Anwar-ul-Bayan - Al-Muminoon : 71
وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ١ؕ بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَؕ
وَلَوِ : اور اگر اتَّبَعَ : پیروی کرتا الْحَقُّ : حق (اللہ) اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات لَفَسَدَتِ : البتہ درہم برہم ہوجاتا السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهِنَّ : ان کے درمیان بَلْ : بلکہ اَتَيْنٰهُمْ : ہم لائے ہیں ان کے پاس بِذِكْرِهِمْ : ان کی نصیحت فَهُمْ : پھر وہ عَنْ ذِكْرِهِمْ : اپنی نصیحت سے مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرنے والے ہیں
اور اگر حق ان کی خواہشوں کے تابع ہوجائے تو آسمان اور زمین اور جو ان کے اندر ہیں سب تباہ ہوجائے بلکہ ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت بھیجی ہے سو وہ اپنی نصیحت سے رو گرادنی کررہے ہیں،
منکرین کی خواہشوں کا اتباع کیا جائے تو آسمان و زمین میں فساد آجائے، کافر راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں یہ سات آیات ہیں ان میں پہلی آیت میں یہ فرمایا کہ حق لوگوں کے خلاف اور ان کی خواہشوں کے تابع نہیں ہوسکتا اگر ایسا ہوجائے تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے کیونکہ جب حق لوگوں کی خواہشوں کے تابع ہوگا تو حق ہی نہیں رہے گا اگر لوگوں کو کھلی چھٹی دیدی جائے کہ اپنی اپنی مرضی کے مطابق جو چاہیں کریں تو وہ اپنی طبیعتوں کے مطابق کفر و شرک کو اختیار کریں گے اور برے اعمال ہی کی طرف چلیں گے جب ایسا ہوگا تو سب قہر الہٰی کے مستحق ہوجائیں گے اور غضب الہٰی کا نزول ہوگا تو خود بھی ہلاک ہوں گے اور آسمان و زمین بھی اور ان میں جو کچھ ہے وہ بھی۔ کیونکہ سارے عالم کا بقا اہل ایمان کے بقا سے ہے اسی لیے حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک زمین پر اللہ اللہ کہا جاتا رہے گا۔ (رواہ مسلم) (بَلْ اَتَیْنَاھُمْ بِذِکْرِھِمْ فَہُمْ عَنْ ذِکْرِھِمْ مُعْرِضُوْنَ ) (بلکہ بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت بھیجی ہے سو یہ لوگ اپنی نصیحت سے رو گردانی کرتے ہیں) نصیحت ربانی سے منہ موڑ کر اپنی جہالتوں اور ضلالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دوسری اور تیسری آیت میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب ہے، ارشاد فرمایا کیا آپ ان سے کچھ آمدنی کا مطالبہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ایمان قبول نہیں کرتے، یہ استفہام انکاری ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ ان سے کوئی پیسہ کوڑی طلب نہیں کرتے تاکہ یہ یوں کہیں کہ یہ نبوت و رسالت والی بات اس لیے چلائی ہے کہ لوگ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کو کچھ دیا کریں جب آپ کی طرف سے دعوت ایمان کی ساری محنت بالکل للہ فی اللہ ذرا سا بھی شائبہ کسی طرح کی دنیا طلبی کا نہیں ہے تو پھر انہیں کفر پر جمے رہنے کے لیے اس بات کو بہانہ بنانے کا بھی موقع نہیں ہے کہ دنیا کے لالچ کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں اور آپ کو کسی مخلوق سے کچھ چاہنے کی ضرورت ہی کیا ہے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کو دیا ہے اور جو کچھ عطا فرمائے گا وہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ سب دینے والوں سے بہتر عطا فرمانے والا ہے، پھر ارشاد فرمایا کہ آپ انہیں سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہیں آپ اپنے کام میں لگے رہیں۔ چوتھی آیت میں فرمایا کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں حق واضح ہوجانے پر بھی صراط مستقیم پر نہیں آتے، پانچویں آیت میں فرمایا کہ اگر ہم ان پر مہربانی کردیں اور وہ جن تکلیفوں میں مبتلا ہیں انہیں دور کردیں تو اس کی وجہ سے شکر گزار نہ ہوں گے اور ایمان کی راہ اختیار نہ کریں گے بلکہ برابر سر کشی کرتے رہیں گے، یہ انسان کا مزاج ہے کہ خوش حالی میں اور آرام و راحت میں صراط مستقیم سے ہٹ کر چلتا ہے اور مزید بغاوت پر کمر باندھ لیتا ہے جیسا کہ سورة زمر میں فرمایا (وَاِِذَا مَسَّ الْاِِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِیبًا اِِلَیْہِ ثُمَّ اِِذَا خَوَّلَہُ نِعْمَۃً مِّنْہُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدْعُو اِِلَیْہِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّہِ اَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ ) (اور آدمی کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع ہو کر اسی کو پکارنے لگتا ہے پھر جب اللہ تعالیٰ اس کو اپنے پاس سے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو جس کے لیے پکار رہا تھا اس کو بھول جاتا ہے اور خدا کے شریک بنانے لگتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے دوسروں کو گمراہ کرتا ہے) ۔ چھٹی اور ساتویں آیت میں یہ فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں کو بعض اوقات عذاب میں گرفتار کیا لیکن اس وقت بھی ان لوگوں نے اپنے رب کے حضور میں فروتنی اور عاجزی اختیار نہ کی۔ معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قریش مکہ کی سر کشی پر ان کے لیے بد دعا فرما دی کہ یا اللہ ان پر قحط کے ایسے سال بھیج دے جیسے یوسف (علیہ السلام) کے عہد میں بھیجے تھے جب قحط پڑا اور بہت ہی بد حالی کا سامنا ہوا تو ابو سفیان (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) خدمت عالی میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا، آپ یہ نہیں فرماتے کہ میں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں یہ بات ضرور کہتا ہوں، اس پر ابو سفیان نے کہا ہمارے بڑوں کو تو آپ نے (بدر میں) تہ تیغ کردیا اور اب ہمارے بیٹوں کو بھوک سے مار رہے ہیں، اللہ سے دعا کردیجیے کہ ہمارے قحط کی مصیبت کو دور فرما دے، آپ نے دعا فرما دی جس سے ان کی مصیبت دور ہوگئی اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (وَ لَقَدْ اَخَذْنَا ھُمْ ) (آخر تک) نازل فرمائی اس میں یہ بتایا کہ ان لوگوں پر مصیبت آچکی ہے پھر بھی اپنے رب کے سامنے نہ جھکے یعنی حسب سابق کفر پر قائم رہے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ عین عذاب کے وقت بھی اپنے رب کی طرف متوجہ نہ ہوں وہ آرام و راحت اور عافیت کے زمانے میں تو اور بھی زیادہ بغاوت اور سر کشی اختیار کریں گے۔ (حَتّٰی اِِذَا فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ ) یہاں تک کہ جب ہم ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں تو وہ اچانک حیرت زدہ ہو کر رہ جائیں گے (اور وہ اس وقت بھی توبہ نہ کرسکیں گے) اس میں تنبیہ ہے اور وعید بھی ہے کہ اچانک سخت عذاب میں گرفتار کیے جاسکتا ہیں لہٰذا اس سے بچنے کے لیے ہمارے بھیجے ہوئے بنی پر اور نازل کی ہوئی کتاب پر ایمان لائیں۔ معالم التنزیل میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ سخت عذاب سے مشرکین کا غزوہ بدر میں قتل ہونا مراد ہے اور بعض حضرات نے اس سے موت اور بعض حضرات نے قیامت قائم ہونا مراد لیا ہے اور مُبْلِسُونَ کا ترجمہ آئسون من کل خیر کیا ہے یعنی جب سخت عذاب کا دروازہ کھلے گا تو ہر خیر سے نامید ہوجائیں گے۔
Top