Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 117
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
کیا تم لوگوں کو وفاداری کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو اور حال یہ ہے کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں۔
ارشاد فرمایا : اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ (کیا تم لوگوں کو وفاداری کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو اور حال یہ ہے کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں) (البقرۃ۔ 44) اَلْبِرْ کا مفہوم اس آیت کریمہ میں البر کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ ” اے علمائے یہود ! تم لوگوں کو تو بِرٌّ کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو “۔ برکا ترجمہ عام طور پر ” نیکی “ سے کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں جس طرح علماء یہود پر گرفت ہورہی ہے اور ان کے اس گناہ کو قومی جرم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے البر کا ترجمہ نیکی کرنا مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس کی جو وضاحت صاحب تدبر قرآن نے کی ہے وہ مفہوم کی وضاحت میں زیادہ موثر معلوم ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ” بِرّ : بر کا لفظ عربی زبان میں ایفائے عہد، وفاداری اور ادائے حقوق کے معنی میں آتا ہے۔ حقوق میں ہر قسم کے حقوق شامل ہیں، بنیادی اور حقیقی بھی۔ مثلاً اللہ کی فرمانبرداری، والدین کی اطاعت اور خلق کے ساتھ ہمدردری۔ پھر آگے چل کر اس میں وہ حقوق بھی شامل ہوجاتے ہیں جو قول وقرار اور معاہدات سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے لفظ احسان نیکی کی تمام قسموں پر حاوی ہے اور عدل کا بھی ہم معنی ہے۔ اپنے استعمالات کے لحاظ سے یہ لفظ اثم (حق تلفی) عقوق (والدین کی نافرمانی) غدر (بےوفائی) اور ظلم کا ضد ہے۔ بَرٌّ اور بَارٌ اس سے صفت کے صیغے میں استعمال ہیں۔ مثلاً کہیں گے۔ بَرٌّبِوَالِدِہٖ ” وہ اپنے باپ کا فرمانبردار ہے “۔ بربالقسم کے معنی ہیں ” اس نے اپنی قسم پوری کی۔ “ قرآن مجید میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی تعریف میں وارد ہے : وَکَانَ تَقِیًّا۔ وَّبَرًّا م بِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا (مریم : 13، 14) (وہ پرہیز گار اور اپنے ماں باپ کا فرمانبردار تھا، سرکش اور نافرمان نہ تھا) دوسری جگہ فرمایا : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط (آل عمران : 92) (تم اللہ کی فرمانبرداری کا حقیقی درجہ حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم محبوب رکھتے ہو) اللہ تعالیٰ کی تعریف میں ہے : اِنّـہٗ ھُوَ الْبَرُّالرَّحِیْمُ ۔ (طور : 28) (بےشک وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا اور مہربان ہے) نیز فرمایا ہے : وَتَعَاوَنُوْاعَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَاتَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (2۔ مائدہ) (اور تعاون کروایفائے حقوق اور تقویٰ کے کاموں میں اور نہ تعاون کروحق تلفی اور تعدی کے کاموں میں) اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ برکا لفظ ایک پہلو سے نیکی اور بھلائی کے تمام کاموں پر مشتمل ہے۔ لیکن اپنے خاص مفہوم کے لحاظ سے یہ حقوق اور فرائض کے ایفا کے لیے آتا ہے۔ اس آیت کے مخاطب یہود کے علماء اور اکابر ہیں۔ آخر کا ٹکڑا اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْـکِتٰبَ ” اور حال یہ ہے کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو “ ، ہمارے اس خیال کی نہایت واضح طور پر تائید کررہا ہے۔ ان علما اور اکابر کو مخاطب کرکے یہ بات کہی جارہی ہے کہ تم عوام کو تو بڑے زوروں سے حقوق اور فرائض ادا کرنے کی تلقین کرتے ہو، لیکن یہ تلقین کرتے وقت اپنے آپ کو بالکل بھول جاتے ہو۔ لوگوں کو تو نصیحت کرتے ہو کہ اپنے مال تمہارے حوالہ کریں لیکن خود تمہارے اوپر خدا کے اور غریبوں کے جو حقوق ہیں ان کا خیال تمہیں کبھی نہیں آتا، بلکہ تم لوگوں کا دیا ہوامال ہڑپ کرکے بیٹھ جاتے ہو۔ تم نے دوسروں پر تو اپنی اطاعت پوری سطوت کے ساتھ واجب کررکھی ہیں، یہاں تک کہ تم ان کے رب بن بیٹھے ہو، لیکن خود اللہ کی اطاعت اور اس کی فرمانبرداری سے بالکل آزاد ہو، نماز اور زکوٰۃ کو ضائع کرکے تم نے پورے دین کو بالکل برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ علمائے یہود کی اس حالت کی طرف حضرت مسیح (علیہ السلام) نے بھی نہایت بلیغ الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے :۔ ” اس نے کہا اے شرع کے عالمو ! تم پر بھی افسوس کہ تم ایسے بوجھ جن کا اٹھانا مشکل ہے، آدمیوں پر لادتے ہو اور آپ ایک انگلی بھی ان بوجھوں کو نہیں لگاتے۔ “ (لوقاب 11۔ 47) غور کیجئے، انجیل کے ان الفاظ اور قرآن مجید کے مذکورہ بالا الفاظ میں کتنی مطابقت ہے ! آیت کے آخر میں فرمایا اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ” کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے “۔ یعنی اگر تم مذہب کی حقیقت اور روح سے بالکل بےبہرہ ہوگئے ہو اور حُبِّ دنیا اور حُبِّ جاہ نے تمہارے اندر سے اخلاقی صفات نکال دی ہیں، تو تمہارے سروں میں عقل تو ہے۔ تم اگر کتاب سے کام نہیں لیتے تو عقل سے پوچھ کر دیکھ لو کہ جس قوم کے اہل علم، اہل دانش اور مذہبی رہنمائوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ جن باتوں کا لوگوں کو حکم دیں اور جن باتوں کی افادیت صداقت اور اہمیت پر زور دیں اور خود ان کی زندگی کا عمل اس کے یکسر خلاف ہو اور ان کے قول وعمل میں تضاد واقع ہوجائے اور وہ اپنی زندگی کے لیے الگ جزیرے بناکر بیٹھ جائیں تو اس قوم کے شیرازے کو بکھرنے سے کون روک سکتا ہے۔ یعنی مذہب کو تو ایک طرف رہنے دیجئے، اگر تم اپنی قوم کے معاملے میں تھوڑاسا بھی اخلاص رکھتے ہو اور تم اپنی قومی وحدت کے بارے میں اگر واقعی سنجیدہ ہو تو اپنی عقل سے پوچھو کہ تمہارا یہ رویہ آخر کیا نتائج پیدا کرے گا۔ اگلی آیت کریمہ میں آخری بات کے طور پر یہ ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ اگرچہ تمہارے اعمال میں تبدیلی کی امید بہت مشکل ہے لیکن اگر تمہارے کسی طبقے میں اس تبدیلی کی کچھ بھی خواہش ہو تو ہم تمہیں اس کا علاج بتادیتے ہیں اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہاری وہ کمزوریاں جن سے نکلنا تمہارے لیے مشکل ہورہا ہے ان سے نکلنا تمہارے لیے آسان ہوجائے گا۔
Top