیٰ منہ الا حرف استثنا علی الخاشعین موصوف الذین الخ صلہ و موصول اس کی صفت یہ سب مستثنیٰ ۔ تفسیر : اے بنی اسرائیل باوجودیکہ تم کتاب یعنی تورات پڑھتے ہو اور اس میں خود اعمال صالحہ کرنے کی تاکید اور کلام انبیاء میں آپ عمل نہ کرنے، دوسرے کو نصیحت کرنے پر بڑی تہدید بھی ہے تم خود عمل نہیں کرتے اور لوگوں کو وعظ و تدریس کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہو۔ تمہارے نفس سرکش ہیں کہ ان اعمال صالحہ اور قید شریعت اور روحانی صفائی کو اختیار نہیں کرتے۔ سو اس کا علاج روحانی طور پر یہ ہے کہ تم روزہ اور نماز سے مدد لو نفس کو مشقت کشی کا عادی بناؤ کس لیے کہ روزہ میں باوجود ہر طرح کے سامان اکل و شرب و جمال مہیا ہونے کے صبر کرنا اور اس کی خواہش سے روکنا ہوتا ہے اور پھر نماز میں مشغول ہو کر ہاتھ پائوں تمام جسم کو اس کی عبادت میں مصروف کرنا ‘ زبان اور روح کو اس کی طرف متوجہ کرنا اور تسبیح و تقدیس کرنا قرآن پڑھنا ہے ان سب کا مجموعہ روح کو نہایت تازہ کرتا ہے جس سے نفس کی تیزی ٹوٹ جاتی ہے اور حبِّ جاہ و مال اور ہر قسم کی نفسانی خواہش کہ جو عمل سے مانع آتی ہے پژمردہ ہوجاتی ہے صبر و نماز سے مدد لینے کے یہ معنی ہیں (اور واقعی جسمانی ریاضت سے جو تزکیہ نفس کہ سالہا سال میں حاصل نہیں ہوتا وہ روحانی تقرب سے دم بھر میں حاصل ہوجاتا ہے۔ تھوڑی سی دیر اس 1 ؎ اس کے شان نزول کے یہ معنی ہیں کہ یہ آیت ان یہودی علماء پر صادق آتی ہے یا اس میں ان کی طرف تعریض اور اشارہ ہے کہ جو خود اچھے کام نہیں کرتے تھے اوروں کو وعظ و پند کرتے تھے جیسا کہ عموماً علمائِ بےعمل کیا کرتے ہیں ورنہ خاص اس آیت کا ان لوگوں کے لیے اور اس حال پر متنبہ کرنے کے لیے جداگانہ نازل ہونا جب تسلیم کیا جائے کہ جب کسی سند صحیح سے یہ بات معلوم ہوجائے کہ یہ آیت الگ ہو کر نازل ہوئی ہے اور اس سے اگلا پچھلا کلام جداگانہ نازل ہوا ہے۔ 12 حقانی کی طرف مراقب اور متوجہ ہونے سے کسی قدر نفس کو پژمردگی اور روح کو تازگی حاصل ہوتی ہے) اور یہ نماز بھی فی نفسہٖ ایک بھاری بات ہے اس کے بھی وہی متحمل 1 ؎ ہوتے ہیں کہ جو خدا کے آگے عاجزی کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو اس کے پاس جانا ہے۔ امام احمد وغیرہ نے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ کو جب کبھی رنج و غم لاحق ہوتا تھا تو نماز میں مشغول ہوجاتے تھے۔ اس سر کے لیے امت محمدیہ پر پنج وقتہ نماز فرض ہوئی اور اس لیے اس کی نسبت فرمایا اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرْ کہ نماز ہر قسم کی برائی اور گناہ سے روکتی ہے۔ نماز کے فضائل اور اس کے تارک پر جو کچھ تہدید احادیث صحیحہ میں وارد ہے اس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔ فائدہ : اس آیت سے اس شخص کی برائی ثابت ہوئی کہ جو ان کو نصیحت کرتا ہے اور خود عمل نہیں کرتا کس لیے کہ اس کا یہ فعل ایسا ہے کہ جیسا کوئی جاہل یا احمق کرتا ہے اور جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس کلام کا اس کو اعتقاد نہیں ورنہ خود بھی عمل کرتا، اسی لیے صحاح ستہ میں ہے کہ نبی ﷺ نے لوگوں کی زبان کو جہنمی فرشتوں کو آگ کی مقراضوں سے کاٹتے دیکھا تو جبرئیل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہا یہ وہ لوگ ہیں کہ جو خود عمل نہ کرتے تھے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔ مگر اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ فاسق کو وعظ کہنا منع ہے۔ کس لیے کہ انسان پر جس طرح عمل کرنا فرض ہے دوسروں کو سمجھانا بھی فرض ہے۔ ایک فرض کے ترک کرنے والے کو کیا ضرور ہے کہ دوسرے فرض کو بھی ترک کرے۔
Top